2010 کے دسمبر کی ابتدائی تاریخوں میں سے کوئی تاریخ تھی جب میں الجزیرہ کے ہیٹ آفس میں پاکستان بیورو کی طرف سے ایک کورس کے لئے دوحہ، قطر میں تھی۔ سہہ پہر کے بعد جب روزمرہ کے معاملات نمٹ جاتے تو ساری شام اور رات بس دوحہ کا چھوٹا سا، پر سکون سا شہر ہوتا تھا اور پیروں میں صدا کے چکر لئے میں
سوق واقف ( دوحہ کا قدیم ترین روایتی بازار) سے پیدل کبھی کسی سڑک نکل جاتی اور کبھی ساحل کے پاس شام گزار دیتی۔ وہ خوبصورت دن تھے، مگر ایک شام میں تاریخ کا حصہ بنی کہ اس دن قطر فیفا ورلڈ کپ میزبانی ۲۰۲۲ بڈ جیت گیا۔ اس شام جیسے دوحہ کے سارے شہری پاگلوں کی طرح سڑکوں پہ باہر آگئے۔ کچھ لمحوں کے لئے تو لگا کہ پاکستان میں جشن آزادی کی رات ہے۔ قطری گاڑیوں کی چھتوں پہ ہر طرح کے باجے لئے خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ لوگ جگہ جگہ ٹولیوں میں روایتی رقص کر رہے تھے۔ ایک گروپ کے ساتھ میں نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا اور میرے اندر کی پنچابی نے بھنگڑے کو عربی رنگ دے کر خود کو بھی حیران کر دیا۔ وہ شام جب میں اپنے ہوسٹل واپس جا رہی تھی تو احساس ہوا کہ میں نے اپنے بچپن میں امی کو فٹ بال دیکھتے دیکھا ہے۔ جیسی وہ شیر کی بچی ہیں ان کو لگتا ہے اصل کھیل صرف ایک ہے اور وہ فٹ بال ہے۔۔۔باقی سب۔۔۔آہو
کسی بھی کھیل کے ورلڈ کپ عموماً خصوصی دلچسپی کا باعث بن جاتے ہیں۔ کرکٹ کو قومی جذبہ سے سرشار ہوکر دیکھا تو کھیل کے مقابلے سے زیادہ کوئی جنگ لگی اور پھر پاکستان جب انڈیا سے موہالی یا چنائی میں ہارا تو دل ایسا ٹوٹا کہ کرکٹ سے دلچسپی کم ہو گئی۔ فٹ بال کو کھیل کی طرح دیکھا اور مجھے فٹ بال سب سے اچھا کھیل لگتا ہے۔ سیزن شروع ہونے کے بعد کس کلب کا کون سا کھلاڑی کیسا جا رہا ہے کی خبر رکھی۔ بارسلونا کو میسی کے لئے سپورٹ کیا اور رونالڈو کے لئے مانچسڑ یونٹڈ (Man Utd) کو ۔ میں اس ورلڈ کپ میں جرمنی کو سپورٹ نہیں کر رہی تھی کہ اس دفعہ خواہش تھی کہ سنتیس سال کا رونالڈو اور پینتیس سال کے میسی، جن کا یقینی طور پہ یہ آخری ورلڈ کپ ہوگا، کے ملکوں کی ٹیموں میں سے کوئی ایک ورلڈ کپ اُٹھا لے۔ جب بھی G.O.A.T یعنی سب سے عظیم (کھلاڑی ) کون ہے تو پیلے اور میرا ڈونا کے پرستار ان کی عظمت کی دلیل میں سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ان دونوں نے اپنے اپنے ملکوں کے لئے ورلڈ کپ اُٹھایا۔ جہان پیلے اور میراڈونا میں سے بہتر کون کی بحث کا رخ میسی اور رونالڈو کی طرف ہوا، اس ورلڈ کپ میں پرانے بادشاہوں میں بہتر کون کی بحث کے ساتھ ساتھ نئے شہنشاہ ( امباپے) کا ابھرنا اس بحث کو ایک نئے رخ بھی دے گیا۔
بدقسمتی سے ٹورنامنٹ کے آغاز سے پہلے نام نہاد باخبر یا پولٹیکل correct اور صنفی سیاست کے نام پہ مغربی میڈیا ایک دم اخلاقیات کی پولیس بن گئی۔ قوس قزح کے رنگوں والے آرم بینڈز پہنے یہ کسی بھی کھلاڑی، کوچ اور کھیل کے پنڈتوں سے سوال اٹھانے کے لئے ان کے منہ میں مائیکروفون ٹھونستے اور ان سے ان کے منافقانہ رویہ کہ میزبان ملک کے قوانین آپ کی ملک سے متابعت نہیں رکھتے مگر پھر بھی اس میں شرکت کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے رہے۔
شکر ہے میچوں کے پہلے راؤنڈ کے بعد ہی اس بحث کا تقریباً اختتام ہو گیا اگرچہ یہ ورلڈ کپ کے sporting spirit کو بہت نقصان پہنچا سکتی تھی کہ انسانی حقوق اور مختلف ممالک کے قوانین کے صحیح اور درست ہونے کا فیصلہ فٹ بال کی پچ پہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ کرنا چاہئیے ۔ یہ ایک پھسلن والی ڈھلوان ہے جہان آپ اگر آپ ایک ملک کی اخلاقیات پہ سوال اُٹھاتے ہیں تو آپ ہر میزان ملک کی اخلاقیات پہ سوال اُٹھائیں، مثلاً اگلا ورلڈ کپ امریکہ کی میزبانی میں ہے، جو دوسرے ممالک پہ بلاوجہ جنگ مسلط کرنے، ان کو دہشت کا نشانہ بنانے اور خلاف آئین تسلط کا چپمئین ہے۔ یا اس سے پہلے روس کی میزبانی میں ہوا ورلڈ کپ، کو بے شمار پرا کسی وارز میں ہر وقت مصروف رہتا ہے، جو ابھی بھی یوکرائن پہ بمباری کر رہا ہے۔ ایسی مثالیں سب میزبان ملک پہ لاگو ہوتی ہیں مگر اس تحریر کا موضوع یہ ہے ہی نہیں۔
ایسا نہیں ہوا کہ قوس قزخ کے رنگ ہار گئے مگر پہلے مرحلے میں ہی 41 گول اور فٹبال کی تاریخ کا نیا اصول کہ “کسی کھلاڑی کا وقت ضائع کرنا، کھیل پہ اثر انداز نہیں ہوگا، یعنی ہر میچ میں نو دس منٹ کا اضافی وقت کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ جس نے تماشائیوں کو “قوس قزح” کے ان مخصوص رنگوں سے بالاتر فٹ بال کے کھیل کے حقیقی رنگ بھی نظر آنے لگے اور ابتدائی بد مزگی فطری موت مرتی گئی۔
رونالڈر اور میسی نے اپنے پہلے ہی میچ میں وہ گول کر لئے جن کی ان سے توقع تھی مگر سعودی کی آرجٹینا کے خلاف فتح نے سوالات اٹھا دئیے کہ کیا میسی ورلڈ کپ اٹھانے کے دوسرے مرحلے تک بھی پہنچے گا یا نہیں؟ خوش قسمتی سے میسی (آرجٹینا) اپنے گروپ میں سرِ فہرست رہا اور Goat کون ہے کی بحث بھی جاری رہی۔ پہلے مرحلے کا بڑا جھٹکا جرمنی اور بیلجیئم کی گولڈن جنریش کہلانے والی ٹیم کا مقابلے سے باہر ہو جانا رہا۔ البتہ فرانس، انگلینڈ اور برازیل ابھی بھی favourites ہی تھے۔
جیسے ہی مقابلے ناک آوٹ مرحلے میں داخل ہوئے، انگلینڈ کا سینیگال کو انتہائی آسانی سے ہرا دینے نے انگلش شائقین کو شوخا کر دیا۔ it’s coming home, ہر گھر اور دیوار پہ نظر آنے لگا۔
دوسری طرف مراکش نے نہ صرف سپین کو ہرایا بلکہ پرتگال کو بھی ورلڈ کپ سے باہر نکال کیا۔ جس کا مطلب تھا کہ GOAT کی بحث میسی کی طرف بلا شرکتِ غیرے پلٹ گئی۔
مراکش نے نہ صرف فٹ بال کے شائقین کے دل جیتے بلکہ پہلی افریقن اور مسلم ٹیم بن گئی جو سیمی فائنل تک پہنچ گئی۔
رونالڈر کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اس کو ٹنل میں آنسوؤں کے ساتھ چلتا ہوا دیکھنا ایک تکلیف دہ منظر تھا مگر جب آپ بلندی پہ پہنچ جاتے ہیں تو واپسی کا رستہ نیچے کی طرف ہی جاتا ہے۔ البتہ پرتگال کے لئے ورلڈ کپ نہ جیت سکنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رونالڈر تاریخ کے بہترین کھلاڑیوں میں سے نہیں ہے۔ وہ اب بھی پہلے دو یا تین میں ہی ہے اور رہے گا۔
انگلینڈ اور فرانس کے کوارٹر فائنل میں، انگلینڈ کے ایک شہر کے شیشہ بار میں بیٹھی میں واحد تھی جو فرانس کے لئے نعرے لگا رہی تھی۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کے خوف، غصے اور بیزاری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں فرانس کی 2-1 سے جیت پہ خوش تھی۔
کروشیا بمقابلہ برازیل اور ہالینڈ بمقابلہ ارجنٹائن کے نتائج جنوبی امریکہ کے روایتی حریفوں کو آمنے سامنے لا سکتا تھا۔ ارجنٹائن اور برازیل ویسے ہی حریف ہیں، جیسے پاکستان اور انڈیا کرکٹ میں ہوتے ہیں۔
اس ٹاکرا کا امکان کروشیا کے آخری منٹوں میں میچ برابر کر کے پنالٹی شوٹ آوٹ پہ جیت گئے۔ دوسرے طرف ارجنٹائن 2-1 کی برتری پہ مست کھیل رہا تھا کہ 111 منٹ پہ ایک انتہائی مہارت سے لگائی گئی فری کِک نے ارجنٹائن کے لئے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔ اس سے پہلے کہ ارجنٹائن کے سپورٹرز کے دل ٹوٹتے، میسی نے اپنی صلاحیتوں پہ سب سے زیادہ اعتبار کیا اور پنلٹی شوٹس پہ ارجنٹائن یہ میچ بھی جیت گیا۔
عظیم تر کون؟ GOAT کی بحث پھر سے ہر ایک کی زبان پر تھی۔ میسی نے اپنے مداحوں کو پھر سے مایوس نہیں کیا اور سیمی فائنل میں کروشیا کے خلاف اپنی غیر معمولی اور ناقابلِ یقین کھیل سے اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچا دیا۔ میسی کو کھیلتا دیکھنا۔۔۔was a treat.
دوسری طرف underdogs of foot ball یعنی مراکش کی ٹیم نے بہترین کھیل کا مظاہرہ تو مگر صرف شائقین کے دل جیت سکے اور فرانس جو کہ سابقہ/موجودہ چمپئن بھی تھے، فائنل میں پہنچ گئے۔
اور اس طرح ہم آج کی شام تک پہنچتے ہیں۔ پیرس سینٹ جرمن کلب کے ساتھی، دنیا کا بہترین کھلاڑی ( میسی ) جو اپنے عظیم الشان کیریئر کے اختتام پہ ہے اور دنیا کا بہترین اسٹرائیکر جو اپنے کیریئر کے ابتدا میں ہی ورلڈ کپ جیت چکا ہے۔۔۔آمنے سامنے ہیں۔ ایسا لگا کہ یہ میچ ارجنٹائن اور فرانس کے درمیان نہیں بلکہ میسی اور امباپے کے بیچ ہے، جن اپنے اپنے ملک کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ ایک پاکستانی جو انگلینڈ میں رہتی ہے، اور جس کو پتہ ہے کہ پاکستان کبھی فٹ بال کے فائنل میں نہیں پہنچے گا اور انگلینڈ پہلے ہی مقابلے سے نکل چکا ہے، میری ساری سپورٹ ارجنٹائن کے ساتھ تھی کیونکہ میں میسی کو ورلڈ کپ اُٹھاتے دیکھنا چائتی تھی۔ میسی کی پہلی پنالٹی اور ڈی ماریا کے دوسرے گول نے میرے اعصاب کو ریلکس کر دیا مگر صادف ( میرے اُن) نے کہا کہ امباپے کو جونہی موقع ملے گا وہ گول کرے گا۔ یہ کھیل کا 70 واں منٹ تھا۔ میری طنزیہ ہنسی اور صادف کا یقین آمنے سامنے تھے۔ کھیل کے نئے شہنشاہ نے صرف دس منٹ میں کھیل کا منظر ہی بدل دیا۔ یہ کیا ہو رہاہے؟ نئے بادشاہ کا آنا دیوار پہ لکھا نظر آرہا ہے مگر یہ آج نہیں ہونا چاہیے۔ آج کا فاتح میسی ہی ہو۔ میں stress سے الٹی کرتئ ہوں۔ اور صادف صورتِحال کو مزید مایوسی بناتے ہوئے، 2014 کا فائنل ( ارجنٹائن بمقابلہ جرمنی) کا حوالہ دیتا ہے ، جس میں ستائیس سالہ میسی اپنی جادوئی صلاحیتوں کی عروج پہ ہے مگر اس کی ٹیم نے اسے مایوس کیا۔ جرمنی ایک صفر سے جیت گیا تھا۔
کسی بھی ورلڈ کا سب سے تھرلنگ میچ برابر ہو جاتا ہے اور تماشائیوں کے اعصاب پہ اور تیس منٹ کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ آرجنٹائن کے پاس کچھ نہیں بچا؟ مگر 108 منٹ پہ میسی گول کرتا ہے اور صرف دو منٹ کے بعد امباپے انتہائی calmly پنلٹئ پہ تیسرا گول کرتا ہے جب میچ کے ختم ہونے میں دو منٹ رہتے تھے۔ میرے ناخن ختم ہو گئے ہیں اور میں ماس کو کترتے ہوئے خون کا ذائقہ محسوس کرتی ہوں۔
اب پینلٹی شوٹ ککس پہ بات آ گئی ہے۔ امباپے پہلا کھلاڑی ہے جو ورلڈ کپ کے فائنل میں ہیٹ ٹرک کر چکا ہے۔ اور ایک ایسے گول کیپر کو گول کر چکا ہے کو پنلٹئ روکنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
اب میسی کیپر کی آنکھوں میں دیکھتا ہے، اس کے حرکت کرنے کا انتظار کرتا ہے اور بال مخالف سمت میں پھینک دیتا ہے۔
مارٹیز اگلی پنلٹی روک لیتا ہے اور میں روکا ہوا سانس لیتی ہوں۔ ارجنٹائن گول کرتا ہے۔ فرانس پھر مس کرتا ہے۔ گونزالو مونٹیال نے آرام سے قدم بڑھایا اور آرجنٹائن ورلڈ کپ جیتا ہے۔ میسی ورلڈ کپ اُٹھائے گا۔ میں مضمحل ہوں۔۔۔ میں رو رہی ہوں۔۔۔
کیسا ناقابلِ یقین فائنل ہے۔۔۔
میں جانتی ہوں کہ بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ اس کا انجام ایسا نہ ہوتا مگر یہ میری زندگی کا بہترین ورلڈ کپ ہے۔۔۔جس نے GOAT کی بحث کو کچھ وقت کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔
The GOAT debate was the clear,
“ changing of the guard” from the old kings to the new one, Mbappe!
تبصرہ لکھیے