ہوم << کوئی بچھڑے ہوؤں سے یوں بھی کرتا ہے.عائشہ غازی

کوئی بچھڑے ہوؤں سے یوں بھی کرتا ہے.عائشہ غازی

ہم سب اکٹھے چلے تھے ایک نئے گھر کی طرف ۔۔ ایک پناہگاہ کی طرف ۔۔ آگ کے دریا میں امن کی ایک کشتی کی طرف ۔۔ جس کے لئے ہم سب نے اکٹھے قربانیاں دی تھیں، اکٹھے اسے تعمیر کیا تھا ، ہم سب جو حالات کے جھلسے ہوئے تھے ، ہم نے اکٹھے اس خواب کی پنیری لگائی تھی کہ کل کو یہ درخت بن کر ہمیں چھاوں دیں گے ۔۔۔ ہماری نسلوں کو آگ برساتے آسمان اور پاوں جلاتی ہوئی زمین پر نہیں رہنا پڑے گا ۔۔۔
پھر ہوا کیا ۔۔۔ جو آگ کا گھیرا توڑ کر پہلے پہنچ گئے ، انہوں نے گھر پہنچ کر اپنے دروازے اور کان دونوں بند کر لئے ۔۔۔ انہیں بھول گیا کہ آگ کے گھیرے میں رہ جانے والوں کا بھی اس گھر پر اس کشتی پر اتنا ہی حق تھا جتنا پہلے پہنچ جانے والوں کا ہے ۔۔۔ ہم کان بند کر کے بہرے اور بے بہرہ ہو گئے کے گھر سے باہر رہ جانے والے ہمیں مدد کے لئے پکارتے ہیں ۔۔۔
نعمت مل جانے کے بعد ان لوگوں کو یاد رکھنے کے لئے بڑا ظرف چاہئے جن کا نعمت پر آپ جتنا حق تھا لیکن وہ آپ جتنے خوش بخت نہیں تھے ۔۔۔ جنہیں گھر مل گیا ، انہیں خود غرضی نے بے وفا بنا دیا اور بے وفائی اس حد تک گئی کہ دھوکے کے ضمن میں آنے لگی ۔۔۔
سال پر سال گزرتے گئے ۔ یوں نہیں ہوا کہ قدم جمانے کے بعد ہماری خود غرضی میں کمی آتی اور ہمیں ہوش آتا کہ جو پیچھے رہ گئے تھے وہ کس حال میں ہیں۔۔ ہم ان کی تلاش میں انکی مدد کو نکلتے ۔۔۔ اور پیچھے رہ جانے والوں کا حال وہی ہوا جو عشقِ ناتمام کا ہوتا ہے ۔۔۔ یہ وقت کے ساتھ مندمل ہونے کی بجائے زخم بنتا جاتا ہے اور عاشق اسے اہتمام کے ساتھ پالتے ہیں۔۔۔ عاشقین پاکستان اپنے شہید جسموں کو کبھی پاکستان کے جھنڈوں میں لپیٹ کر دفن کرتے رہے اور کبھی چہروں پر مسکراہٹ کا اعزاز پہنے سولیوں پر چڑھتے رہے ۔۔۔ کشمیر سے بنگال تک ۔۔ عشق کی داستانِ ناتمام ہے جس کا جرم دھوکے بازوں سے وفا کی امید رکھنا ہے ۔۔۔ لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیش کے بہاری کیمپوں میں پڑی آنکھیں ہماری طرف دیکھتی رہیں ، ہزاروں بنگالی جیلوں میں پڑے ہم سے صرف اپنی محبت کی رسید مانگتے رہے اور جیسا دھوکہ ہم نے مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کیا ہے ، وہ انسانی تہذیب کی تاریخ میں کم ہی لکھا گیا ہو گا ۔۔۔
اصل میں پاکستان پر انہی عشق والوں کا حق تھا ۔۔۔ اور حق دار کو حق نہ ملے تو قابضین کچھ عرصے تک تو ان کے حق کا استحصال کر سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں۔۔۔ انسان انصاف نہیں کرتے تو قدرت خود انصاف کرنے آسمانوں سے اتر آتی ہے ۔۔۔ پھر قدرت عطا کی بجائے انصاف پر آ جاتی ہے ۔۔ وقت کا گزرنا کسی ظلم کو جائز نہیں بناتا ، وقت کسی ناانصافی کا جواز نہیں ہوتا ۔۔۔ بلکہ وقت قوموں سے بدلہ لیتا ہے ۔۔۔ بے وفائی کا بدلہ، ناانصافی کا بدلہ، دھوکے بدلہ ۔۔۔ جس آگ میں دوسروں کو چھوڑ کر ہم نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لئے تھے ، وہ آگ اب ہمارے پاوں تک پہنچتی محسوس ہوتی ہے ۔۔ لیکن ہم پھر بھی پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ ہمارے جشنِ آزادی پر آگ کے دریا میں رہ جانے والوں کے دل کیا محسوس کرتے ہیں ۔۔۔
پیچھے رہ گئے عاشقانِ پاکستان ہم سے کہتے ہیں :
"ہمیں آواز تو دیتے"
کوئی بچھڑے ہوؤں سے یوں بھی کرتا ہے
ہمیں آواز تو دیتے پلٹ کر تم
ہمیں پوچھا تو ہوتا تم کہاں کس حال میں ہو اب
ہمیں اتنا تو کہتے"تم جہاں بھی ہو ، ہمارے ہو،
تمہیں بھولے نہیں ہیں ہم
تمہاری یاد میں آنکھوں کے کونے اب بھی گیلے ہیں"
مگر تم نے ہمیں ایسے بھلایا ہے کہ
کہ جیسے ڈار سے بچھڑی ہوئی کونجیں کسی کی کچھ نہیں لگتیں
عذابِ بے دری میں رقصِ بسمل پر حزیں کوئی نہیں جیسے
یہی ہجرت کے رستے میں بچھڑنے کا مقدر تھا
کہ آنکھیں قافلوں کی دھول کے پیچھے لپکتی چلتی آتی تھیں
مگر بچھڑے ہوؤں کو ڈھونڈنے کوئی کبھی واپس نہیں آیا
کسی کو کیا خبر
بچھڑے ہوئے لوگوں کی قبریں
اجنبی مٹی کے اوپر تیرتی رہتی ہیں صدیوں تک
یہ قبریں راستے پر قافلوں کی راہ تکتی ہیں
کسی اپنے کی آہٹ کو ترستی ہیں
ہمیں آواز تو دیتے پلٹ کر تم
کوئی بچھڑے ہوؤں سے یوں بھی کرتا ہے
(عائشہ غازی)

Comments

Click here to post a comment