سری لنکا سے تعارف بہت پرانا ہے پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ پرانا ۔ بچپن میں جب داستان امیر حمزہ پڑھنا شروع کی تو پراسرار جزیرے سراندیپ کے راجہ لندھور کے بارے میں پڑھا
لندھور جو امیر حمزہ کا قابل اعتماد ساتھی تھا پورا بھنا ہوا اونٹ اکیلا کھا جاتا تھا۔ وہ جب ہاتھی پر سوار ہو کر میدان جنگ میں نکلتا تو اپنے سات من کے گرز سے کشتوں کے پشتے لگا دیتا ۔ لندھور کے سراندیپ اور سری لنکا سے یہ میرا پہلا تعارف تھا
تھوڑا بڑا ہوا تو سری لنکا کو سیلون کے نام سے جانا ۔ بہترین چائے پیداکرنے والی سرزمین سیلون ۔ اس وقت لگتا تھا جیسےدنیا میں چائے پیدا کرنے والا صرف ایک ہی ملک ہے جو ساری دنیا کو چائے بھیجتا اور بیچتا ہے ۔ اگر اس نے چائے پیداکرنی بند کر دی تو دنیا بھر کے چائے کے شیدائی دیوانے ہو جائیں گے ۔
جب کرکٹ کھیلنا شروع کی تو سری لنکا کرکٹ حوالے سے سامنے آیا ۔ پاکستان کے بعد سری لنکا میری دوسری پسندیدہ ٹیم تھی کیونکہ اس میں رانا ٹنگا اور مرلی دھرن کھیلتے تھے ۔ جب سری لنکا نے رانا ٹنگا کی قیادت میں پاکستان میں ہونے والا ورلڈ کپ جیتا تو خیال آیا کہ سری لنکا تو بڑا اچھا ملک ہوگا جہاں اتنی اچھی کرکٹ کھیلی جاتی ہے ۔
پھر ایک دفعہ جمعہ کے خطبے میں ایک مولوی صاحب نے انکشاف کیا کہ سری لنکا تو حضرت آدم علیہ السلام کا دیس ہے ۔ یہ وہ سر زمین ہے جہاں اللّہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تھا ۔ تو کئی بار سوچا آخر وہ کیسی سرزمین ہوگی جو زمین پر آدم کا پہلا گھر بنی جسے اللّہ نے انسانی زندگی کے ارتقاء کے لئے منتخب کیا ۔
کتابوں سے دوستی گہری ہوئی اور مطالعہ وسیع ہونا شروع ہوا۔
تو پتا چلا کہ یہ تو لنکا ہے راون کا وطن ہے ۔
اس راون کا وطن جو ہندوؤں کی سیتا کو اغواء کر کے لنکا لے گیا تھا اور پھر شری رام اسے چھڑانے کے لئے لنکا پہنچے اور راون کا محل توڑ کر سیتا کو بازیاب کروالیا۔
سری لنکا سے تفصیلی تعارف طاہر انوار پاشا صاحب کی کتاب
“ سری لنکا چائے کے باغات اور ساحلوں کا ملک “ پڑھ کر ہوا ۔
جب میں ان کا یہ سفر نامہ پڑھ رہا تھا تو کئی بار دل میں سری لنکا جانے کی خواہش جاگی چنانچہ اس خواہش کو اپنی حسرتوں کی ٹوکری Bucket list میں ڈال دیا ۔
پاشا صاحب پانچ سفر ناموں کے مصنف ہیں اور اگر انہیں اس دور کا مستنصر حسین تارڑ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔
ان کا سری لنکا پر لکھا یہ سفرنامہ سری لنکا کی تاریخ ثقافت اور معاشرتی زندگی پر ایک بڑی خوبصورت دستاویز ہے ۔ پاشا صاحب ریٹائرڈ ڈی جی پنجاب پولیس ہیں جب بھی پاشا صاحب کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ پتہ نہہں ایسے نفیس لوگ پولیس میں کیسے اور کیوں چلے جاتے ہیں اور اگر جاتے ہیں تو وہاں جاکر کیا کرتے ہیں ۔ کیسے اپنے آپ کو گندگی سے پاک رکھ پاتے ہیں اور اب ان جیسے لوگ پولیس میں کیوں نظر نہیں آتے ۔
بلاشبہ پنجاب پولیس کی جو تھوڑی بہت ساکھ بچ گئی ہے وہ پاشا صاحب جیسے لوگوں کی مرہون منت ہے ۔
اس سال فروری میں میری پہلی کتاب “ زبان یار من ترکی “ شائع ہوئی ۔ اس کی پہلی تقریب رونمائی گورنر ہاؤس لاہور میں ہوئی اور دوسری تقریب قاسم شاہ فاؤنڈیشن میں منعقد ہوئی جس میں پاشا صاحب نے رقیہ اکبر صاحبہ پروفیسر اشتیاق گوندل صاحب اور عارف انیس صاحب کے ہمراہ کتاب پر بات کی اور میلہ لوٹ لیا اس دن سے ان سے محبت کا رشتہ سا بندھ گیا ہے کیونکہ ان کے اور میرے درمیان بہت سی دوسری مشترک چیزوں کے ساتھ ایک شئے جوسب سے زیادہ سانجھی ہے وہ ان کا سیلانی پن ہے میری طرح وہ بھی ٹک کر نہیں بیٹھتے اور مسلسل سفر میں رہتے ہیں ۔ ان کا یہ سفرنامہ میرے ہمراہ ہے اور مجھے ڈر ہے کہ میری سری لنکا کے بارے لکھی جانے والی تحریریں پر ان کے سفر نامہ کی گہری چھاپ نہ لگ جائے ۔
ابن انشاء نے شائید ہم جیسے لوگوں کے لئے کہا تھا
ہم جنگل کے جوگی،
ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں، کل اور نگر میں،
صبح کہاں اور شام کہاں!
سانجھ سمے کچھ تارے نکلے،
پل بھر چمکے، ڈوب گئے
امبر امبر ڈھونڈ رہا ہے
اب انہیں ماہ تمام کہاں!
1999ء میں جب میں سیشلز Seychelles میں رہتا تھا تو ہمیشہ دوستوں کو سیشلز کا محل وقوع بتانے میں دشواری پیش آتی تو فوراً کہہ دیتا کہ سیشلز بحر ہند میں سری لنکا اور تنزانیہ کے درمیان ایک نقطہ ہے
جہاں میں رہتا ہوں ۔
لیکن یہ سب تو سری لنکا کا محض تعارف ہی تھے سری لنکا سے اصل تعلق تو اسلم اور شیرون سے ملنے کے بعد بنا۔
یہ ڈاکٹر میاں بیوی سری لنکا کے ہیر رانجھا ہیں ایک جان دو قالب
ان کاتعلق سری لنکاکے ایک بہت متمول مسلم گھرانے سے ہے شیرون کے والد سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں سری لنکا کے سفیر رہے اور چند سال پہلے جب وہ سعودی عرب میں تعینات تھے تو ان کا انتقال ہوگیا ۔
اسلم اور شیرون سے تعلق چوتھائی صدی پرانا ہے ۔
اس وقت سے جب ہم آسڑیلیا کے شہر بنڈابرگ میں رہتے تھے۔
بنڈا برگ برسبین کے شمال مشرق میں کوئی تین گھنٹے کی مسافت پر ایک چھوٹا سا دیہاتی شہر ہے ۔ سرگودھا جیسا جو اپنی گنے کی کاشت اور شوگر ملوں کے لئے آسٹریلیا بھر میں مشہور ہے جہاں میرے علاوہ ڈاکٹر عابد مجید کھرل ، ڈاکٹر وسیم بٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن ، ڈاکٹر افراز زمان اور بنگلہ دیش کے ڈاکٹر عارف الحق کی فیملیز رہائش پزیرتھیں ۔ پھر ایک دن ان میں اسلم اور شیرون کی فیملی کا اضافہ ہوا اور جلد ہی وہ ہمارے اس چھوٹے سے پریوار کا حصہ بن گئے ۔ جب یہ سب لوگ ترکوں کی مسجد میں ملتے تو ایک عجیب ہی روح پرور منظر ہوتا ۔
بنڈا برگ جیسے چھوٹے سے شہر میں اسلم نام کے تین تین ڈاکٹر رہتے تھے اسلم جبار ، شیرون اسلم اور تصور اسلم ہسپتال والوں اور مریضوں کو دھوکا تو ہوتا ہی اکثر ڈاکخانے والے بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے اور کئی بار تو شیرون کی مرسڈیز اور اسلم کی بی ایم ڈبلیو والے مجھے فون کر دیتے اور بل بھیج دیتے ۔
جیسے جیسے ان سے محبت کے رشتے بڑھے سری لنکا سے تعلق بھی مضبوط ہوتاگیا ۔
جب بھی ملاقات ہوتی پاکستان کے بعد سری لنکا موضوع بحث بنتا ۔ اسلم سے سری لنکا کے بارے میں جاننے کا بہت موقع ملا۔
اسلم کی آنکھوں سے سری لنکا بہت قریب سے دیکھا ۔ اس کی گفتگو سے سری لنکا کے معاشی ، مذہبی ، ثقافتی سیاسی اور معاشرتی حالات کے بارے میں بہت کچھ جانا ۔
سری لنکا پر براوقت آیاتو اس کے ساتھ ہم بھی سری لنکا کے حالات پر رنجیدہ ہوئے ۔
سری لنکا میچ جیتتا تو ہم بھی اسلم کے ساتھ اس جیت کی خوشی مناتے جیسے وہ پاکستان کی جیت پر مناتا تھا ۔
اور یوں سری لنکا سے دل کا رشتہ
ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا ۔
اور پھروقت اتنی تیزی سے گزرا کہ دس سال بیت گئے ۔ بچے بڑھے ہو ئے تو ہم سب لوگ برسبین منتقل ہوگئے ۔
برسبین میں بھی ان سے اکثر ملاقاتیں رہتیں ہیں ۔ انہیں دیکھ کر اور ان سے مل کر ہمیشہ لگاکہ یہ دونوں تو ہماراہی حصہ ہیں لیکن پیدا سری لنکا میں ہوئے ۔
امجد اور ایمانی اس وقت بہت چھوٹے تھے جب بنڈابرگ میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔
اب دونوں ماشاءاللّہ ڈاکٹر بن چکے ہیں ۔ گول مٹول سی گڑیا جیسی ایمانی اب ایک حسین دوشیزہ اور خوبصورت نقوش والاامجداب ایک کڑیل نوجوان ہے
سنگا کارا سے مشابہت کی بناء پر میں اسے ہمیشہ سنگا کارا ہی کہہ کر بلاتا ہوں جس پر وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا ۔
چند ماہ پیشتر جب شیرون نے ہمیں امجد کی شادی پر سری لنکا
آنے کی دعوت دی تو مجھے لگا جیسے سری لنکا کی سیر کی ایک بہت پرانی دیرینہ خواہش پوری ہونے والی ہے ۔سری لنکا سے اپنے سارے تعارف تعلق بنتے محسوس ہوئے ۔ یہی حال بیگم کا اور بچوں کا بھی تھا لہٰذا فوراً حامی بھر لی کہ ایک تیر سے دو شکار ہوتے محسوس ہوئے ۔ اسلم اور شیرون سے اپنا دہائیوں پرانا تعلق تو نبھانا ہی تھا اسی بہانے سری لنکا کی سیر کا موقعہ بھی ہاتھ آرہا تھا ۔
اور پھر یہ اس لحاظ سے بھی مناسب لگاکہ پاکستان تو ہمیں بہرحال جانا ہی تھا کہ وہاں بیگم صاحبہ کی بھتیجی ڈاکٹر افراء کی شادی میں بھی شرکت کرنا تھی ۔
اور پھر سال کا یہی وہ دورانیہ ہوتا ہے جب ایک آدھ مہینے کے وقفے کے ساتھ میں والدہ سے ملنے پاکستان جاتا ہوں
پھر وہ دن آن پہنچا
جب ہمیں عازم سری لنکا ہوناتھا
سری لنکن ائیر لائن کی کوئی ڈائریکٹ فلائٹ برسبین سے کولمبو نہیں جاتی ہے ۔ براستہ سڈنی یا ملبورن ہی ممکن ہے ۔
سڈنی اس لئے چنا کہ وہ وہاں پیارا مہدی حسن رہتاہے ۔ اور اس سے ملاقات کا کوئی موقعہ میں ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
رانا مہدی حسن سے تعلق بھی کوئی چالیس سال پرانا ہے ۔ اور یہ رشتہ کبھی کمزور نہیں پڑا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی جڑیں گہری ہوئی ہیں مضبوط ہوئی ہیں ۔ اسے مل کر ہمیشہ لگتا ہے جیسے پی ایم سی کا دور واپس آگیا ہو ۔
وہ بھی میری آمد کا منتظر رہتا ہے
وہ مجھے ائیرپورٹ سے ریسو کرتا ہے شاندار کھانا کھلاتا ہے سڈنی کی سیر کراتا ہے اپنے گھر لے جاتا ہے ۔ اور پھر آئندہ ملنے کا وعدہ لیتے ہوئے ائیرپورٹ چھوڑتا ہے ۔
اس سے رخصت ہوتے وقت ہمیشہ لگتا ہے جیسے کوئی بہت عزیز چیز
پیچھے چھوڑے جا رہا ہوں ۔
اس بار بھی رات مہدی حسن کے ساتھ گزار کر اگلے دن سری لنکا کو رخت سفر باندھا ۔
سری لنکن ائیر اچھی تھی پی آئی اے سے تو بہت اچھی تھی ۔
پتہ نہیں خوش قسمتی ہے یا بد قسمتی کہ پی آئی اے آسٹریلیا نہہیں جاتی اس لئے پچھلے تیس سالوں میں پی آئی اے کے ذریعے زیادہ سفر نہیں کیا لیکن وطن سے محبت کی وجہ سے مجھے جب بھی موقع ملتا ہے پی آئی اے کا سفر کرتا ہوں لیکن ہر بار پہلے سے بھی زیادہ مایوسی ہوتی ہے ۔ اور ہر دفعہ پی آئی اے کا استعمال نہ کرنے کی قسم کھاتا ہوں ۔
لیکن نہ پی آئی اے سدھرتی ہے نہ میں پی آئی اے کاسفر کرنے سے باز آتاہوں ۔ چوہے بلی کا یہ کھیل پچھلے تیس سال سے جاری ہے شائید عمر بھر یوں ہی جاری رہے گا ۔
ریاض خیر آبادی کی سی صورت حال درپیش ہے
جامِ مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
سری لنکن ائیر لائن ایک غریب لیکن پرعزم قوم کی ائیر لائن ہے ۔ اس نے وہ توقعات تو پوری نہ کیں جو امارات ائیر لائین کا خاصا ہیں لیکن بہرحال اس سے کوئی بڑا شکوہ بھی نہیں سوائے اس کے کہ دس گھنٹے کے اس سفر میں کوشش کے باوجود کوئی فلم نہ دیکھ سکا کیونکہ ٹی وی سکرین ضرورت سے زیادہ حساس تھی فلم کبھی خودبخود آگے چلی جاتی اور کبھی پیچھے کی طرف گھوم جاتی ۔
کبھی سکرین منجمد ہو جاتی تو کبھی آواز غائب ہوجاتی ۔ تنگ آکر سکرین بند کر دی ائیر ہوسٹس سے شکایت کی تو اس نے کندھے اچکا کر اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا ۔ دوسری ائیر ہوسٹس کھانا لے کر آئی تو اس نے وعدہ کیا کہ کھانے کے بعد کوئی اپائے کرے گی
لیکن اس بے وفا حسینہ کا وعدہ وعدہ ہی رہا وہ اسے وفا کرنے واپس ہی نہ آئی ۔
ٹی وی سکرین کی طرف سے مایوس ہو کر شریف مکہ حسین بن علی پر نامکمل اپنامضمون مکمل کر نے کی کوشش کی اور پچھلے ڈیڑھ مہینے سے اسے لکھ رہاہوں ۔ یہ تحریر میری دوسری کتاب “ اہل وفا کی بستی “ کا حصہ ہے جو میرے فلسطین اسرائیل اور اردن کے سفر کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے ۔
شریف مکہ حسین بن علی نے 1916 ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکوں کے خلاف عرب بغاوت اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں مرکزی کردار اداکیا تھا ۔ حسین بن علی مسجد اقصیٰ کے احاطے کی بیرونی فصیل میں بنے ایک مدرسے میں دفن ہے اور وقت کا جبر دیکھئیے اس کے ساتھ والے کمرے میں مولانا محمد علی جوہر اس کے ہمسائے ہیں جنہوں نے خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے اپنی جوانی نچھاور کر دی تھی ۔
ابھی چند لائنیں ہی لکھی تھیں کہ جہاز نے ہچکولے لینے شروع کر دئیےاور پانی میں تیرتی کسی کشتی کی طرح بری طرح ڈولنے لگا ۔
کپتان نے مسافروں کو سیٹ بیلٹ باندھنے کی تلقین کرنا شروع کردی ۔ کیونکہ جہاز اس وقت کسی طوفان کا سامنا کر رہا تھا ۔
کھڑکی سے باہر جہاز پر پڑنے والی بارش کی بوچھاڑ بھی بہت تیز ہو گئی تھی ۔
پلکیں موند کر سونے کی کوشش کی لیکن نیند تو جیسے آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ خیال آیا کہ لکھ نہیں سکتاتو چلو کچھ پڑھ ہی لیا جائے ۔ اپنا
“ای بک “ کھول کر شکیل عادل زادہ کی “بازی گر “ پڑھنے کی کوشش کی ۔ بازی گر کے بابر زمان خان سے بڑی پرانی دوستی ہے کوئی چالیس سال پرانی ۔ بازی گر میری جوانی کا پہلا عشق تھی ۔
اور شائید اسی لئے یہ عشق آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی میرے ساتھ ہے ۔سب رنگ ڈائجسٹ میں ستر اور اسی کی دہائی میں سلسلہ وار شائع ہونے والی یہ کہانی تقسیم سے پہلے والے برصغیر کے معاشرتی ، سیاسی اور ثقافتی حالات کی بہترین ترجمان ہی نہیں بلکہ زبان وبیان کے لحاظ سے بھی اردو ادب کا بہترین شاہکار ہے جس میں بدھا کے شہر گیا سے تعلق رکھنے والا ایک متوسط زمیندار گھرانے کا بابر زمان خان ایک بدھ سردار کی بیٹی کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس سے بچھڑ کر راستے میں آنے والے جاہ وحشم مال ودولت اور ہزاروں حسینوں کے رنگیلے آنچل جھڑکتا ہوافقط کورا کو ہی منزل مقصود مان لیتا ہے ۔اس کہانی میں کمال کی منظر نگاری ہے قاری خود کو بٹھل کانتے اور بابر زمان کے ساتھ کورا کی تلاش میں ہندوستان کے گلی کوچوں میں پھرتا محسوس کرتا ہے اور میری نسل سے تعلق رکھنے والا اردو کا شیدائی شائید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جس پر بابر زماں خان اور کو را کا جادو نہ چلا ہو ۔ لیکن بدقسمتی سے شکیل عادل زادہ نے اسے ادھورا چھوڑ دیا اور اس تحریر کے میرے جیسے لاکھوں دیوانے آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ شائید کسی دن شکیل عادل زادہ اس تحریر کو مکمل کریں گے اور بابر زماں خاں اور کورا کی محبت کو انجام ملے گا ۔ مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں اس کہانی سے اپنے تعلق کو استوار کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ بازی گر ایسے مواقع پر ٹانک کا کام دیتی ہے ۔ لیکن نہ بابر کو کورا ملتی ہے اور نہ میرا بابر زمان خان سے دوستی کا رشتہ ٹوٹتا ہے ۔
بازی گر کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں پڑھ پایا تھا کہ جہاز کا توازن بری طرح بگڑنے لگا شائید باہر آنے والے طوفان میں تیزی آگئی تھی ۔
تنگ آ کر ایک بار پھر سونے کی کوشش کرنےلگا ۔ طوفان کا شور اور جہاز کے ہچکولے جاری رہے ۔
پتہ نہیں کب تک جاری رہے جہاز کسی پنگھوڑے کی طرح ڈولتا رہا اور مجھے نیند آگئی ۔ آنکھ کھلی تو کپتان جہاز کی لینڈنگ کا اعلان کر رہا تھا ۔
تبصرہ لکھیے