پاکستان میں عیسائیوں کی مذہبی عبادت گاہوں/کلیساؤں پر حملہ کرنے والوں کو مسلسل گرفتار کیا جارہا ہے، توڑ پھوڑ کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جارہاہے پاکستانی سپریم کورٹ کے سینئر جج بھیڑ کے ذریعے جلائے گئے چرچ کا بنفس نفیس دورہ کر رہے ہیں، پاکستان کے شیخ الاسلام سے لےکر تمام مذہبی رہنما / علمائے کرام بیک زبان کلیساؤں پر ہونے والے حملوں کے خلاف ہیں، ان حملوں کو غلط، غیراسلامی اور غیرقانونی قرار دے رہےہیں، نام نہاد ہی سہی لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کےساتھ اظہار یکجہتی کا یہ حسین نظارہ اسلامی رواداری اور اسلامی عدل و انصاف کی منہ بولتی تصویر ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کو سڑکوں پر مارا جاتا ہے، گائے کےنام پر تو کبھی لو۔جہاد کےنام پر زندہ جلادیا جاتا ہے، جےشری رام کے نعروں تلے مسجدوں پر حملے ہوتے ہیں. مدارس پر تلوار لہرائی جاتی، مسلم آبادیوں میں ہتھیاروں سے لیس ہندوتوا بھیڑ گھس کر قتل و غارت مچاتی ہے، ہندوتوا بھیڑ مسلم عورتوں کے حجاب تک پر حملہ کرتی ہے، کتنے ہندو مذہبی رہنماؤں، پنڈتوں، شنکر آچاریوں، سادھوؤں اور مندروں کے مہاراجہ اور پجاریوں نے ان وحشیانہ مظالم کےخلاف آواز اٹھائی؟ کتنی مرتبہ ہندو مذہبی لیڈروں نے مسلمانوں کےخلاف اپنی قوم میں پنپ رہی سَنگھی نفرت اور تیزی سے بڑھتے ہوئے بھاجپائی ہندوتوا کے زہر کےخلاف نصیحت و تلقین کی؟ وہاں سپریم کورٹ کا سینئر جج اپنے ملک کی اقلیت کو اطمینان دلانے کے لیے زمین پر اترا ہوا ہے یہاں سینکڑوں مسلمانوں کے مکانات ملک بھر میں ظالمانہ بلڈوزر گردی کےذریعے تہس نہس کردیے گئے، اجڑی ہوئی مسلم آبادیوں میں آج تک کتنے آئینی نگہبان پہنچے؟ اور کتنے بلڈوزر زدہ مسلم مکانات واپس تعمیر کرائے گئے؟
یہ فرق زمین و آسمان کی طرح صاف ہے، شترمرغ کی طرح بس راشٹرواد کی ریت میں گُھس کر آنکھیں بند کرنے سے حقائق بدل نہیں جائیں گے، جو بھی لوگ اپنی دیش۔بھکتی ثابت کرنے کے لیے پاکستان کو صرف پانی پی پی کر گالیاں دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی قوت اس بات پر صرف کریں کہ ہمارے ملک میں بھی مظلوموں کےساتھ پاکستان سے بہتر طرز پر انصاف کا نظام قائم ہو، تاکہ اس پر فخر کیا جاسکے. ملک کے ساتھ یہ حقیقی خیرخواہی ہوگی ورنہ آپ جتنا چاہے زور سے زندہ باد اور مردہ باد چلّاتے رہو تاریخ میں آپکی دیش۔بھکتی کا یہ شورشرابہ نہیں پہنچنے والا. تاریخ میں حقائق اور کردار پہنچتے ہیں، اور جس دور میں مظلوموں کےساتھ انصاف نہیں ہوتا اس دور کو تاریخ میں سِیاہ اور منحوس لکھا جاتا ہے، آج کے بھارت کے حکمران اور اس بھارت کا ہر ذمہ دار شہری خود سوچے کہ: کل کو جب تاریخ کی کتابوں میں موجودہ بھارت و پاکستان کی اقلیتوں کےساتھ مظالم اور عدل و انصاف کے باب کو لکھا اور پڑھا جائےگا تب ریاستی پالیسی کے طورپر پاکستان کے مقابلے ہمارےپاس کتنے پوائنٹس ہوں گے؟
تبصرہ لکھیے