قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے پہلے کابینہ کا طویل اجلاس منعقد ہوا۔ بجٹ کی استطاعت کم جبکہ تجاویز زیادہ دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم اجلاس میں بجٹ کے حوالے سے تجاویز پیش ہوئیں تو شہباز شریف بضد دکھائی دیے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں لازمی اضافہ ہونا چاہیے۔صحافی بشیر چوہدری نے اجلاس کی اندرونی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ" وفاقی کابینہ کا اجلاس تین گھنٹے سے جاری ہے اور سرکاری معلومات کے مطابق شہباز شریف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزیر خزانہ کے سامنے ڈٹ گئے ہیں۔ اب دعا یہ کریں کہ نواز شریف کی طرح شہباز شریف بھی اجلاس چھوڑ کر نہ چلے جائیں"۔ اطلاعات یہ بھی موصول ہورہی تھی کہ پیپلز پارٹی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ چاہتی تھی جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار 20 فیصد اضافے کے حامی تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے معاملہ فہمی کرتے ہوئے 30 سے 35 فیصد پر دونوں کی حمایت حاصل کرکے ڈیڈ لاک برقرار رکھ دی۔
قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بجٹ کی کاپیاں جس انداز سے اسمبلی لائی گئیں وہ بھی خاصا دلچسپ منظر تھا۔ اسلام آباد پولیس کے اہلکار قطار اندر قطار سیاہ بکسوں کو ہاتھوں میں تھامیں چلے آرہے تھے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس پر خوب تبصرے کیے۔ ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طبلہ بجٹ بجنے والا ہے ، اللہ خیر ہی کرے، تو کسی نے کہا کہ سیاہ تھیلوں میں بجٹ بم لایا گیا جو کچھ ہی دیر میں عوام پر گرادیا جائے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے اپنے کانوں کو آزاد رکھا، ہمیں ہیڈفون دکھائی دیا نہ کوئی کنٹوپ کی جھلک نظر آئی۔ ماضی میں بجٹ پیشی کے دوران شور شرابہ، کاپیاں پھاڑنا، نعرہ بازی کرنا یہ سب اپوزیشن کی جانب سے معمول اور ایک لازمی امر ہوا کرتا تھا۔رواں سال اپوزیشن کی عدم موجودگی نے قوم کو اس تھیٹر سے بھی محروم کردیا۔عجیب و غریب نعروں سے محظوظ تو دور کی بات اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض صاحب دکھائی بھی کم دیے۔
بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی عدم موجودگی نے وزیر خزانہ کو جوش خطابت سے محروم تو کردیا تھا تاہم حکومتی اراکین بھی عدم دلچسپی کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔ کوئی تالیاں بجا رہا تھا نا کوئی داد دے رہا تھا۔ جیسے ہی وزیر خزانہ اس جملے پر پہنچے کہ اگلے سال صنعتی شعبے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا تو اپنی ذات میں صنعت کار اراکین کی تالیوں سے اسمبلی حال گونج اٹھا۔
بجٹ کی کاپیاں جب شاہراہ دستور سے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی لائی جا رہی تھی اور وزیر اعظم سمیت اہم وزراء اسمبلی اجلاس میں داخل ہو رہے تھے تو عین اسی وقت شاہراہ دستور پر سرکاری ملازمین کو فراموش بھی کیا جا رہا تھا۔ ملک بھر سے سرکاری ملازمین شاہراہ دستور پر عین قومی اسمبلی کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج تھے۔ ان کا مطالبہ تو تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ تھا لیکن ہوا وہی جو قومی خزانے کو منظور تھا یعنی انہیں پیغام دیا گیا کہ 30 فیصد پر ہی اکتفا کردیا جائے۔
مہنگائی اور مشکل کی اس گھڑی میں حکومت نے اہل پاکستان کو ایسا تحفہ بھی دیا کہ وہ خوشی کو سے پھولے نہ سمائیں۔ بجٹ میں استعمال شدہ ملبوسات یعنی لنڈے کی درآمد پر ایکسائز ڈیوٹی ختم کردی گئی۔ یہ واحد خبر ہے جسے سننے کے بعد عوام بازاروں کا رخ کرے گی۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل پیمنٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسلام آباد کے خوراک خانوں میں آن لائن پیمنٹ پر کسٹم ڈیوٹی کم کرکے ۵ فیصد کردی گئی۔ کھانے پینے کے شوقین حضرات اس کی خوب داد رسی کر رہے ہیں۔
تندی باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب ، یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘، اس شعر سے وزیر خزانہ نے اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ لیکن، تاحال یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس کے مخاطبین کون تھے۔
تبصرہ لکھیے