’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘، ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘کے نعرے ہندوستان کے طول عرض میں فضا میں بلند ہو رہے تھے۔۱۴ اگست ۱۹۴۷ کے سورج کی روپہلی کرنوں نے آزادی کی نوید سنائی تو وہ ابا جان کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا ریڈیو یہاں بھی اس کے ہمراہ تھا۔ وہ سستانے کو درخت تلے آتا تو ریڈیو کی سوئیاں گھما کر یہاں وہاں کی خبریں بھی سنتا ۔ ۔ کبھی قائدِ اعظم کی خبریں، کبھی ملک کی معیشت اور کبھی مہاجرین کی قیامت خیز داستان!
شریف کا دل کھیت میں لگتا نہ گھر میں! اس نے ہولے سے اماں جی کو اپنے دل کی کیفیت بتائی اور علی الصبح لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔والٹن کیمپ میں ہر جانب لوگ ہی لوگ تھے، جن کے جسم کٹے پھٹے اور لباس مخدوش حالت میں تھے۔ کیمپ انچارج نے اسے کام سمجھا دیاتھا۔ وہ کیمپ میں جس جانب بھی جاتا کوئی نئی داستان سننے کو ملتی!اس کا دل بیٹھنے لگتا۔وہ مہاجرین فی سبیل اللہ تھے! اور اللہ نے مہاجرین کے لیے بڑا اجر رکھا ہے اور بڑی کشائش بھی! ان شاء اللہ
ہم سب مل کر پاکستان کی تعمیر کریں گے، یہاں اللہ کا کلمہ سربلند کریں گے! وہ مہاجر دوستوں سے کہتا۔
اس روز اسے کیمپ انجارج نے اپنے دفتر میں بلایا تھا:
۔’’ اب تمھیں کچھ آرام کرنا چاہیے‘‘۔
۔’’ لیکن میں تو نہیں تھکا۔ ۔ ‘‘۔ شریف جانے کے لیے راضی نہ تھا، مگر ۔۔
اس نے لاہور سٹیشن سے راولپنڈی کا ٹکٹ لیا اور بے دلی سے نشست پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں ٹی ٹی (ٹکٹ چیکر) آگیا۔ اس نے اپنا ٹکٹ چیک کروایا، بغیر ٹکٹ مسافروں سے چیکر نے ٹکٹ کی رقم لی اور کسی اندراج کے بغیر جیب کے اندرونی بٹوے میں ڈال لی۔ شریف نے اسے متوجہ کیا :
۔ ٹی ٹی صاحب ٹکٹ کاٹیے، ملک کے خزانے کو نقصان نہ پہنچائیے۔
ٹی ٹی کی بے اعتنائی اور اس کے اصرار نے تنازعے کی صورت اختیار کر لی۔شریف نے ٹرین کی زنجیر کھینچ دی۔ وہ کسی طرح بھی ملک کے خزانے پر ڈاکا ڈالنے والے کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اگلے سٹیشن پر ٹی ٹی اور شریف دونوں اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں تھے۔
ٹی ٹی نے سٹیشن ماسٹر کو نجانے کیا اشارہ کیا تھا، وہ شریف پر پل پڑا تھا۔
کار ِ سرکار میں مداخلت کرتا ہے گدھے
تبصرہ لکھیے