ہوم << بھارتی نصاب سے مغلوں کا صفایا- شاکر اللّٰہ خٹک

بھارتی نصاب سے مغلوں کا صفایا- شاکر اللّٰہ خٹک

انڈیا کےقومی ادارہ برائے تعلیمی تحقیق اور ٹریننگ(NCERT) نے 2024-2023 کے نصاب میں مغلوں کے مطالعے کو بہت کم کر دیا ہے۔ ساتویں کے نصاب میں اور بارہویں کے نصاب میں باقی ہے، جبکہ آٹھویں میں بہت کم کر دیا ہے، اور نویں سے گیارھویں تک مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ جس سے انڈیا میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

آٹھویں کی کتاب میں مُغلوں کو چھوڑ کر اٹھارہویں صدی میں برصغیر پر انگریزوں کےقبضے کا ذکر ہے۔
نویں اور دسویں میں فرانس اور روس کے انقلاب، نازی ازم اور دنیا کی دیگر تاریخ کا ذکر ہے۔ دسویں کی کتاب میں قوم پرستی، ہندوستان میں پرنٹنگ کے پھیلاؤ اور صنعتی انقلاب کو موضوع بنایا گیا ہے۔
گیارہویں کی کتاب ''دنیا کی تاریخ'' کے نام سے ہے، جو یونانی دور، رومی اور مصری تہذیب، منگولوں اور چنگیز خان کے عروج کے بارے میں ہے۔
بارہویں کی کتاب میں صرف ایک باب ''9 بادشاہ اور تاریخ '' کے نام سے رہنے دیا گیا ہے، جو جلال الدین اکبر کے لینڈ ریونیو سسٹم اور زمینوں کی تقسیم کے بارے میں ہے۔ تاہم سولہویں اور سترہویں صدی کو مکمل طور ہٹا دیا ہے۔
NCERTنے منتخب موضوعات کو ہٹانے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ موضوعات کئی سال تک مسلسل نصاب میں شامل رہے ہیں ۔ دہلی یونی ورسٹی کے بی اے آنرز کے ترمیم شدہ نصاب ۲۰۱۹-۲۰۲۰ کے چوتھے سمسٹر سے "اکبر کے دور میں مغلوں کا استحکام" نامی باب کو نکال دیا گیا ہے۔اس میں شہنشاہ اکبر کے معرکے، فتوحات، ادارہ جاتی نظام کا ارتقاء، بغاوتیں اور مزاحمتی تحاریک شامل تھیں ۔اس کی بجائے نصاب کے متن کو ملا جلا کر ''سیاسی اتھارٹی کا قیام: مغل اور راجپوت" کا نام دیا گیا ہے۔جس میں سولہویں صدی کی سیاسی تشکیل، حالات، معرکے اور فتوحات ،فوجی چالیں، ابولفضل کی مداخلت اور راجپوتوں اور دیگر جنگجو گروہوں کو شامل کیا گیا ہے۔

ٹائم میگزین کے مطابق نہ صرف مغل بلکہ ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات اور ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے گاندھی کے قتل کو بھی نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔
NCERT کے ڈائریکٹر دینش پرساد سکلانی نے یہ توجیہ پیش کی کہ کرونا کے بعد بچوں کے تعلیمی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ۔ان موضوعات کو ہٹانے سے بچوں کے تعلیم پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ حیرت کی بات ہے کہ مغلوں کا مطالعہ تو بچوں کے لیے بوجھ ہے لیکن روسی اور فرانسیسی انقلاب کا مطالعہ ضروری ہے۔
اس اقدام کے بعد بی۔ جے ۔پی پر تنقید ہو رہی ہے۔

ادیتیا مکھرجی جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پچھلے چار عشروں سے ہندوستانی تاریخ پڑھا رہے ہیں، کہتے ہیں: ''اس سب کا تعلق ان کی سیاست سے ہے۔'' بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے NCERT کی کمزور وضاحت پر تنقید کی اور اداریے میں لکھا کہ، حکومت ناقابلِ
تردید حقائق سے جان چھرانا چاہتی ہے۔
تاریخ دانوں کے مطابق ان ترمیم شدہ کتابوں کا بچوں پر منفی اثر پڑے گا۔
راٹجر یونی ورسٹی (Rutgers) میں جنوبی ایشیائی تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آڈرے ٹرشکے کے بقول: "مغلوں کے بغیر آپ جدید انڈیا کو نہیں سمجھ سکتے۔ بھارتی حکومت کا رویہ ایک بیمار اور شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے۔ نصابی کتب سے مغلوں کو نکال کر وہ مغلوں کو انڈیا کی تاریخ سے نہیں مٹا سکتے۔''
بی ۔جے۔پی اور دائیں بازو کی ہندو انتہا پسند جماعتوں نے ۷۰ کی دہائی میں اور آوائل ۲۰۰۰ء میں ایسی کوششیں کی تھیں لیکن تاریخ دانوں کے احتجاج کی وجہ سے وہ ناکام ہو گئیں ۔ ۲۰۰۰ء میں آر ایس ایس نے NCERT پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات پر مظالم کے ساتھ ساتھ نتھو رام گوڈسے کو بھی تاریخ کی کتابوں سے ہٹا دیں ۔آج نتھو رام گوڈسے کا تذکرہ موجود ہے لیکن ان کے آر ایس ایس سے تعلق کے بارے میں نصاب خاموش ہے۔
مغلوں سے بی جے پی کی نفرت بہت پرانی ہے،۱۹۹۲ ء میں بابری مسجد کی شہادت اس کی ایک مثال نہیں ہے ۔۲۰۲۰ء میں اتر پردیش کی یوگی حکومت نے سیاحتی مقامات کے لیے جو گائیڈ بک جاری کی تھی اس میں تاج محل کا نام شامل نہیں تھا۔

۲۰۱۴ء میں مودی نے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندوستان کو ہندو ریاست تسلیم کرنے اور مختلف شہروں کے نام جو مغلوں کے دور میں رکھے گئے تھے انہیں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اتر پردیش میں الہ آباد کو پریاگ راج، فیض آباد کو ایودھیا اور مغل سرائے کو دین دیال اپادھیائے نگر کر دیا گیا ۔ علی گڑھ ، فیروزآباد اور غازی پور کے نام تبدیل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔