ان دنوں ملک میں مہنگائی عروج پر ہے ، روز مرہ استعمال کی اشیاء ، خوراک، ایندھن عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ ملک بھر کے عوام آٹے کے لیے اور سیاسی جماعتیں اقتدار کے لیے لائن میں لگی ہیں۔
چاروں طرف مایوسی اور بے چینی کی فضا ہے ، اور حالات بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خطرناک ہوسکتی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام ری شیڈول ہونے کی صورت میں مزید مہنگائی کا طوفان آسکتا ہے۔ بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مہنگائی میں گھرے عوام سوال کررہے ہیں کہ آخر انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے ،اور حکومت مسائل کے حل کے لیے اقدامات کررہی ہے ۔
انہوں نے حسب معمول سابق حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی ہے ۔ ان دنوں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سنگین سیاسی کشمکش اور بیان بازی جاری ہے ، لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا ہے ۔ ملک کے دیوالیہ ہوجانے کی باتیں ہورہی ہیں، جس کے بارے میں وزیراعظم، وزیر خزانہ اور ان کے ہم خیال مسلسل تردید کررہے ہیں، اور قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم ملک کو معاشی بحران سے نکال لیں گے ، حزب اختلاف کا دعویٰ یہ ہے کہ معاشی حالات کی خرابی میں تیزی موجودہ حکومت کے8 ماہ میں آئی ہے ، جب کہ حکومت کا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی چار سالہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوسکا اور ہمیں سخت شرائط ماننی پڑ رہی ہیں۔
اس بیان بازی سے پاکستان کا حکمران طبقہ قومی تباہی کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتا۔ معاشی بحران کی وجہ سے قومی سلامتی کے خطرے کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ صورت حال ایک دن میں نہیں ہوئی ہے لیکن گزشتہ 20 برسوں میں تیزی آئی ہے ، اس کی وجوہ میں امریکی وار آن ٹیرر کے دوران میں جتنے اقتصادی معاہدے ہوئے ہیں اس میں پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ آئی ایم ایف ایسی شرائط عائد کرتا رہا جس سے پاکستان اقتصادی طور پر کمزور ہوتا رہا۔
آئی ایم ایف سے مذاکراتی ٹیم سیاسی ہویاتکنیکی کسی نے بھی اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ مستقبل میں آنے والے خطرات سے کس طرح بچا جائے گا۔معاشی و اقتصادی تباہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ طویل مدت سے پاکستان کی وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے اہم ترین منصب پر ایسے پاکستانیوں کو مقرر کیا گیا جن کی نشاندہی عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے کی، آج معاشی تباہی کے حوالے سے جو مسائل ہیں جن میں ڈالر کی قیمت میں ناقابل تصور اضافہ اور توانائی کے مہنگے منصوبے انہی معاہدوں کا شاخسانہ ہیں۔ گردشی قرضے کا عنوان تو ان ہی معاہدوں کی دین ہے جس کے تحت بجلی کی پیداوار ناجائز منافع کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کردی گئی، جنہوں نے قوم کو خدمات فراہم کرنے کے بجائے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ملک اقتصادی طور پر تباہ ہوتا رہا اور ملک کی مقتدر اشرافیہ حکومتوں سے زیادہ دولت مند ہوتی رہی۔ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے خلاف بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی جو تفصیلات ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں ان کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پہلے قوم کے سامنے یہ سوال تھا کہ ملک کو قرضوں کی زنجیر سے کیسے آزاد کیا جائے ۔ اب یہ سوال قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کا پروگرام کیسے بحال کیا جائے گا۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ایک دوسرے پر الزام عائد کررہے ہیں کہ اس نے آئی ایم ایف کے حکم کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کررہا ہے اور عالمی اقتصادی بحران اور سیلاب کی قدرتی آفت، کورونا وبا کے اثرات کے باوجود بھی کسی رحم کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ اس بہانے سے وہ جواز پیدا کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط تو تسلیم کرنا ضروری ہے ۔
تا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی کوئی مزاحمت نہ کی جائے ، معاشی مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار مزید سخت حالات سے خبردار کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں کی جارہی ہیں جو ایسے ماہرین پر مشتمل ہو جو عوام سے نمائشی ہمدردی بھی نہ رکھتے ہوں اور پاکستان کے شہریوں پر مہنگائی، افلاس اور بے روزگاری کے کوڑے برساسکیں۔ بلاشبہ اگر ہماری حکومت، مقتدر ادارے ، سیاسی شخصیات خلوص نیت سے ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں سادگی، صداقت، امانت اور دیانت کا پاس رکھتے ہوئے محنت، جدوجہد اور کوشش کریںتو اس بحران پر قابو پانا کوئی مشکل نہیں۔
جو ممالک ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ہیں، ان کی حکومت اور قوم نے اپنا مقصد، نصب العین اور رخ ایک متعین کرکے محنت اور کوشش کی، تو وہ منزل مقصود اور مراد تک پہنچ سکے ، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب ملکی ترقی کے لیے یہ کام کریں۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل بیٹھ کر ’’میثاقِ معیشت‘‘ ترتیب دیں، اور یقینی بنائیں کہ کسی بھی پارٹی کی حکومت آجائے میثاق معیشت پر کام جاری رہے گا۔
تبصرہ لکھیے