ہوم << ہم آزاد ہیں کتنے آزاد-لطیف النساء

ہم آزاد ہیں کتنے آزاد-لطیف النساء

واقعی ہم آزاد ہیں مگر کتنے اتنے آزاد کے کسی کو کسی کی پرواہ ہی نہیں، کہنے کہ تو ہم سب مسلمان ہیں الحمدللہ مگر ہمارے روئیے؟ اللہ اکبر! کیا ہوگا ہمارا سوچا ہے؟ کتنے بگڑ چکے ہیں؟ اللہ کی نافرمانی اور ہماری غفلت خود ہمیں ایسے حالات سے جھنجوڑ رہی ہے کہ بچاؤ ممکن نہیں پھر بھی ہم نہیں سنبھل رہے کیوں؟ کیونکہ ہم آزاد ہیں جو جی چاہے کرو جیسے جی چاہے جیو! دیکھی جائے گی! یہی غفلت ہے نہ؟ اب تو خود ہمارے اپنے ملک کے حالات کتنے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں مہنگائی، بجلی، پانی، گیس کو تو چھوڑیں کیا ہم ایک دوسرے کے دشمنِ جان نہیں بنے ہوئے؟ نہ کسی کی عزت محفوظ،نہ آبرو، نہ ضروری استعمال کی اشیا ء،موٹر سائیکل،گاڑی،مکان،دکان اور موبائل تو بائیں ہاتھ کا کھیل بچوں کے کھلونے بچوں کے ہاتھوں،اخلاقی،روحانی، جسمانی برائیوں سے چار ہاتھ آگے۔جب چاہا جہاں چاہا لوٹ لیا، فائرنگ کی، گرایا پیسے موبائل سمیٹ لے اڑے یہ جا وہ جا! ہے کوئی مائی کا لعل!جو روک کر دکھائے؟آئے دن ہونے والے قتل و غارت گری، عصمت دری کے واقعات چوری چکاری ڈنکے کی چوٹ پر سر عام لوٹ مار حق تلفی، نہ دکان، مکان، گھر، ہسپتال یہاں تک کہ ایمرجنسی میں آنے والے زخمی اور ان کے لانے والے تک محفوظ نہیں آج سے پہلے تو ایسا نہیں ہوا اب کیوں؟ کیونکہ ہم اب بہت ہی زیادہ آزاد اور زور آور ہو گئے ہیں!اخلاق اتنے گر گئے ہیں کہ کسی کو کسی کی رتی بھر فکر نہیں! اللہ ہی رحم فرمائے ہماری اس آزادی کا انجام کیا ہوگا؟مانا کہ ہم آزاد ملک کے نمائندے ہیں مگر دین سے دوری لاقانونیت اور خشیت الٰہی سے لاپرواہی، مغربی دنیا کی اندھا دھن نقالی، عیاشی اور فحاشی بے راہ روی نے،میڈیا نے سوشل میڈیا اور گھر گھر ہر بندے بچے بڑے کے موبائل نے انہیں اتنا آزاد بنا دیا ہے کہ وہ خود اپنے قابو میں نہیں، نہ ہی صحیح فیصلہ کر سکتاہے تو دوسروں کا احساس ادب احترام کیسے کرے گا؟گھروں کی حالت دیکھ لیں والدین ضرورتیں پوری کرنے اور انہیں خوش رکھنے کے چکر میں غلام بنے ہوئے ہیں،محنت اور حالات کی چکی میں پس رہے ہیں مگر اولاد ہے کہ بے پرواہ اور شکایتی! ہر وقت کا رونا اور تنگی گویا کہ ناشکری ہی ناشکری!

کبھی نہیں دیکھتے کہ ہم کتنوں سے بہتر ہیں کیا کچھ ہمارے پاس ہے جو اوروں کو میسر ہی نہیں ہماری فوج ہے رینجرز ہیں فلاحی ادارے ہیں پولیس ہے مگر پھر بھی ہزاروں مافیاز چل رہے ہیں اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے گورنمنٹ نام کی، مینجمنٹ نام کی!سب ملے ہوئے ہیں تو گویا اتنی آزادی؟ سب ملے ہوئے ہیں کیسے ہو گئے؟وکیل بکے ہوئے کیسے ہو گئے؟ زندگی بھر ہم کیس لڑتے ہوئے ہی اپنے بڑوں کو دیکھ رہے ہیں اور بڑے بھی کیس کے فیصلے آنے سے پہلے زندگی کی بازی ہارتے جا رہے ہیں اور کیونکہ وہ تو اب زندگیوں سے ہی آزاد ہو چکے ہیں!آج ہماری حالت فلسطینیوں سے بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے وہاں تو یہودی اور غیر مسلم دشمن بنے ہیں اور ہمارے ہاں ہمارے اپنے آزاد درندے جو چاہیں بلا خوف کر رہے ہیں؟ گیس بجلی پانی کا بند کر دینا!نوجوان مایوس اور بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔جو تھوڑی بہت اہلیت رکھتے ہیں انہیں بھی اتنا مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں اور کچھ تو پر تول رہے ہیں، وسائل کے نہ ہونے کی وجہ سے بے بس اوربے کس ہیں کیوں؟ وہی شیطانی آزادی اس گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جان لیوا ہے! عدل و انصاف کی کمی انسانیت کی کمی اخلاق کی گراوٹ اور میڈیا کی ڈسی عوام اور حکومتی بے راہ روی اور لاتعلقی!کیسے ہوگا امن اور کیسے ہوگا سکون؟فلسطین میں ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے 40 ہزار کوئی کم تو نہیں؟لاکھوں زخمی اور بے گھر بے آسرا بھوکے پیاسے روزانہ بچوں کا بے جا قتل یہ امت مسلمہ ہے کوئی بھیڑ بکریاں تو نہیں جنہیں گولیوں، بموں اور زہریلے ہتھیاروں سے بھونا جا رہا ہے،جانوں کے نذرانے دیتے یہ بے بس مگر روحانی طاقت رکھنے والے مجاہدین اللہ انہیں سرخرو فرمائے آمین۔ہر دم حسبنااللہ نعم الوکیل کہنے والے کیا ہمارے لیے ہمارے سوئے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں ہم کیسے پتھر دل ہو گئے؟ آزادی اس کا نام نہیں آزادی تو اللہ کے حضور میں رہتے ہوئے ہر برائی سے بچتے ہوئے مخلوق خدا کی جان مال و عزت آبرو کی حفاظت مرتے دم تک کرنے کا نام ہے۔ کیا ہمارا عمل رویہ قول فعل ایسا ہے ہم دوسروں کو امن کمیٹیوں کودیگر اداروں کو تو شیم آن کہتے ہیں مگر ہمیں تو اب اپنی ہی بے جابے پر کی بیہودہ آزادی کو شیم آن کہنا چاہیے اور دنیا میں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہو اپنے ملک پڑوس سے لے کر دور دراز تک دل و جان سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے آج نہیں کل نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ جیسے صفائی نصف ایمان ہے آج،کل اورہمیشہ!بالکل اسی طرح ظلم و بربریت کو روکنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے ہمیشہ کے لیے،اس سے بے خبر اور لا تعلق ہو کر ہم انسان کے لیول تک نہیں پہنچ سکتے تو کیا مسلمان اور کیسے مسلمان؟کیا آزادی نہیں، نہیں یہ تو بربادی ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ ظالم بادشاہ کے آگے کلمہ حق بولنا ہی اصل جہاد ہے سب کچھ بھلا کر کوئی کیسے آزاد رہ سکتا ہے؟ ضرورت ہے عمل کا وقت ہے:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

تو وقت ابھی اور آج ہے! خدارا جاگ جائیں اپنے سوئے ہوئے ضمیروں کو اس احترام کے مہینے میں جگائیں،امن و امان کی شمع جلائے رکھیں، جاہلیت کے تمام واروں کو اپنی ایمانی قوتوں کو باعمل بنا کراور صلاحیتوں سے دعاؤں کے ساتھ روکنے کی پھر کوششوں میں اپنی زندگانی لگا دیں۔ آخراس زندگی کا،اس مستعار زندگی کا حق ادا نہیں کرنا؟ واپس بندگی پر آئیں رب کی عطا،بندگی فرمانبرداری تمام بیماریوں کا علاج ہے،حدود اللہ میں رہ کر جو آزادی سے کرو گے وہی آزادی امر ہو جائے گی۔ انشاء اللہ

Comments

Click here to post a comment