ہوم << دار الامان، پر امن افغانستان کا نمائندہ مسکن- شبیر احمد

دار الامان، پر امن افغانستان کا نمائندہ مسکن- شبیر احمد

معیشت اور سیکورٹی جیسے چیلنجز کا سامنا افغان حکومت کو روز اول سے درپیش تھا۔ یہ دونوں مسائل ترجیحی بنیادوں پر کافی حد تک حل کیے گئے۔ اب جنگ و جدل سے تباہ حال اور مسمار افغانستان کو مزین کرنے کا وقت آگیا ہے۔ کابل میونسپلٹی کی صورت مٹی کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔

اگست 2021 کو ہونے والے انتقال اقتدار کا طریقہ جو بھی تھا، اس کے پر امن ہونے میں کوئی دو رائے موجود نہیں۔ افغان تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی منتقلی خونی قرطاس پر رقم کرکے ملا کرتی تھی۔ کہیں بادشاہ کا سر قلم کیا گیا تو کہیں اس کے وجود میں زہر انڈیلا گیا۔ بالخصوص 1830 کے بعد جب روسی اور برطانوی استعماری طاقتیں یہاں براہ راست مداخلت کرنے لگیں۔ عموماً ہر بادشاہ اور ہر دور کا خاتمہ اسی طریقہ کار پر نظر آیا۔

امارت اسلامیہ کے قائم ہوتے ہی تمام تر کاروباری مراکز وقتی طور بند ہوئے۔ برآمدات اور درآمدات کے سلسلہ ہائے کار آمد کے رک جانے نے افغان کرنسی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ امریکہ نے افغانستان کے 7 ارب ڈالر کے بیرون ملک اثاثے بھی منجمد کردیے جس نے ڈوبتی معیشت کو تنکے کے سہارے سے بھی محروم کردیا۔ یوں معیشت نو آموز حکام کے لیے ایک زبردست چیلنج کے طور پر سامنے آئی۔ افغان کرنسی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا اب اولین ترجیح کے طور پر لیا جانے لگا۔

ابھی افغان عوام نے گولا بارود سے نجات پائی ہی تھی کہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے انہیں اپنی آغوش میں لیا۔ طالبان کی مخالفت اور دشمنی میں داعش نے افغان عوام کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار کی۔ جمعہ کے روز دھماکے افغانستان میں معمول بن چکے تھے۔ لوگوں پر عبادت تنگ کی گئی۔ عین ممکن تھا کہ مساجد ویرانی کا منظر پیش کرنے لگیں اور نماز کا اہتمام گھروں تک محدود ہو جائے۔ ہزاروں افراد دہشت گردی کی اس لہر میں جان کی بازی ہار گئے۔

معیشت کو سہارا دینے کے لیے دوست ممالک کی مدد ایک طرف، افغان حکومت کی اپنی پالیسی قابل داد ہے۔ افغان مرکزی بنک کی حیثیت اس میں سب سے نمایاں ہے۔ ہر ہفتے ڈالر کے مقابل افغان کرنسی کو مستحکم کیا گیا۔ برآمدات اور درآمدات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا۔ پچھلے ایک سال میں فقط قندہار سے 33 کروڑ ڈالرز کی اشیاء برآمد ہوئیں۔ ہرات سے 12 کروڑ ڈالر کی اشیاء بیروں ملک برآمد کی گئیں۔ مجموعی طور پر پچھلے دو سالوں میں افغانستان سے دو ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کی گئیں۔ یہ گزشتہ سالوں کے مقابل دو گنا اضافہ ہے۔ سرکاری املاک سے 2 ارب سے زائد آمدنی، 3 ارب سے زائد کرنسی نوٹوں کا اجراء، پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی، یہ سب مستحکم معیشت کی جانب سفر کرتے افغانستان کی داستان ہے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھی سیکورٹی اداروں نے لازوال تاریخ رقم کردی۔ داعش کے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے آپریشنز کا جال بچھایا گیا۔ ان پر کاروبار زندگی تنگ کردی گئی۔ داعش کے بڑے بڑے سرغنہ موت کے گھاٹ اتارےگئے۔ مارچ کے مہینے میں مزار شریف میں داعش کے ایک ٹھکانے پر آپریشن کے دوران ہزاروں ڈالرز برآمد ہوئے۔ یہ ٹھکانہ داعش کے ایک اہم فنانسر کا تھا۔ ڈالر کی برآمدگی نے داعش کے فنڈنگ کے حوالے سے تشکیک کا ایک نیا باب رکھا۔ بہرحال اب کی بار دہشتگردی دب چکی ہے۔ آغاز میں جو شدت تھی اب وہ باقی نہیں رہی۔

جہاں ان دونوں مسائل پر قابو پایا گیا وہاں افغانستان کی تزئین وآرائش کی جانب توجہ اب ممکن ہورہی ہے۔ دارالامان محل کی جدید طرز تعمیر اس کی زندہ مثال ہے۔ دار الامان محل پرامن اور جدید افغانستان کی نمائندگی کے لیے تیار ہوچکا ہے۔ 1920 کی دہائی میں ایک جرمن ڈیزائنر نے امیر امان اللہ خان سے اس کے ڈیزائن کی توثیق کی اور یوں 1919 میں برطانوی اثر سے آزادی پانے والے افغانستان نے یاد گار کے طور پر اس محل کو کھڑا کیا۔

افغانستان پر سالوں مسلط بیرونی طاقتوں اور اندرونی خانہ جنگیوں نے وقت کے ساتھ اس کی صورت مسخ کردی۔ 2016 میں اشرف غنی حکومت نے اس کو از سرِ نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور آزادی افغانستان کی سو سالہ یاد میں 2019 میں اس کا افتتاح کرنا چاہا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

یہ محل اب اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ از سرِ نو تعمیر ہوچکا ہے اور افغان امن کی بازیابی و باریابی کا منظر پیش کر رہا ہے۔