لڑکے اور لڑ کیاں دونوں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں، اللہ رب العزت نے اپنی حکمت بالغہ سے ایسا نظام قائم کیا ہے کہ مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ قبل از اسلام قریش کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو باعث ننگ و عار تصور کرتے تھے اس لیے زندہ درگور کر دیتے تھے۔ یہ ظلم صرف عرب تک محدود نہیں تھا بلکہ ہندوستان میں بھی یہی حال تھا مگر جب رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو اس طرح کی تمام رسومات کا خاتمہ فرمایا اور لوگوں کو بتایا کہ بیٹی باعث ِ رحمت ہے. ترمذی شریف میں حضرت سعید خدری سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم نے فرمایا کہ’’ جس بندے نے تین بیٹیوں ،تین بہنوں یا دو ہی بیٹیوں یا بہنوں کا بار اٹھایا اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح کر دیا تو اللہ تعا لیٰ طرف سے اس بندے کے لیے جنت کا فیصلہ ہے‘‘
عورت ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی صورت میں رحمت بن کر اترتی ہے. ماں کے قدموں میں رکھ دی گئی ہے، بیٹی و بہن کے روپ میں والد اور بھائیوں کو جنت میں لے جانے اور حضور اکرمﷺ کی رفاقت کا سبب بنتی ہے، بیوی کا روپ اختیار کرتی ہے تو شوہر کا آدھا ایمان مکمل کرنے والی قرار دی جاتی ہے. بیٹیاں تو خدا کی رحمت، برکت اور گھروں کی رونق ہوتی ہیں. ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بار ایک دوست کہنے لگے کہ اللہ تمہیں اولاد نرینہ سے نوازے تو میں نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیٹا اور بیٹی دونوں سے نوازا ہے، بتائو دونوں میں فرق کیا ہے تو وہ کہنے لگا کہ جب شام کو گھر لوٹتا ہوں تو بیٹا بھی محبت سے ملتا ہے اور بیٹی بھی مگر بیٹی کی محبت کا انداز ہی نرالا ہے، میرے لیے پانی کا گلاس اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، پھر اسے میرے جوتوں کی فکر پڑ جاتی ہے، وہ میرے لیے گھر کے جوتے لاتی ہے. پھر پائوں دباتی ہے اور اس کے اس پیار سے میں دن بھر کی تھکاوٹ بھول جاتا ہو ں.
امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ فرماتے ہیں کہ
’’وہ بیٹیاں، تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دو، اُف کیے بغیر تمہاری پگڑیوں اور ڈاڑھیوں کی لاج رکھنے کے لیے ساتھ ہو لیتی ہیں، سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے تو چھپ چھپ کر رو لیتی ہیں، کبھی دھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کر لیا، آٹا گوندھتے ہوئے آنسو بہتے ہیں اور وہ آٹے میں جذب ہو جاتے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ ان روٹیوں میں اس بیٹی کے آنسو بھی شامل ہیں ،غیرت مندو، ان کی فکر کرو، یہ آبگینے بڑے نازک ہیں‘‘
اسلام میں بیٹی کو اتنی اہمیت سے نوازا گیا ہے تو معاشرے میں اسے وہ عزت و اہمیت کیوں حاصل نہیں اور اسے جینے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا. چودہ سو سال پہلے کے زمانہ کو تو ہم جاہلیت کادور کہتے ہیں مگر آ ج کے پڑھے لکھے اور ماڈرن دور میں بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دینے کا جاہلانہ رویہ کیوں ہے؟ الٹراسائونڈ امشین کے ذریعے بچے کی جنس معلوم کرنے کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے اور بیٹی ہونے پر افسوس کا اظہار کیوں ہوتا ہے، بعض تو اسقاط کے ذریعے قتل بھی کر ڈالتے ہیں. بیٹی پیدا ہونے پر شرمندگی کیوں محسوس کی جاتی ہے؟ اسے مصیبت و ذلت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ بیٹی پیدا ہونے پر بیوی کو طلاق دینے کی جاہلانہ روایت کیوں باقی ہے؟ طلاق سے یاد آیا کہ ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں ہوتی تھیں، ہر بار اسے امید ہوتی کہ اب بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی پیدا ہوتی اور اس طرح یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہو گئیں. بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی، اسے ڈر تھا کہ کہیں لڑ کی نہ پیدا ہو جائے. شیطان ملعو ن نے اسے بہکایا اور اس نے ارادہ کیا کہ اگر بیٹی پیدا ہوگی تو بیوی کو طلا ق دے دے گا۔ رات کو سویا تو عجیب و غریب خواب دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے، اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جس کے سبب فرشتے اسے پکڑ کر جہنم کی طرف لے گئے. پہلے دروازے پر گئے تو دیکھا اس کی ایک بیٹی کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا، فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر لے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی، اب فرشتے اسے تیسرے دروازے پر لے گئے وہاں بھی اس کی بیٹی رکاوٹ بنی، اس طرح فرشتے اسے جس دروازے پر لے جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی تھی جو اس کا دفاع کرتی غرضیکہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اسے لے کراس دروازے کی طرف چل دیے، اس پر گھبراہٹ طاری ہو گئی کہ اب اس دروازے پر میرے لیے کون رکاوٹ بنے گا؟ اسے معلوم ہوگیا کہ اس کی جو نیت تھی غلط تھی، اسی خوف کے عالم میں اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے فوراََ اللہ رب العزت کے حضور دعا مانگی’اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔
آج کل ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جونہی شادی شدہ لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو ’’ٹیوے‘‘لگنے شروع ہو جاتے ہیں کہ بیٹا ہوگا یا بیٹی، کوئی اس کی چال دیکھ کر کہتا ہے کہ بیٹا پیدا ہوگا تو کوئی یہ ’ٹیوا‘ لگاتا ہے کہ اس کی آنکھوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹی ہوگی۔ موقع بے موقع اس بارے باتیں چلتی رہتی ہیں یہاں تک کہ پیدائش کا وقت آجاتا ہے. اگر بیٹا پیدا ہو تو خوشی کا شور اور مبارکبادوں کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں لیکن اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو مایوسی ظاہر کی جاتی ہے، منہ بنائے جاتے ہیں. یہ کتنی بڑی ناانصافی اور ناشکری ہے کہ اسی خدا نے بیٹی کو پیدا کیا تو گھر خاموشیوں میں ڈوب گیا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایا کہ’’ اور جب ان میں سے کسی کو بشارت دی جائے کہ تمھارے ہاں بیٹی پیدا ہو گی تو غم اور پریشانی کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ ظاہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے.‘‘ ہمیں تو ہر وقت خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور صحت مند بچے کے پیدا ہونے کی دعا کرنی چاہیے، خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی، دونوں کی پیدائش پر صدقہ، خیرات اور خوشی کرنی چاہیے. بعض گھروں میں رواج بھی عام ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہو جائیں تو اسے سسرال کی طرف سے اشارۃََ پیغام ملنا شروع ہو جاتے ہیں کہ آئندہ بیٹا ہونا چاہیے، وہ شاید سمجھتے ہیں کہ یہ سب اس بیچاری کے اختیار میں ہے۔
اگر بیٹی کی کوئی اہمیت نہ ہو تی تو اللہ اپنے پیارے رسولﷺ کی نسل کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے کیسے برقرار رکھتا۔ اگر بیٹی کی اچھی پرورش کریں گے تو وہ ہرگز بیٹے سے پیچھے نہ رہے گی. ایک دفعہ حضورپاکﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو کسی نے آپﷺ کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی، رسول کریم ﷺاس پر خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے پھول عطا کیے ہیں جس کی میں مہک محسوس کرتا ہوں اور اللہ نے اس کا رزق دیا ہے۔ اللہ پاک ہمیں ان معاشرتی رویوں سے محفوظ رکھے اور ہم اسوہ رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے انسانیت کے لیے بہترین نسلیں پیدا کرنے والا بنائے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بیٹیوں کو زحمت کی بجائے رحمت ہی سمجھنے والا بنائے. آمین
تبصرہ لکھیے