ہوم << پوش اور پوش کا فرق-احمد حاطب صدیقی

پوش اور پوش کا فرق-احمد حاطب صدیقی

ان کالموں کا فیضان ہے کہ اب لوگ رستے ہی میں پکڑپکڑ کر پوچھنے لگے ہیں کہ صاحب، پوچھ پاچھ ٹھیک ہے یا پوچھ تاچھ؟ ارے صاحب! ٹھیک تو دونوں ہی ہیں، مگر یوں کسی کا راستہ کھوٹا کردینا ٹھیک نہیں۔

پچھلے پرلے روز ایک نوجوان قلم کار سرِراہ مل گئے۔ بعد سلام کے معروض ہوئے:
’’حضرت! اُردو کے ایک لفظ کا مصدر سمجھ میں نہیں آیا۔ سمجھا کر سرفراز فرمائیے‘‘۔

ایک توہم اُن کی اُردو سن کر خوش ہوئے، دوسرے اس بات کی خوشی ہوئی کہ پہلا نوجوان ملا ہے جو مصدر پوچھ رہا ہے۔ پوچھا:
’’وہ کون سا لفظ ہے جس کا مصدر سمجھ میں نہیں آیا؟ ‘‘

فرمایا: ’’پوش‘‘۔
ابھی ہم اس باب میں کچھ لب کُشائی کرنے ہی کو تھے کہ مزیدفرمایا:

’’مثلاً: فلاں صاحب بہت پوش علاقے میں رہتے ہیں ‘‘۔
جی تو بہت چاہا کہ وہیں سڑک پر کھڑے کھڑے اُنھیں اپنی پاپوش سے سرفراز فرمائیں اور اگر فلاں صاحب مل جائیں تو ان کو بھی، کہ یہ فتنہ اُنھیں کے گھر سے اُٹھا۔ پر بڑے ضبط سے یہ بتلایا:
’’عزیزم! آپ جس لفظ کا مصدر اُردو میں تلاش کررہے ہیں، وہ اُردو کا نہیں، انگریزی کا لفظ ہے۔Posh کے معانی ہیں اعلیٰ درجے کا، پُر رونق اور خوش وضع‘‘۔

بحث پر اُتر آئے۔ کہنے لگے:
’’ میں نے تو اُردو کے بڑے بڑے ادیبوں کے ہاں یہ لفظ استعمال ہوتے دیکھا ہے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اُردو کا لفظ نہیں۔ ‘‘

عرض کیا: ’’اُردو کے بڑے بڑے ادیبوں کا پوش اور ہے، فلاں صاحب کے علاقے کا پوش اور۔ اس وقت ہم ذرا جلدی میں ہیں، آپ ہمارا اگلا کالم پڑھ کر سرفراز ہو لیجیے گا‘‘۔
وعدہ کرلیا تھا۔ سو ایفا کرتے ہیں کہ اے عزیز! یہ جان رکھیے، بڑے بڑے ادیبوں اور اُردوکا ’پوش‘ فارسی سے آیا ہے۔ اس کا مصدر ہے ’پوشیدن‘ یعنی ڈھانکنا یا چھپانا۔ مجازاً یہ لفظ پہننے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ فارسی ہی کا ایک مشہور اور ضرب المثل شعر ہے:

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم

تُو جس رنگ کا چاہے، لباس پہن کر آجائے۔ میں تو تیرے قد کا انداز پہچانتا ہوں۔ مطلب یہ کہ محبوب بھیس بدل کر پھرے تب بھی پہچانا جائے گا۔ عاشق سے پیچھا چھڑانے کی یہ ترکیب نہیں چل سکے گی۔
’پوشیدن ‘ہی سے لفظ ’پوشیدہ ‘بھی مشتق ہے۔ چھپی ہوئی چیز کو پوشیدہ کہتے ہیں۔ فروغؔ احمد مرحوم، فنکاروں سے فرمایا کرتے تھے:

فن کے دکھائیے نہ کمالات دیر تک
پوشیدہ کیا رہے گی کوئی بات دیر تک

’پوشیدن ‘اصلاً چھپانے ہی کو کہتے ہیں۔ پہننے میں بھی ہم کچھ نہ کچھ ڈھانکتے یا چھپاتے ہیں۔ ’پاپوش‘ سے پاؤں ڈھانکتے یا پاؤں چھپاتے ہیں۔ اسی وجہ سے جوتے کو پاپوش کہا جاتا ہے۔ اللہ جانے ہمارے ناظم آباد (کراچی) کے ایک پوش علاقے کو ’پاپوش نگر‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ قبر کا حال مُردہ ہی جانتا ہے۔ شاید اس نگری کے لوگ ہی کچھ بتا سکیں۔ ویسے اُس علاقے میں جوتم پیزار بہت ہوتی ہے۔

جس شے سے کچھ ڈھانکا یا چھپایا جائے اسے ’پوشش‘ کہتے ہیں۔ غلاف ہی کو نہیں، لباس کو بھی پوشش کہا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی نشستوں پر جو کپڑا چڑھایا جاتا ہے وہ بھی پوشش کہلاتا ہے۔ انسانی پوشش کو لکھنؤ والے ’پوشاک‘ کہتے ہیں۔ ہم بھی کہنے لگے ہیں۔ نوراللغات کے مطابق ’پوشش‘ کا لفظ غیر ذی روح یا حیوانِ مطلق کے لباس کے لیے مخصوص ہے۔ مگر دلّی کے مرزا غالبؔ نے حضورِ شاہ جو درخواست، اپنی تنخواہ بڑھانے کو، بھیجی تھی اُس میں خود اپنے لیے بھی ’پوشش‘ ہی کی حاجت ظاہر فرمائی تھی:

کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں، ہے اگرچہ نزار

’پوش ‘بھی لاحقے کے طور پر بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ کسی اسم کے بعد لگ کر اُس اسم کو فاعلِ ترکیبی بنا دیتا ہے۔ مثلاً نقاب پوش نقاب پہننے والا، زرہ پوش زرہ پہننے والا، اور سبز پوش سبز رنگ پہننے والا۔ مراد سبز رنگ کا لباس ہے۔ وادیاں پھولوں سے ڈھک جائیں، یا محبوبہ بذاتِ خود، دونوں کو’گُل پوش‘ کہتے ہیں۔ اچھا لباس پہننے والے کو ’خوش پوش‘ کہا جاتا ہے۔ خان عبدالغفار خان نے جو ’’خدائی خدمت گار تحریک‘‘ شروع کی تھی، اُس کے رہنما اور کارکن سُرخ لباس اور سُرخ ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ آج بھی پہنتے ہیں۔ اس تحریک سے تعلق رکھنے والے کارکن ’سرخ پوش‘ کہلاتے ہیں اور خان عبدالغفار خان ’سرخ پوش رہنما‘۔ مشہور عالم علامہ رضاحسین رشیدؔ ترابیؒ فرماتے ہیں:

پرائی آگ میں جل کر سیاہ پوش ہوئے
گر اپنی آگ میں جلتے تو کیمیا ہوتے

(علامہ رشیدؔ ترابیؒ کا مجموعۂ کلام ’شاخِ مرجان‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے)

’پوش‘ کی جگہ ’پوشی‘ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ڈھانکنا یا چھپانا۔ مثلاً ’عیب پوشی‘ عیب چھپانا اور’پردہ پوشی‘ کسی کے عیب یا بُرائی کو ڈھانکنا، اُس پر پردہ ڈالنا۔ ’چشم پوشی‘ کا لفظی مطلب ہے ’آنکھ چھپانا‘ مگر یہ محاورہ ہے۔ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ آپ کسی کا نقص یا قصور یا غلطی دیکھ کر اس کا کسی سے، حتیٰ کہ خود اُس شخص سے بھی، ذکر نہ کریں۔ اپنی آنکھیں چھپا لیں۔ گویا آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ میر تقی میرؔ کو یہ شکایت اپنے اطبا سے تھی:

سُن عشق جو اطِبّا کرتے ہیں چشم پوشی
جاں کاہ اس مرَض کی شاید دوا نہیں ہے

اسی طرح کا ایک لفظ ہے ’رُوپوشی‘۔ لفظی مطلب: چہرہ چھپانا۔ مگر اس سے مراد پورے کے پورے آدمی کا چھپ جانا ہے۔ ظاہر ہے کہ ’رُوپوش‘ شخص چہرے سمیت ہی چھپتا ہے۔بلکہ شترمرغ صفت آدمی تو صرف چہرہ چھپا کر یہ سمجھتا ہے کہ پورے کا پورا چھپ گیا ہے۔

جو کپڑا گرد سے بچانے کے لیے کسی چیز پر چسپاں کردیا جائے اُسے ’گرد پوش‘ کہتے ہیں۔ میز پر ڈالا جانے والا کپڑا یا پلاسٹک ’میز پوش‘ کہلاتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں مسلمان سامانِ افطار تقسیم کرتے ہیں۔ جس طشت یا طشتری میں کھانے پینے کا سامان لے جایا جارہا ہو، گرد، مٹی یا اُڑتے کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے اُس کو کپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اس کپڑے کو ’سرپوش‘ کہتے ہیں۔

القصہ مختصر، انگریزی کا پوش اور ہے، اُردو کا پوش اور۔
اے صاحبو!اب بس کرتے ہیں۔ آج کا کالم کچھ زیادہ ہی پوش ہوگیا ہے۔

Comments

Click here to post a comment