ہوم << ڈارک ویب رومز، کرائمز رپورٹنگ شوز اور بلا وجہ فساد میں میڈیا کا کردار - حافظ محمد زبیر

ڈارک ویب رومز، کرائمز رپورٹنگ شوز اور بلا وجہ فساد میں میڈیا کا کردار - حافظ محمد زبیر

میڈیا کے کردار اور اثرات کی وجہ سے مغربی معاشروں میں بلا وجہ کِلنگ، فساد زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے ڈارک ویب کے رومز کی کہانیاں سنتے تھے کہ کسی بھی بندے کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور بلاوجہ تشدد کر کے مار دیتے ہیں اور اس کی لائیو ویڈیو بھی چلاتے ہیں۔

ویوور، ماسٹر اور گرینڈ ماسٹر کی طرف سے باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں کہ لائیو ویوور پیسے دے کر اس بے گناہ کرسی پر بندھے ہوئے شخص پر تشدد کرواتے ہیں۔ کوئی اس کی زبان کاٹنے کو کہتا ہے تو کوئی اس کی آنکھ نکالنے کو کہتا ہے۔ اور اس تشدد کو انجوائے کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں تشدد کرنے والے کو رقم کی ادائیگی بٹ کوائن میں کرتے ہیں۔ کہانیاں اس لیے کہا کہ لوگوں کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ حقیقت ہے یا کہانی ہے۔ خیر، اب تو عدالتوں میں باقاعدہ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں کہ لوگ کرائمز شوز دیکھ کر اس شوق سے کِل کر سکتے ہیں کہ کِل کرنے کا تجربہ کیسا ہوتا ہے اور بی بی سی جیسا میڈیا اس کو کوریج دے رہا ہے۔

بی بی سی نے ایک تیئیس سالہ جنوبی کورین لڑکی پر ایک آرٹیکل پبلش کیا ہے کہ جس کا کیس وہاں کی عدالت میں چلا اور عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی۔ اس لڑکی نے کرائمز شوز دیکھ کر کِل کرنے کا تجربہ کرنے کی غرض سے ایک خاتون ٹیچر کو قتل کر دیا۔ پہلے اس نے آن لائن ایپس سے کوئی خاتون ٹیچر ہائر کرنے کی کوشش کی جو اسے گھر میں آ کر پڑھا دے۔ پچاس میں سے ایک خاتون اسے پڑھانے پر راضی ہوئی۔ وہ اس ٹیچر کے گھر گئی اور اس پر چاقو کے سو وار کر کے اسے کِل کر دیا۔ اور کِل کرنے کے بعد لاش پر بھی چاقو کے وار کیے۔ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کے کچھ حصے ندی کے قریب درختوں میں پھینک دیے۔

ہارر مویز ہوں، یا کرائمز شوز کی رپورٹنگ، یا ڈارک ویب کے رومز کی لائیو ویڈیوز۔ یہ انسانی ذہن کے لیے تشدد کو نارمل بنا کر آہستہ آہستہ اس کا ایسا ایڈکٹ بنا دیتی ہیں کہ وہ تشدد کے ایسے مناظر دیکھ کر لطف اور مزہ لے کہ جنہیں پہلی دفعہ دیکھنے سے شاید اسے قے اور الٹی آ جائے۔ اور پھر اچھا بھلا صحت مند انسان لاشعوری طور نہ صرف تشدد پسند بن جاتا ہے بلکہ انسانوں کی کاٹ پیٹ اور ان پر ظلم وتشدد کو بلاوجہ اپنے لیے انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ اور سبب بنا لیتا ہے۔ بس اپنے بچوں کو بھی سمجھائیں کہ یہ جسٹ انٹرٹینمینٹ نہیں ہے، یہ کِلر انٹرٹینمنٹ ہے۔ انسانیت کی دشمن اور قاتل تفریح۔ میڈیا اپنی نجاست اور گندگی آپ کے اندر چھوڑ جاتا ہے۔

آپ فیس بک پر ایک نیگٹو پوسٹ پڑھ لیتے ہیں تو وہ آپ کی طبیعت خراب کر دیتی ہے اور یہ تو ویڈیو شوز ہیں، آپ کی پرسنیلیٹی کو کس قدر منفی طور کنسٹرکٹ کر دیتے ہوں گے، آپ کو اندازہ تک نہیں ہے۔ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا کہ ہالی ووڈ کی پچاس بہترین موویز جو ایتھی ازم کو پروموٹ کرتی ہیں۔ جسٹ انٹرٹینمنٹ کی اب یہ دنیا نہیں رہ گئی ہے۔ جسٹ انٹرٹینمینٹ تو اب بچوں کے کارٹونز میں بھی نہیں مل رہی۔ وہاں بھی ایک فلاسفی آپ کو پڑھائی جا رہی ہوتی ہے۔ معروف روبوٹک کہانی وال ای [WALL-E] جو کہ ایک روبوٹ کی داستان ہے، کس طرح یہ بیان کرتی ہے کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد لے کر نہیں آتا بلکہ وضع [create] کرتا ہے۔

زندگی کا کوئی معنی نہیں، بس وہی معانی ہیں جو انسان نے اپنے اعمال وافعال سے اس کو دے دیے ہیں۔ پھر یہ سوال کہ ٹیکنالوجی نے انسان کو آزاد کروایا ہے یا مزید غلامی پیدا کی ہے، بھی ایڈریس کیا گیا ہے۔ پھر انسان کے اس کرہ ارضی پر مستقبل کے چیلنجز میں سے سب سے بڑا چیلنج کہ یہ کرہ ارضی اس صنعتی ترقی کے باعث رہنے کے قابل نہیں رہ جائے گا، بھی اچھے سے ایڈریس کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ کرہ ارضی کچرے کا ڈھیر بننے کی وجہ سے انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہ گیا تو انسان خلا میں چلے گئے۔ پھر کس طرح سے ایک روبوٹ وال ای اور اس کی محبوبہ ایو نے اس زمین کے کچرے کو صاف کیا اور اسے رہنے لائق بنایا۔

کمال کھیل یہ کھیلا ہے کہ وال ای [WALL-E] روبوٹ کی محبوبہ کا نام ایو [EVE] رکھا ہے یعنی حوا۔ اور ان دونوں کے دم سے ہی اس کرہ ارضی پر دوبارہ انسانوں کی واپسی اور آبادی ہوئی ہے۔ کیا آرٹیفیشل انٹیلجنیس اب اس انسانیت کی بقا کی واحد امید ہے؟ اس کرہ ارضی کو تباہ کرنے والی بھی ٹیکنالوجی ہے اور دوبارہ آباد کرنے والی بھی ٹیکنالوجی ہی ہے یعنی مادہ ہی ہے اور اس کائنات کے بننے بگڑنے میں کوئی خدا نہیں ہے، یہ اس کا مرکزی تھیم ہے۔ اٹس ناٹ اے جسٹ انٹرٹینمنٹ۔ اٹس ویلیو اے لووڈڈ انٹرٹینمینٹ۔ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔

Comments

Avatar photo

حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ کامساٹس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ مجلس تحقیق اسلامی قرآن اکیڈمی لاہور کے ریسرچ فیلو ہیں۔ 4 کتب کے مصنف ہیں۔ کئی جرائد میں 150 سے زائد تحقیقی، فکری اور اصلاحی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ دینی امور پر رہنمائی کرتے ہیں۔

Click here to post a comment