بچوں کے مرجھائے ہوئے چہرے دیکھے نہیں جاتے،باپ نے اپنے خاندان سمیت نہر میں کود کر جان دے دی یا دو گھروں میں ڈکیتی۔لاکھوں کا مال و زر لوٹ لیا گیا۔یہ اور اس طرح کی بے شمار خبریں روانہ کی بنیاد پر اخبارات کا حصہ بن رہی ہیں اور بد قسمتی سے بحثیت مجموعی ہم ان خبروں کو پڑھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
کوئی خاص رد عمل نظر نہیں آتا۔سفید پوش طبقہ الگ تناؤ کا شکار ہے کہ روز مرہ کی ضروریات پوری کرنا بھی گھر کے سربراہ کے لئے ایک مشکل امر بن چکا ہے۔بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔وہ مزدور جو صبح سویرے مزدوری کی تلاش میں کسی چوک میں جا بیٹھتے ہیں اور شام کو تھکے ہارے نم آنکھوں کے ساتھ خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں تو کس کرب سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بد امنی سے بخوبی ہو رہا ہے۔اس لئے کہ جب بھی لوگ بھوک اور مفلسی سے تنگ آ کر گھروں سے نکلیں گے تو خود کشیاں ہوں گی یا ڈکیتیاں ہوں گی اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی لا محالہ سفید پوش گھرانوں میں ہوں گی کہ اشرافیہ نے تو اپنا سب کچھ دوسرے ممالک میں محفوظ رکھا ہوتا ہے۔
ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی الگ لمحہ فکریہ ہے۔گلیوں،چوراہوں،سڑکوں غرض ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں سے گزر ہو اور وہاں بھکاری نظر نہ آئے۔ان سب حالات کا ذمہ دار کون ہے؟کیا وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کی معیشت کا انحصار آئی ایم ایف یا بیرونی قرضوں پر ہے؟ہر آنے والی حکومت ملک کا دیوالیہ نکال رہی ہے اور الزام پچھلی حکومت پر ڈال کر خود کو کرپشن سے پاک صاف ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اے حکمرانو حکمرانی کا حق ادا تو کرو
حکمراں تو رہتے ہیں قوموں کے خادم بن کر
یہ غلط اور کرپٹ حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں اٹھائے جگہ جگہ انٹرویو کے لئے جاتے ہیں روز کرایہ خرچ کرتے ہیں اور شام کو خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتے ہیں تو ان کے دل اور ذہن اس قدر منتشر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ صحیح اور غلط کا فرق کیے بغیر معاشرے سے سب کچھ چھین لینا چاہتے ہیں۔کیا ہی مثالی حکمران تھے ہمارے جو اس رازداری سے عوام کی ضروریات پوری کرتے تھے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور آج یوٹیلیٹی سٹور سے کم قیمت کا سودا خریدنے کا ڈھنڈورا پیٹ کر عزت نفس کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔وہ خود پر اور افراد پر ٹیکس لگاتے تھے اور آج چوہدریوں،وڈیروں،جاگیرداروں کو چھوڑ کر عام عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔وہ رب العالمین سے ڈرتے تھے کہ فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک پیاس سے مر جائے تو مجھ سے پوچھ ہو گی اور آج انسانی جان کی بھی کوئی حرمت نہیں۔
ان سب مسائل سے نجات کا ایک ہی حل ہےدرد دل اور خوف خدا رکھنے والی دیانتدار قیادت۔ آئیے،عہد کریں کہ ہم اپنے انتخاب کے حق کو صالح حکمران منتخب کرنے کے لئے استعمال کریں گے کہ انسان روز محشر اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا جسے وہ دنیا میں پسند کرتا ہو گا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
تبصرہ لکھیے