ہوم << ایران: کچی دیواریں، چھوٹے گیٹ-رعایت اللہ فاروقی

ایران: کچی دیواریں، چھوٹے گیٹ-رعایت اللہ فاروقی

ہماری پشتو کی کہاوت ہے کہ جب اونٹ پالنے کا ارادہ ہو تو سب سے پہلے دیواریں مضبوط اور گیٹ اونچے کرو۔ ایران کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اونٹ پالنے کا شوق تو بہت ہے مگر گیٹ اور دیواریں مناسب حال کرنے کا ہنر ہی نہیں جانتا۔ یہاں تک کہ یہ اتنا بھی نہیں کرسکتا کہ دوسروں یعنی پاکستان کو ہی کاپی کرلے کہ اس نے دیواروں اور گیٹوں کو اونچا و مستحکم کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی ؟
جب ہم ایک اینگل سے دیکھتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی دنیا کی نالائق ترین انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔اتنی نالائق کہ انقلاب کے پینتالیسویں سال بھی یہ اس لائق نہیں کہ اپنے اہم ترین افراد اور مہمانوں کو دشمن کی نظروں سے اوجھل رکھ سکے۔ لیکن جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کی ایجنسی ایک اچھی ایجنسی ہوتی تو انہوں نے اسرائیل سے زیادہ اپنے پڑوسیوں کا ہی جینا حرام کرنا تھا، تو خیال آتا ہے کہ اچھا ہی ہے کہ ان کی ایجنسی نکمی ہے۔
یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اسرائیل اب تک ان کے درجن کے قریب ایٹمی سائنسدانوں کو ایران کے اندر ہی قتل کرچکا۔ یعنی گھر میں گھس کر مار چکا۔ اگر کوئی ذرا سا بھی صورتحال کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو ایرانی سرزمین آپ کو موساد کا پلے گراؤنڈ نظر آئے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ انقلابی ہمیشہ جذباتی ہوتے ہیں کہ انقلاب ہے ہی جذباتی سرگرمی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایران کے انقلابیوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کوئی مستحکم ادارے یا محکمے بنانے کو ترجیح دینے کی بجائے فورا انقلاب ایکسپورٹ کرنے کا مشن شروع کردیا۔ اور اس مسلسل ناکام مہم جوئی میں اتنا مشغول ہوئے کہ پتہ ہی نہ چلا کب چار دہائیاں گزر گئیں اور ایران ہنوز کسی مستحکم سیکیورٹی نظام سے محروم ہے۔
خود ایرانی بہت تکبر بھرے لہجے میں یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کا غلام ہے۔ مگر انہیں یہ توفیق کبھی نہ ہوئی کہ اتنا ہی غور کر لیتے کہ اس غلامی کی آڑ میں پاکستان نے خود کو پہنچا کہاں دیا ہے ؟ہم نے پہلی افغان جنگ کا فائدہ اٹھا کر ماڈرن انٹیلی جنس سسٹم اپنے اسی آقا سے سیکھا۔ اسے ڈرایا کہ دیکھو کے جی بی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہم کھڑے ہیں۔ ہم کمزور ہوئے تو نقصان ہم سے زیادہ تم اٹھاؤ گے۔ اور مولویوں کی طرح لکیر کے فقیر بن کر صرف ان کے پڑھائے ہوئے سبق تک ہی نہ رہے کہ اکابر (امریکہ) فرماتے ہیں۔ بلکہ اس آرٹ میں نئے تجربات کرکے مریل سی آئی ایس آئی کو صرف پانچ سال میں وہاں پہنچا دیا کہ ہمارا اکابر (امریکہ) جوں ہی افغان جنگ سے فارغ ہوا تو اس ہوشربا حقیقت سے روبرو تھا کہ اس جنگ کی آڑ میں اس کا غلام ایٹم بم بھی بنا چکا اور ایک ایسی ایجنسی بھی کھڑی کرچکا جو سی آئی اے اور ایم آئی سکس جیسی قدیم ترین ایجنسیوں کو بھی تگنی ناچ نچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چنانچہ آپ کو یاد ہوگا کہ نوے کی دہائی میں امریکہ کا ایک بڑا ہدف یہ بھی رہا تھا کہ کسی طرح آئی ایس آئی کو کٹ ٹو سائز کیا جائے۔ مگر سرٹوڑ کوشش کے باوجود ناکام ہوا کہ نہیں ؟ اور یہ اعتراف تو اب وہ خود ڈاکومنٹریز بنا بنا کر کرتا ہے کہ وار آن ٹیرر میں اس کی شکست کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ اسے کہتے ہیں گلے ملو اور گلا دبا دو۔
کیا یہ کوئی معمولی بات ہے کہ ہمارا کوئی ایک بھی سائنسدان کبھی قتل ہوا اور نہ ہی اغوا ؟ کیا یہ کوئی چھوٹی بات ہے کہ ہماری کوئی ایک بھی حساس تنصیب کبھی نشانہ نہ بن سکی ؟ کیا یہ غیر معمولی بات نہیں کہ جب سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی تو کے جی بی کسی ایک بھی افغان لیڈر کو پاکستان میں قتل نہ کرسکی ؟ یہ سب خود بخود نہیں ہوجاتا، اس کے لئے آپ کو انٹیلی جنس کی دنیا میں اس لیول پر پہنچنا پڑتا ہے جہاں دشمن کے منصوبوں سے آپ پیشگی آگہی رکھتے ہوں۔
ایک عرصے تک تو ہمارے سائنسدانوں، حساس تنصیبات اور مستقبل کے عزائم کی رازداری آئی ایس آئی کے پاس رہی۔ لیکن پھر ایک نیا نظام بھی تشکیل دیدیا گیا۔ اب ایک مستقل انٹیلی جنس ایجنسی ہے جس کی صرف اور صرف یہ ذمہ داری ہے کہ ہمارا کوئی سائنسدان یا تنصیب ہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان کے اندر چھوڑئیے پاکستان سے باہر بھی کوئی نام تک جانتا ہے اس ایجنسی کا ؟ کسی کو یہ تک معلوم ہے کہ اس کا ہیڈکوارٹر کہاں واقع ہے ؟ کوئی ہے جو اتنا ہی جانتا ہو کہ اس ایجنسی کے موجودہ سربراہ کون ہیں اور ان سے قبل کون کون سربراہ رہ چکے ؟ اسے کہتے ہیں رازداری۔ اور اسے کہتے ہیں دیواریں اور دروازے اونچے رکھنا۔
روسیوں سے دوستی پر ایران کو بڑا ناز ہے کہ نہیں ؟ کون نہیں جانتا کہ انٹیلی جنس سروسز میں وہ امریکیوں اور برطانویوں سے بدرجہا فائق تھے اور ہیں۔ اگر کسی کو شک ہو تو یہی دیکھ لے کہ دو تین ماہ قبل ماسکو میں ہونے والے تھیٹر حملے کے تمام مفرور ملزم انہوں نے صرف ڈیڑھ گھنٹے میں پکڑے کہ نہیں ؟ کوئی ایک بھی بچ سکا ؟ سوال یہ ہے کہ کیا روس نے ایران کے انٹیلی جنس سسٹم کی تشکیل میں ذرا بھی معاونت فراہم کی ؟ بلکہ زیادہ مناسب سوال شاید یہ ہو کہ کیا ایرانیوں نے روسیوں سے یہ آرٹ سیکھنے میں کوئی دلچسپی دکھائی ؟
ایران کا المیہ صرف یہ نہیں کہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسی نکمی ہے۔ بلکہ صورتحال کی سنگینی یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور ایجنسی انٹیلی جنس شیئرنگ بھی نہیں کرتی جو انٹیلی جنس کی دنیا کا عام سا رواج ہے۔ دوست ممالک کی ایجنسیاں انٹیلی جنس شیئرنگ کا معمول رکھتی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایران کے ساتھ کون انٹیلی جنس شیئرنگ کرے گا ؟ روسی اور چینی ایجنسیاں تو اس لئے نہیں کریں گی کہ انہیں معلوم ہے یہ ملا ایجنسی انہی کی سیکریسی کا بیڑا غرق کردے گی۔ پیچھے بچے شام، لبنان اور یمن ؟ ہنسیے گا مت پلیز ۔ لے دے کر ایک انڈیا کی "را" ہی بچتی ہے۔ کلبھوشن والے بلنڈر کے بعد وہ یہ رسک دوبارہ لے گی ؟
آخری بات یہ کہ کیا اس بات کا امکان بھی ہے کہ ایران آج کے بعد سے ہی خود کو سیکیورٹی نظام کے حوالے سے بہتر کرلے ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ٹاپ پر ملا بیٹھے ہوں تو ان کی ترجیحات مُلائی ہی ہوں گی۔ ملا کو تو بس پڑوسی ملا کے ہی رازوں میں دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کے حلوے میں پڑنے والے مغز زیادہ اعلی تو نہیں ؟ اس کا زعفران زیادہ خالص تو نہیں ؟ اس کے دم درود زیادہ پرتاثیر تو نہیں ؟ ایرانی انٹیلی جنس نے پڑوسی ممالک کے ملاؤں کے تعاقب اور قتل کے سواکیا ہی کیا ہے ؟ سو جب تک ایران میں ٹاپ پر ملاؤں کا راج ہے ان کا کچھ بھی نہیں ٹھیک ہونے والا۔ ٹاپ پر تو بھٹو اور ضیاء الحق جیسے شاطر دماغ چاہئے ہوتے ہیں۔ کہ دنیا دم درودوں سے نہیں دور رس نتائج والے منصوبوں سے چلتی ہے !