موجودہ انگلینڈ بمقابلہ پاکستان کرکٹ ٹیسٹ سیریز نے پاکستانی کرکٹ ٹیم، اس کی قیادت، سلیکشن کمیٹی اور خود پی سی بی کے متعلق بہت سے سوالات بھی اٹھائے ہیں اور بہت سارے معاملات میں فوری سنجیدگی کی ضرورت بھی محسوس کی ہے۔
اگر کرکٹ کی جانب بھی صرف سرسری اندازِ فکر اختیار کیا گیا تو ممکن ہے کہ اس تباہ حالی پر ہاکی کا کھیل بھی اپنی بے بسیانہ ہنسی نہ دبا سکے۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا بھر کے مبصرین کا ہاکی کے بارے میں یہ تبصرہ سامنے آیا کرتا تھا کہ " پاکستان کی ہاکی کی ٹیم کو اگر دنیا کی کوئی ٹیم میدان میں شکست دے سکتی ہے تو وہ پاکستان ہی کی ٹیم ہو سکتی ہے۔ عالم یہ تھا کہ اگر کی مقابلے میں ہاکی ٹیم بہت معمولی فرق کے ساتھ کامیابی حاصل کیا کرتی تھی تو پاکستان کے ہاکی کے شائقین خوشی کی بجائے آنسو بہانے لگتے تھے کیونکہ 80 فیصد مقابلے نہ صرف یک طرفہ بن جایا کرتے تھے بلکہ گول کے جواب میں پاکستانی ٹیم گولوں کی بارش برسا دیا کرتی تھی۔ سات آٹھ گول جیسے معمول کی کارروائی ہوا کرتی تھی اسی لئے کم مارجن والی جیت پاکستانیوں کیلئے خوشی کی بجائے تشویش کی لہر دوڑا دیا کرتی تھی۔ اتنے عروج کے بعد بہت تیز رفتاری کے ساتھ دنیا نے شاید ہی کسی ٹیم کا زوال دیکھا ہوگا۔
ہاکی کی یہ تباہی آہستگی کے ساتھ نہیں ہوئی بلکہ بالکل اس انداز میں ہوئی جیسے کوئی پہاڑ کی چوٹی سر کرتے ہی دھڑام کی زور دار آواز کے ساتھ پہاڑ کے دامن میں آ گرے۔ پہاڑ جیسی بلندی سے گر جانے کے بعد جیسے کوئی بھی انسان بمشکل زندہ رہ پاتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان کی ہاکی ٹیم بھی بلندی سے یک دم گر جانے کے بعد آج تک اٹھ کر چلنے پھرنے سے بھی معذور دکھائی دیتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر زوال کے بعد ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ہاکی ٹیم دنیا کی صف اول کی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں کیوں ناکام ہے۔ رہی یہ بات کہ پاکستان میں ہاکی کا ٹیلنٹ کم ہے تو میں کم از کم اس بات کی سخت مخالفت اس لئے کرونگا کہ ایک وہ زمانہ بھی تھا جب میونخ کے اولمپک میچ میں بد نظمی کے بعد پاکستان کی پوری کی پوری ٹیم پر تا حیات پابندی لگا دی گئی تھی تو پاکستان کی ہاکی ٹیم کو از سرِ نو بنایا گیا تھا۔
اس ٹیم نے اپنے پہلے ہی بڑے ٹورنامنٹ میں دنیا کی آنکھیں اس وقت حیرت سے کھول کر رکھ دیں تھیں جب پاکستان نئی ٹیم ہونے کے باوجود اپنے پول کی ناقابلِ شکست ٹیم کے طور پر ابھرا تھا۔ پھر یہی وہ ٹیم تھی جس نے ہاکی کے سارے ٹائیٹل اپنے نام کر کے ایسا ریکارڈ بنایا جو آج تک دنیا کی کوئی دوسری ٹیم نہ بنا سکی۔ یہ بات اس بات کی جانب واضح اشارہ تھا اور ہے کہ پاکستان میں ہاکی کا کتنا ٹیلنٹ پایا جاتا تھا اور پایا جاتا ہے۔ بات صرف "میرٹ" پر انتخاب کی ہے جس کو نظر انداز کرنے کے نتائج مسلسل سامنے آنے کے باوجود اس سے اجتناب اختیار کرنے کی جانب کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔
اگر عدم توجہی کی وجہ سے ہاکی کا عروج زوال میں تبدیل ہو سکتا ہے تو پھر کرکٹ یا کوئی بھی کھیل پاکستان میں کیسے عروج پاسکتا ہے۔ موجودہ ٹسٹ سیریز اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سلیکشن کے وقت اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا جاتا کہ کس کھلاڑی میں کتنی کرکٹ اور کس ٹائپ کی کرکٹ پائی جاتی ہے اور کس کو کپتان بنانے کی صورت میں کرکٹ ٹیم کو زیادہ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اچھا کھلاڑی ہی اچھا سالار ہو سکتا ہے۔ اس لئے جو کھلاڑی بھی بالنگ یا بیٹنگ میں نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اسی کے سر پر کرکٹ کا بالِ ہما لہرا دیا جاتا ہے۔ کپتان بنانے کی صورت میں موجودہ ٹیم میں کم از کم یہی بات زیادہ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بابر اعظم ہوں یا محمد رضوان، بے شک دونوں ہی کر کٹ کے میدان کے اسٹار ہیں اور اچھے کھلاڑی ہونے کے ناطے ان کی انفرادی کارکردگی پر کوئی حرف زنی نہیں کر سکتا لیکن کیا یہ دونوں اچھے کپتان بھی ثابت ہوئے، اس بات پر تو بہر حال غور کیا ہی جا سکتا ہے۔
موجودہ انگلینڈ پاکستان سیریز میں بابر اعظم کی انفرادی حیثیت سے کار کردگی خراب نہیں رہی لیکن کپتان کی حیثیت سے وہ کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیتے نظر نہیں آئے۔ جہاں تک سلیکشن کمیٹی کا تعلق ہے تو اس نے ابرار احمد کو نہ جانے کیسے غلطی سے سلیکٹ کر لیا اور ایک وہی واحد سلیکشن تھا جس نے ثابت کیا کہ اگر کھلاڑیوں کو ان کی کار کردگی کی بنیاد پر چنا جائے تو پاکستان میں کرکٹ ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔
کسی بھی ٹیم کے بالرز یہی کر سکتے ہیں کہ دنیا کی مضبوط سے مضبوط ٹیم کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ زیادہ رنز نہ بنا سکے۔ یہ کار نامہ بالرز تو نہیں لیکن "بالر" یعنی ابرار احمد نے کر دکھایا۔ کم از کم اس دورے کی چار اننگز ضرور ایسی ہیں جس میں انگلینڈ مسلسل بڑا اسکور کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ گویا آخر کے دو میچوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ صرف اور صرف بیٹروں کی ناقص کر کردگی کے وجہ سے ہارے گئے۔ دونوں مرتبہ اگر پاکستان کے نامی گرامی بیٹرز انگلش ٹیم کے کم اسکورز کے مقابلے میں اچھا اسکور کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو آخر کے دومیچ بآسانی پاکستان کی چھولی میں آ سکتے تھے۔ پہلے میچ کا حوالہ میں یوں نہیں دے رہا کہ وہ تو کھیلا ہی موٹر وے پر گیا تھا لہٰذا اس کا اصولاً کوئی نتیجہ نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اگر اس پر پاکستان کی جانب سے بہتر بیٹنگ دکھائی گئی تو یہ بہت بڑا کارنامہ نہیں تھا البتہ ایسی پلین وکٹ پر پاکستان کا ہارجانا نہایت افسوس ناک ضرور ہے۔
پی سی بی پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں کہ وہ وکٹیں بنانے سے لیکر کھلاڑیوں اور کیپٹن شپ تک کے معاملات پر غور کیوں نہیں کرتا۔ کوچز پر نظر رکھنا، سلیکشن کے وقت کھلاڑیوں کو میرٹ پر منتخب کرنا، وکٹیں بنانے کے وقت اپنی اور مخالف ٹیم کی صلاحیتوں کا خیال رکھنا اور ہر قسم کی ٹیم کیلئے الگ الگ کھلاڑیوں اور کپتانوں کا درست انتخاب کرنا جیسے معاملات آخر کس کا کام ہوتا ہے۔ جب تک سارے شعبوں پر مکمل نظر نہیں رکھی جائے گی، کوئی بھی کھیل اس وقت تک فروغ نہیں پا سکے گا۔
جس ٹیم کا اوسط ہی 300 رنز سے زیادہ دکھائی نہ دیا ہو اور اتنے ہی رنز کے سامنے چار چار اننگز میں ٹیم ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہو جاتی ہو، اس پر بھی پاکستان میں کبھی کپتان اور کبھی وکٹ کیپر کیلئے رات دن تعریفوں کے پل پر پل باندھے جاتے ہوں وہاں یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بورڈ ہو، کھلاڑی ہوں یا سلیکشن کمیٹیاں، سب کے سب کرکٹ کے کھیل کی بجائے کوئی اور ہی کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں.
لہٰذا ضروری ہے حکومت وقت کسی بھی مصلحت پسندی کا شکار ہوئے بغیر کرکٹ سے تعلق رکھنے والے ہر شعبے پر کڑی نظر رکھے اور کسی کو بھی کرکٹ کے کھیل میں کوئی دوسرا کھیل کھیلنے کی بالکل اجازت نہ دے کیونکہ کرکٹ کے نام پر کوئی اور کھیل کھیلنا ملک کی عزت و آبرو سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
تبصرہ لکھیے