ہوم << آزادی صحافت کا سراب - کاشف نصیر

آزادی صحافت کا سراب - کاشف نصیر

کاشف نصیر آزادی صحافت گو ایک خوبصورت عنوان ہے لیکن درحقیقت اسے مختلف صحافتی اداروں کے مالکان اور ذہن ساز قوتیں بوقت ضرورت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کچھ مولوی مذہب کا نام لے کر، کچھ وکلاء قانون کی بالادستی کا علم بلند کرکے، کچھ مقامی رہنما عصبیت کی آگ بڑھا کر، کچھ سیاسی قائدین جمہوریت کا راگ الاپ کر اور کچھ فوجی سالار حب الوطنی کا شوشہ چھوڑ کر دراصل اپنے ذاتی، سیاسی، گروہی یا کاروباری مقاصد کےلیے قوم اور قومی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔
اصل صورتحال یہ ہے کہ بول کو بولنے سے پہلے خاموش کروانا ہو تو یہ تمام مالکان یکجا ہوکر ایوان وزیراعظم اور دوسرے مظبوط اداروں میں ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ایک گروپ پلاٹ بناتا ہے، دوسرا اس پر عمارت کھڑی کرتا ہے اور تیسرا اس کو خوب سجاتا سنوراتا ہے۔ لیکن جب بول کا سفینہ سمندر برد ہوتا ہے تو ہم ان حلیفوں کو ایک بار پھر حریف بن کر باہم دست و گریبان ہوتے دیکھتے ہیں۔ جیو کو بند کروانا ہو تو اے آر وائی ایک بے ضرر قوالی کو توہین مذہب کانام دیتا ہے اور جب اے آر وائی کی باری آتی ہے تو جیو اسی جذبہ بے مثل سے سرشار نظر آتا ہے۔ غرض کون سا میڈیا گروپ ہے جو اس کشمکش سے لاتعلق ہو۔ صرف مالکان ہی نہیں بلکہ ان کی جی حضوری میں شب و روز ایک کرتا سرکردہ صحافیوں کا ایک بڑا طبقہ بھی اس سوداگری میں برابر کا حصہ دار ہے۔
ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے لیے بےقرار ان میڈیا گروپس کی داخلی حالت چند استثنائیات کے سوا تقریبا مشترک ہی ہے۔ جونیئر رپورٹرز، جونئیر پروڈیوسرز اور سب ایڈیٹرز کی تنخواہیں دوسرے تجارتی اداروں کے مقابلے میں کلرکوں کے مساوی ہیں۔ پھر ان میں سالہا سال سے کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا۔ ٹائپسٹ، ڈیزائنرز، کیمرہ مین ، ڈرائیورز اور ٹیکنیشن ہوں یا ایڈمن، فنانس اور سپلائی چین کے غیرصحافتی ملازمین ، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مستقل ملازمین کو مسلسل کانٹریکٹ پر لایا جا رہا ہے، نوکریاں غیر محفوظ ہیں۔ کئی گروپ مہینوں تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرتے۔ ویج بورڈ ایوارڈ کا معاملہ آئے تو بڑے سے بڑا صحافتی ادارہ ہو یا ملین میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکردہ اینکر، ہر ایک خاموش نظر آتا ہے۔ بلوچستان، کراچی اور لاپتہ افراد کے حقوق کی جنگ لڑنے، سیاسی جماعتوں کو لتاڑنے، عالمی قوتوں پر گرجنے اور جی ایچ کیو کو چیلنج کرنے والے جید ترین صحافی بھی مالکان کے روبرو بےبسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔
اس شدید گھٹن کے ماحول میں کام کی جگہ لابنگ، میرٹ کی جگہ سفارش، دیانت کی جگہ فریب اور تخلیقی عمل کی جگہ تخریبی سرگرمیاں مقبول ہیں۔ صحافت کسی تعلیمی قابلیت سے مشروط نہ ہونے کے سبب پہلے ہی ایک عجیب و غریب پیشہ بن چکا ہے، جو رہی سہی کسر تھی اسے رینٹنگ کی ڈور نے پورا کردیا ہے۔ مالکان کی طرف ٹی آر پی کا دبائو بذات خود آزادی صحافت اور معیار صحافت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک نجی چینل کے پروڈیوسر نے دو مزدوروں کو اجرت کے عوض چند آوارہ کتے ذبح کرکے فروخت کرنے کا ڈرامہ فلمایا اور پھر اس ڈرامے کو بریکنگ نیوز بناکر ریٹنگ کی دولت سے مستفید ہوئے۔ میں بھوجا ائیرلائن کے حادثے کے بعد ایک افسوسناک مطالبے کا عینی گواہ ہوں۔ ایک بڑے گروپ کا پروڈیوسر اپنے رپورٹر کو فوری طور پر ائیرپورٹ پہنچنے او ر ایک ایسا پیکج تیار کرنے کا حکم دے رہا تھا جس میں کوئی جواں سال خاتون دھاڑیں مار کر آہ و فغاں کر رہی ہوں۔
مالکان کےآجرانہ مفاد اور جبر ہی نہیں، ذہن ساز قوتوں کی خاموش یلغار بھی اپنے نکتہ عروج پر ہے۔ ہر ادارے کی طرف نظر ڈورائیں، ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری نظر آئے گی۔ نئے ملازمین کے انٹرویوز میں اسکریننگ اور موجودہ ملازمین کی منظم ترقی کے ذریعے اس نظام کو دوام بخشا جاتا ہے۔ ادارت کا حال یہ ہے کہ خبر سے لے کر رپورٹ اور کالم سے لے کر ٹاک شوز میں سینسر کی داخلی قینچی بےدردی سے بروئے کار آتی ہے۔ پیشہ ورانہ دیانت سے بنائےگئے بےشمار پیکج بغیر کسی وجہ کے روک لیے جاتے ہیں اور کئی پراجیکٹ پر کام کرنے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ اس سینسرشپ میں ادارتی ذمہ داری اور ریاستی قوانین کا نہیں، ذہن ساز قوتوں کی پالیسی کا طوطی بولتا ہے۔ بہترین اخبار نویس اور پروڈیوسر وہ ہے جو اس تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بڑی خبر کو عام اور عام خبر کو عامتہ الناس کے حواس پر طاری کرنا جانتا ہو، جسے ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا کر لانچ کرنا آتا ہو اور جو منفی پروپیگنڈے کے تما م اسرار و رموز سے واقف ہو۔
جدید دنیا میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ اس دعوے کی بنیاد پر جس طرح جمہوریت کو سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت سے مشروط کیا جاتا ہے، اسی طرح آزادی صحافت کا عنوان بھی صحافتی اداروں میں پیشہ ورانہ داخلی آزادی سے منسلک ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بالعموم اور تیسری دنیا کے ممالک میں بالخصوص صحافت تیزی سے ریاستی اداروں کی گرفت سے نکل کر مالکان اور ذہن ساز قوتوں کے چنگل میں پھنستی جا رہی ہے۔ صحافت کا یہ ارتقائی سفر دراصل ایک ایسے سراب پر آ کر روک گیا ہے جہاں صحافت ایک ان دیکھی قوت کی تابعدار ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ کچھ لوگ اس سراب سے نکل کر مالکان اور ذہن ساز قوتوں کے ہاتھ روکیں تاکہ صحافت حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکے۔

Comments

Click here to post a comment