ہوم << نثری نظم کی ہیئت اور قواعد و ضوابط - فرحت عباس شاہ

نثری نظم کی ہیئت اور قواعد و ضوابط - فرحت عباس شاہ

پہلے تو ایک طویل عرصہ نثری نظم کی قبولیت اور رد پر بحث ہوئی ۔ پھر جب استرداد کمزور پڑا تو شاعری جنہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی وہ بھی اناپ شڑاپ لکھ کر شاعر بن بیٹھے ۔ کچھ نے لاینعیت کی آڑ میں دکان سجائی تو کسی نے بدیسی زبانوں سے تراجم کا لب و لہجہ اپنا لیا ۔

دوسری طرف اگر کسی مقبول عام شاعر نے صنف کو شعری خد و خال عطاء کیے تو نشانہ باندھ کر انہیں نثری نظم لکھنے والوں کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ یہ تعلیمی نصاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصناف کی تعریف کرے اور ہٸیتوں کے خدوخال کی ترتیب کی وضاحت کرے لیکن جہاں نصاب ہی مصنوعی اور سازشی ہو اور اسے پڑھانے والے کسی قسم کا نان کالونٸیل علمی و ادبی نظریہ قبول کرنے پر تیار نہ ہوں تو کسی علمی پیش رفت کی کیسے امید لگاٸی جا سکتی ہے ۔

میں نے علمی و ادبی معاملات میں ان ہی لوگوں کو تنگ نظر پایا ہے جو علم و ادب کے تعلیم و تدریس کے پیسے لیتے ہیں۔ اس ساری صورتحال سے نتیجہ یہی نکالا جاسکتا ہے کہ نظریہ سازی اور نصابی کوتاہیوں کی نشاندیہی کی ذمہ داری اب صاحب اخلاص و ادراک تخلیق کاروں کو ہی اپنے سر لینی پڑے گی ۔ یہ جانتے ہوے کہ یہ تہذیب کے تحفظ کی جنگ ہے جو نصاب بنانے اور پڑھانے والوں سے لڑنا ہوگی ۔ یقین جانیے ہمارے علمی و ادبی ارتقاء کی کسی بھی کوشش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تعلیمی اداروں میں پنجے گاڑے بیٹھے کالونٸیل منشی ہیں جو آج بھی انسان دشمن سامراجی نصاب کی ٹوپیاں پہنا کر ہماری نسلوں سے تخلیقی و تجزیاتی فکر کو چھین لینے کی ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔

نثری نظم کے معاملے میں میرا نقطہء نظر یہ ہے کہ ہمیں اب اس کے خدوخال ترتیب دینے کے لیے مغرب سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ کم از کم پون صدی کے بعد تو ہمیں اس قابل ہوجانا چاہیے کہ ہم اس کی ہئیت کی بنیادی آوٹ لاٸن وضع کریں ۔ اگرچہ اس میں بھی کوٸی شک نہیں کہ جنگلی پھولوں سے لیکر پہاڑی ندیوں تک اور ایک بچے کی مسکراہٹ سے لیکر کسی ہرن کی اٹھکیلی تک فطرت کی صناعی سب شاعری ہے لیکن اس کے لیے فطرت نے کس قدر اہتمام سے کام لیا ہے یہ ذرا کبھی ماہرین سے جا کے پوچھیں ۔ اگر نثری نظم شاعری کی صنف ہے تو پھر اسے بھی اسی طرح سیکھنا اور سمجھنا پڑے گا جس طرح مثنوی ، رباعی ، غزل ، آزاد غزل اور آزاد نظم کی ہئیت اور صنف کو سمجھنا اور سیکھنا پڑتا ہے ۔

غزل کا مصرعہ بے وزن ہوجاۓ ، قافیہ بے قاعدہ ہوجاۓ ، عیب تنافر دکھاٸی دے ، شترگربہ آجاۓ ، حتیٰ کہ ردیف ہی کہیں پوری طرح چمک نہ دکھا سکے تو شعراء و ناقدین بول اٹھتے ہیں لیکن یہ کیا تضاد ہے کہ نثری نظم جو کسی موجود سہارے کے بغیر شعریت کی تجسیم کا نام ہے بغیر کسی اصول اور قاعدے کے لکھی جاتی رہے اور جس کا جو دل کرے لکھ کے کہے یہ نثری نظم ہے ۔ ویسے تو اب غزل کا حال بھی یار لوگوں نے انتہا درجے کا خراب کرکے رکھ چھوڑا ہے لیکن ہمیں بہرحال کہیں نہ کہیں تو اپنا کردار ادا کرنا ہی ہوگا ۔ ایک اور بات جو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ کوٸی نثری نظم کیوں لکھتا ہے ؟

کیا صرف اس لیے کہ اسے غزل اور نظم لکھنا نہیں آتی اور وہ وزن میں لکھنے سے قاصر ہے ؟ تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نثری نظم کوئی ایسی صنف ہے جو اس لیے لکھی جاتی ہے کہ کوئی اوزان ، بحور اور عروض نہیں جانتا اس لیے نثری نظم کو آسان سمجھ کر اپنے خیالات جس طرح چاہے لکھ ڈالے ۔ اگر آسانی کا یہی کلیہ قبول کر لیا جاۓ تو پھر اسے نثری نظم ہی کیوں کہا جاۓ ؟ خیالات یا اظہاریہ کیوں نہ کہا جاۓ ۔ دوسری یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگر کوئی تخلیق کار ، کہانی ، غزل اور نظم کہنے پر قادر ہے تو پھر اس کے پاس نثری نظم کہنے کا کیا جواز ہے ۔ کیا صرف اس لیے کہ اس کے کریڈٹ پر ایک اور صنف آ جاۓ ؟

شاعری کے ساتھ ایسا کھلواڑ وہی کرے گا جس کے نزدیک شاعری محض چابکدستی اور ہنر مندی کا کام ہے ۔ میں ایسے بےشمار مشقتی شعراء کے نام گنوا سکتا ہوں جنہوں نے مصرعہ سازی اور قافیہ و ردیف پیماٸی میں مہارت کی بنیاد پر بے رس اور بے تاثیر شاعری نما کوٸی چیز گھڑی ، مشہور ہوے اور پھر اپنی لکڑی سے بنی اور لوہے کی ڈھلی شاعری سمیت منوں مٹی تلے جا سوۓ ۔ میرے نزدیک نثری نظم لکھنے کا سب سے بڑا جواز ہی یہ ہے کہ یہ صنف ایسی کیفیات ، احساسات ، خیالات اور فکر کو ایک مختلف لسانی اسلوب اور استعاراتی و تشبیہاتی نظام کے ساتھ اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے جو غزل یا نظم یا دوسری اصناف میں سماۓ نہیں جاسکتے ۔

یہ بہت ضروری ہے کہ نثری نظم کا مصرعہ بتاۓ کہ وہ نثری نظم کا مصرعہ ہے ۔یہاں تک کہ اسے مرصع اور تخلیقی نثر سے بھی مختلف رہنا ہوگا ۔ ہمیں وہ حد ِ امتیاز اور خط ِ فاصل کھینچنا ہوگا جو ان اصناف کے اپنے اپنے ہٸیتی داٸرے اورصنفی انفراد کا اعلان کرے ۔ میری نظر میں ذیل میں دیے گئے دس نکات نثری نظم کے خدوخال کی وضاحت کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ۔

1 . نثری نظم سے مراد نثر میں پیدا کی گٸی نظم کی ہیت ہے.

2. نثری نظم قطعی طور پر نثر کے فقروں کو پیراگراف میں لکھنے کی بجاۓ پیراگراف کو توڑ کر آزاد نظم کی شکل دیتی ہوٸی لائنوں پر مشتمل نہیں ہوتی کیونکہ اس سے یہ نثر ہی رہتی ہے جسے لاٸنوں میں لکھا گیا ہو .

3. نثری نظم اور نثر کا پہلا فرق یہ ہے کہ اس صنف میں نثری فقرے نہیں ہوتے بلکہ نثری مصرعے ہوتے ہیں .

4. نثر میں رہ کے مصرعہ بنانا ہی وہ کمال ہے جو نثری نظم کے شاعر کا پہلا مرتبہ بتاتا ہے ۔ مصرعہ جتنی طاقتور شعریت لیے ہوے ہوگا اور باطنی ردھم کیساتھ ہوگا نظم اتنی ہی عمدہ قرار دی جاسکے گی .

5. اگر کسی شاعر کو نثر کا مصرعہ بنانا نہیں آتا تواسے نثری نظم کا پتہ نہیں ہے ۔ یا اگر نثری نظم میں منظوم مصرعے کی پہچان نہیں رکھتا تو سمجھیں صنف سے انجان ہے .

6. نثر کے فقروں کو آپس میں جوڑنے والے حروف ربط مثلاً تاکہ ، چونکہ ، اور ، پھر ، اگر ، مگر ، اس لیے کہ ، جیسا کہ وغیرہ وغیرہ کا استعمال جتنا زیادہ ہوگا وہ نظم کم اور نثر زیادہ ہوتی جاۓ گی ۔ یہی حروف نثر اور نظم کے درمیان خط امتیاز کھینچتے ہیں۔ اس لیے خیال رکھا جانا چاہیے کہ یہ کم سے کم استعمال ہوں اور جہاں ہوں وہاں مصرعے کا وزن ، ردھم اور تاثر بڑھا دیں۔

7 . نثری نظم غیر عروضی ہوتی ہے لیکن بے وزن نہیں ہوتی ۔ البتہ اس میں خارجی کی بجاۓ باطنی ردھم ہوتا ہے .

8. نثری نظم جداگانہ طرز احساس کے حامل اسلوب کا تقاضا کرتی ہے ۔ ایسے موضوعات ، ایسا طرز احساس اور ایسا لسانی ، استعاراتی و تشبہاتی قرینہ جو غزل و نظم میں برتا جاۓ تو نامانوس لگے مگر نثری نظم میں آۓ تو اس کے صنفی تقاضوں کو پورا کرے .

9. نثری نظم چونکہ بحور اور قافیہ ردیف کی مدد کے بغیر شاعری کرنے کا نام ہے اس لیے یہ باقی اصناف کی نسبت زیادہ طاقتور شعری مواد اور تخلیقی سلیقے کی متقاضی ہے ۔ یہ ایک بہت مشکل صنف سخن ہے جسے آسان سمجھ لیا جاتا ہے.

10. نثری نظم میں کہانی نہیں ہوتی نظم ہوتی ۔ اسے مرصع اور تخلیقی نثر سے بھی مختلف نظر آنا چاہیے ۔

ذیل میں چند ایک نظموں کی مثالیں پیش ِ خدمت ہیں :

” دم رخصت “ : نسرین انجم بھٹی
تپے ہوئے لہجے میں خاموش رہنے والا
آنکھوں تک سلگ اٹھا ہوگا
اس کی سانسوں سے میرا دم رک گیا
اور میری ہتھیلیاں دھڑکنے لگیں
میرا مرد پورے چاند کی طرح مجھ پر چھا گیا
وہ آگ سے مرتب ہے
میرے انگ انگ میں پگھلنے کی آرزو ہے
اس کے لمس میں میرے خمیر کی خوشبو کہاں سے سما گئی
کہ میں اپنی تلاش میں اس تک آ پہنچی
اس کی آنکھوں میں میری آنکھیں تھیں
جب اسے مجھ سے جدا کیا گیا
وہ دروازے سے باہر بھی دروازے کے اندر تھا
اور میں دروازے کے اندر بھی دروازے سے باہر تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔

” محبت اور فطرت ،: مبارک احمد
جب آنکھ لڑائی ہم نے
بجلی چمکی
جب ہاتھ ملایا ہم نے
بادل گرجا
جب پریت لگائی ہم نے
بارش برسی

۔۔۔۔

” خود سابے ساختہ “ : فرحت عباس شاہ
کالے ہاتھ
آسمان سے لٹک رہے ہیں
زمین کو چھوتے ہیں ریت اڑاتے ہیں
کھایا پیا ہضم ہو جاتا تو کچھ بات ہی نہ تھی
خالی پیٹ موت شاید ہی کسی کو پسند ہو
سوائے جھوٹے دلاسوں اور سبز خوابوں کے
ہے ہی کیا
کیوں نا کسی دن کھایا پیا ہضم کیا جائے
ضمیر سے بوجھ کون ہٹائے گا
خود ساختہ ضمیر
بوجھ
بس موت ہی بے ساختہ ہے
اور کالے ہاتھ
جو آسمان سے لٹک رہے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” مشکل کا مسافر “ : ڈاکٹر ابرار عمر
چشموں کا پانی پی کر
جوان ہونے والی لڑکی
چہرے پر چاند سجا
اور پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے میں
میری مدد کر
جب تو میری زندگی میں
پوری کی پوری آجائے گی
میں تجھے دھوپ پہن کر
صحرا میں چلنا سکھاؤں گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” کیوں؟ “ : نجمہ منصور
محاذ جنگ پر تنہائی بھی پھانسی لے لیتی ہے
جھیل کے پانی پر دائرے بنے کا عمل
آپ ہی آپ نہیں ہوتا
کوئی جوار بھاٹا، کوئی کنکر
محبت ، جدائی اور اداسی کی نظمیں لکھتے لکھتے
میں جنگ اور موت کی نظمیں لکھنے لگی ہوں
کبھی سوچا ہے کیوں؟
انسان نے جنگ ایجاد کی
خدا نے موت
دنیا نے محبت کو یر غمال بنالیا
اب آنے والے کئی زمانوں تک
محبت کو بازیاب کرانے کے لیے
مجھے لکھنی ہیں
جنگ اور موت کی نظمیں
پتہ ہے کیوں ؟

۔۔۔۔۔۔

” زندگی “ : مقبول خاں مقبول
زندگی ازل سے سارے پانیوں کو عبور کرتی ہوئی
پھر ایک سنگم پر آ ٹھہری ہے
قدامت کی کوکھ میں نئی چنگاریاں سلگ رہی ہیں
جیسے نیا سورج چمکنے کو ہے
لٹوں سے دریاؤں کے سوتے
دور جدید کا بدل نہیں ہو سکتے
سوچتا ہوں
تم کسی زمانے میں میرے وجود کا حصہ تھے
لیکن کسی دیوتا نے
جانے کیوں
میرے وجود سے تمہیں علاحدہ کر دیا
میں خود کو تلاش کرتا رہوں
جستجو
میرے خوابوں کو چھوتی رہی
اک نیا دور آئے گا
جہاں فاصلے نہیں ہوں گے

۔۔۔۔۔۔۔

” حرف ایک جنگل “:انیس ناگی
کتابیں میرا جنگل ہیں
جنہیں میں کاٹ کر اب بارہویں زینے پر بیٹھا ہوں
معافی کے ہیولوں میں چمکتی صورتوں سے دور تنہا
حرف کے صدمات سہتا ہوں
کہ میں خود آگہی کے بھاری سانسوں کا سمندر ہوں
جسے نمکین پانی کی سزا آبادیوں سے
بادبان کی طرف کافی دور رکھتی ہے
کتابیں میرا جنگل ہیں
جہاں پر نفرتوں کی تیز دھڑکن
برتری کی چیختی آواز کی دستک نہیں
جو صبح کو میری رگوں میں باؤلے پن کے
چمکتے شوخ سورج کو جگائے
میں پھٹی آنکھوں سے جلتے راز کو سڑکوں پہ عریاں ملوں
کتابیں میرا ایندھن ہیں
میں کتابوں میں سلگتی آگ ہوں
جلتا ہوا کاغذ
دھوئیں میں پھیلتی تصویر ہوں
میں ان کتابوں کا ارادہ ہوں
جسے تحریر کی خواہش دماغوں میں ہراساں ہے
ہراساں ہیں
کتابیں میری آنکھیں ہیں
مگر میں تو وہ کھلتا بند ہوتا چیختا در ہوں
جو کبھی سے کہکشاں کا منتظر ہے

۔۔۔۔۔۔۔

” کیا تم نے ایک عورت کو دیکھا ہے “: زاہد ڈار
کیا تم نے ایک عورت کو دیکھا ہے
اس کی چھاتیوں کے درمیان ایک سانپ رینگ رہا ہے
اس کی رانوں کے درمیان سفید پانی کا چشمہ ہے
میں پیاس سے مر رہا ہوں
لیکن میں اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا
میں ایک درخت کے اندر قید ہوں
کیا تم نے ایک عورت کو دیکھا ہے
میں اس کو دیکھ رہا ہوں
وہ ایک سانپ کو کھا گئی ہے
میری خواہشیں اس کے پیٹ میں ہیں
اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے
لوگ تالیاں بجا رہے ہیں
یہ تماشا ازل سے جاری ہے
میں انتظار کر رہا ہوں
جاؤ اسے ڈھونڈ کر لاؤ
موت میرے لیے نئی نہیں ہے
میں ہمیشہ مرتا رہا ہوں
لیکن میری زندگی ختم نہیں ہوئی
میری خواہشیں اس کے اندر رقص کر رہی ہیں
جاؤ مجھے ڈھونڈ کر لاؤ
درخت کے پتے گر رہے ہیں
ہوا چیخ رہی ہے
میں نے ایک عورت کو آسمان پر اڑتے ہوئے دیکھا ہے
کیا تم نے بھی کچھ دیکھا ہے
اگر تمہیں کچھ دکھائی دے تو مجھے بھی دکھانا
فی الحال تم خاموش رہو
تمہاری باتیں ریگستان کو سیراب نہیں کر سکتیں
خشک ریت میری پیاس نہیں بجھا سکتی
اس کی رانوں کے درمیان سفید پانی کا چشمہ ہے
سورج میرے سر کے اندر چمک رہا ہے
پاگل پن رقص کر رہا ہے
بادلوں نے اسے گھیر لیا ہے
میں محبت کے خواب دیکھ رہا ہوں
میں ایک واہمے کی آرزو میں مرتا ہوں
کیا تم نے اسے دیکھا ہے