آج ایک بار پھر بعض لوگوں نے کہنا ہے
"آپ یہ بھی جانتے ہیں ؟"
مجبوری ہے بات تو کرنی ہے۔ سو سب سے پہلے اس سوال کو ہی نمٹاتے چلتے ہیں۔ جی ہاں ہم سیکیورٹی اور سیکیورٹی بریچ کی تھوڑی سی شد بد رکھتے ہیں۔ اب آجایئے موضوع کی جانب
آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ہمارے ہاں مذہبی و سیاسی لیڈرز کے ساتھ جو باڈی گارڈز ہوتے ہیں، وہ بالعموم کلاشنکوفوں یہ کسی اور ٹائپ کی مشین گنز سے مسلح ہوتے ہیں۔ کیا اسے سیکیورٹی کہا جاسکتا ہے ؟ قطعا نہیں۔ یہ سیکیورٹی کے نام پر مذاق ہے اور محض شوبازی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر سیکیورٹی کیسی ہوگی ؟
اس سوال کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ سیکیورٹی پر مامور اہلکار کتنے ہیں ؟ اگر چھ یا اس سے زائد ہیں تو چار اہلکاروں کو ہینڈ گنز یعنی جدید پسٹلز سے مسلح ہونا چاہئے۔ اگر گاڑی بلٹ پروف نہیں ہے تو پھر ان ہینڈ گنز والوں میں سے تین کو دوران سفر گاڑی کے اندر ہونا ہوگا۔ لیڈر صاحب پچھلی سیٹ پر درمیان میں جلوہ افروز ہوں گے۔ ان کے دانوں جانب ایک ایک گارڈ بیٹھے گا۔ تیسرا گارڈ فرنٹ سیٹ پر ہوگا۔ مشین گن والا کوئی بھی گارڈ گاڑی کے اندر نہیں ہوگا۔ کیونکہ جب حملہ ہوگا تو اسے گن سیدھی کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ یہ سیکنڈز کا کھیل ہوتا ہے۔ صرف ہینڈ گنز ہی ہیں جو برق رفتاری سے باہر نکالی جاسکتی ہیں۔
اسی گاڑی کے پچھلے حصے میں اگر ویگو طرز کا کھلا حصہ موجود ہے تو مشین گنز والے گارڈز دونوں وہاں ہونے چاہئیں۔ اور ہینڈ گنز والا چوتھا گارڈ بھی یہیں ہوگا۔ بالعموم حملہ آور سرپرائز اٹیک کرتے ہیں۔ اور اس کے لئے بہت قریب آتے ہیں۔ وہ استعمال بھی 9 ایم ایم گن کرتے ہیں۔ سو گاڑی میں بیٹھے گارڈز اور باہر ڈالے میں موجود ہینڈ گنز والے گارڈ ک پاس لمحوں میں حرکت میں آنے کا موقع ہوگا۔ بشرطیکہ وہ تربیت یافتہ بھی ہوں اور فٹ بھی۔مشین گنز والے گارڈز کی اصل ضرورت وہاں پڑتی ہے جب حملہ آور دور سے فائر کریں اور فرار ہونے کی کوشش کریں۔ اب یہ ہینڈ گنز کی رینج میں یا تو ہوں گے نہیں یا پھر نکلنے والے ہوں گے سو یہاں اب مشین گنز والے گارڈز کا رول شروع ہوجائے گا۔
اب سوال آجاتا ہے کہ حملے کے بعد کیا کرنا ہوگا ؟ سیکیورٹی ٹیم کے دو ٹاسک ہیں۔ پہلا یہ کہ اپنی شخصیت کو سیکیور رکھنا۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ زخمی ہے تو ہسپتال، بچ گیا ہے تو قریب ترین محفوظ مقام منتقل کرنا۔ اگر بالفرض حملہ آور مارے گئے ہیں تو اس صورت میں بھی سیکیورٹی ٹیم کو یہاں رکنا کسی صورت نہیں ہے۔ حملہ آور فرار ہوگئے تو تعاقب کے چکر میں بھی بالکل نہیں پڑنا۔ ان کا ایک ہی ٹاسک ہے اور وہ ہے اسے محفوظ رکھنا اور محفوظ مقام پر پہنچانا جس کی وہ سیکیورٹی پر مامور ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہئے کہ اگر ٹارگٹ کوئی بہت اہم شخصیت ہے اور حملے کے لئے چنے گئے مقام پر بالعموم پولیس نہیں ہوتی تو عین ممکن ہے کہ دو سے ڈھائی سو میٹر دوری پر دوسری حملہ آور ٹیم موجود ہو۔ لھذا چوکنا رہنا ہوگا۔
اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے حملے کی ویڈیو اور تصاویر دیکھ چکے ہیں تو ہماری اگلی سطور آپ کی سمجھ میں آجائیں گی اور ممکن ہے آپ اس سے کچھ سیکھ بھی پائیں
٭ حملہ جیسے ہی ہوا ڈونلڈ ٹرمپ فورا زمین پر جھک گیا۔ ۔۔۔۔۔۔ پرفیکٹ
٭ پانچ سے چھ سیکرٹ سروس اہلکار پلک جھپکتے میں ٹرمپ کے اوپر پہنچ گئے اور اس کے جسم کو مکمل طور پر اپنے جسموں سے ڈھانپ لیا۔ اب کوئی مزید گولی آتی بھی تو ان اہلکاروں کو لگتی ٹرمپ کو نہیں۔۔۔۔۔ پرفیکٹ
٭ ٹرمپ کو ڈھانپنے والی ٹیم کے اہلکاروں نے کسی گولی کے خوف سے اپنے سر سینے کی طرف یا زمین کی جانب جھکا کر نہیں رکھے تھے۔ بلکہ ان کے سر سی سی ٹی وی کیمروں کی طرح بلندی پر تھے، اور ٹرمپ کی بجائے گرد و پیش کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔پرفیکٹ
٭ اسی ٹیم کے اہلکاروں کے ہاتھ اپنی ہینڈگنز پر تھے اور گنز ہولسٹرز میں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ پرفیکٹ
٭ سیکرٹ سروس کے دو دو اہلکار سٹیج کی دونوں سائیڈ کی سیڑھیوں پر پہنچ گئے تاکہ کوئی غیر متعلقہ شخص اوپر نہ جاسکے۔ ۔۔۔۔۔ پرفیکٹ
٭ مشین گنوں سے مسلح دو سیکرٹ سروس اہلکار سٹیج کے فرٹ پر آ پہنچے تاکہ پنڈال یا اس کے اطراف موجود کسی دور کے مشکوک شخص کا تدارک ہوسکے۔۔۔۔۔۔۔ پرفیکٹ
٭ اسی دوران سنائپرز کی ٹیم نے حملہ آور کو پہلے ہی منٹ میں نشانہ بنا لیا۔۔۔۔۔۔ پرفیکٹ
مذکورہ بالا سب پلان کا حصہ تھا۔ ٹیم کا ہر فرد جب حرکت میں آیا تو حسب پلان عین اپنے طے شدہ مقام پر پایا گیا۔
اب آجایئے بلنڈر کی طرف
٭ جب آواز آئی کہ حملہ آور مار دیا گیا تو ٹرمپ پر جھکی ٹیم فوری حرکت میں نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ بلنڈر
٭ جب خدا خدا کرکے ٹرمپ اور یہ ٹیم اٹھی تو ٹرمپ نے کہا "مجھے جوتے پہننے دو" اور ٹیم یہ بات مان گئی۔ ۔۔۔۔۔ بہت بڑا بلنڈر
٭ جوتے پہننے کے بعد ٹرمپ نے کہا "ویٹ ویٹ ویٹ" اور سیکرٹ سروس ٹیم یہ بھی مان گئی۔ ۔۔۔۔۔ بہت بڑا بلنڈر
٭ جب ٹرمپ مکے لہرا کر لیڈری کر رہا تھا تو تو سیکرٹ سروس ٹیم نے یہ بھی کرنے دیا۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا بلنڈر
٭ ٹرمپ کے مکے لہرانے کے دوران اس کا سر محفوظ نہ تھا، آسان ٹارگٹ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا بلنڈر
٭ سیڑھیوں پر ٹرمپ ایک بار پھر رکا اور وہاں تو اس کا سینہ بھی ایکسپوز تھا۔۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا بلنڈر
٭ سیڑھیاں اترنے کے بعد گاڑی تک پہنچنے میں غالبا تیس سے چالیس سیکنڈز لگے ہیں۔ یہ بہت زیادہ وقت تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا بلنڈر
٭ گاڑی میں سوار ہوتے وقت ٹرمپ کا سر ایک بار پھر بلند ہوکر غیر محفوظ ہوا۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا بلنڈر
اب یہ نکتہ سمجھ لیجئے کہ یہ بلندرز کیوں ہوئے ؟ ٹیم لیڈر سیکیورٹی کا یہ انتہائی اہم ترین اصول نظر انداز کرتا رہا کہ کسی ایمرجنسی میں ٹرمپ کیا برسر اقتدار صدر کی بھی نہیں سنی جائے گی۔ آڈر صرف ٹیم لیڈر کا چلے گا اور ٹیم لیڈر کی اولین ترجیح یہی ہونی چاہئے تھی ٹرمپ کو جتنا جلد ہوسکے اس مقام سےنکالنا ہے۔ جبکہ وہ الو کا پٹھا ٹرمپ کے آڈرز فاو کرتا رہا۔ اور ٹرمپ کو جائے وقوعہ سے ہٹانے میں اس نے تقریبا تین منٹ لئے۔ جو بہت بڑا وقت ہے۔ لکھ کر دیتے ہیں کہ یہ پوری ٹیم از سر نو ٹریننگ کے لئے بھیجی جائے گی جبکہ ٹیم لیڈر برطرف ہوگا۔
نوٹ: ٹرمپ کا مکے لہرانا بالکل ٹھیک تھا۔ وہ لیڈری کی ڈیوٹی پر تھا وہی کر رہا تھا۔ سیکیورٹی ٹیم کی ڈیوٹی یہ تھی کہ اسے فوری بحفاظت نکالنا ہے۔ اور اس کام میں اس ٹیم سے بہت بڑے بلنڈرز ہوئے ہیں۔
تبصرہ لکھیے