چند دن پہلے عالمی نشریاتی اداروں نے یہ رپورٹ شائع کی کہ برطانیہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ کر 29 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ مسلمان آبادی کا تناسب جو 2011ءمیں 4.5 فیصد تھا۔ اب بڑھ کر 6.5 فصد ہو گیا ہے۔
برطانیہ میں اسلام پھیل رہا ہے یا مسلمان بڑھ رہے ہیں؟ جواب ہے کہ مسلمان بڑھ رہے ہیں۔ قبول اسلام بھی بڑھ رہا ہے لیکن اتنی زیادہ رفتار سے نہیں۔ زیادہ تر مسلمان تارک وطن میں جو افریقہ اور برصغیر سے آئے ہیں ہر سال قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد 5 ہزار کے لگ بھگ ہے جو ظاہر ہے کہ بہت تھوڑی ہے۔ برطانیہ کی آبادی پونے سات کروڑ ہے اور ٹھیک اتنی ہی آبادی فرانس کی ہے لیکن وہاں 65 لاکھ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً نو فیصد ہے.
لیکن یہ سبھی کے سبھی تقریباً غیر ملکی بالخصوص شمالی افریقہ سے آنے والے مسلمان ہیں نو مسلموںکی کل آبادی محض 2 لاکھ ہے جو ظاہر ہے کہ بہت کم ہے یعنی دونوں ممالک میں اسلام نہیں، مسلمان پھیل رہے ہیں فرانس میں قبول اسلام کی شرح زیادہ ہے جہاں مشہور عالمی مبلغ اسلام، عالم دین اور بہت بڑے سکالر ڈاکٹر حمید اللہ عشروں تک مقیم رہے اور اسلام کی تبلیغ کی ان کی کتاب خطبات بہاولپور، دنیا بھر میں ترجمہ ہو چکی ہے اور دین و فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والوں میں بہت مقبول ہے۔
برطانیہ میں اتنے لوگ اسلام قبول نہیں کرتے جتنے دور بھاگتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ مسلمان پاکستانی اوریجن کے ہیں ان کی سیاست، ان کے فرقہ پرستی، مساجد پر قبضے، فرقہ وارانہ مناظرے، جھاڑ پھونک کے کاروبار اسلام کی کوئی خدمت نہیں کرتے۔ فرانس میں یہ معاملہ نہیں ہے کیونکہ وہاں زیادہ تر مسلمان الجزائر اور دوسرے عرب ممالک کے ہیں۔ یہی ماجرہ جرمنی کا ہے اس ملک کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ ہے اور یہاں بھی 65 لاکھ مسلمان آباد ہیں جس کی بھاری اکثریت ترک ہے۔ ترک مسلمان بھی فرقہ وارانہ جھگڑوں اور جھاڑ پھونک اور کرشمات کے تماشے نہیں لگاتے۔
پاکستان سے ایک وفد مبلغین اخلاق کا برطانیہ بھجوانے کی ضرورت ہے سیاسی میدان میں کچھ عرصہ سے پاکستانی نژا دشہری لندن میں خاص طور سے جس طرح کے ”اخلاق عالیہ“ کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کی ویڈیوز لوگ ہر روز دیکھتے ہیں۔ اسلام ہی نہیں، ہماری کمیونٹی کے یہ لوگ پاکستان کے بارے میں بھی بدنامی کا تاثر بنا رہے ہیں۔ بھارت سے دو وڈیوز دو روز میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ایک وڈیو مہاراشٹر صوبے کے شہر پیلہار میں ایک 24 سالہ مسلمان کو لنچ LYNCH کرنے کی ہے۔ یہ ایک مسلمان راہگیر شیر محمد خان تھا۔ وہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ہندو انتہا پسندوں کا ہجوم لپکا اور چور چور کے نعرے لگاتے ہوئے اسے لاٹھیوں اور پتھروں سے مارنا شروع کر دیا۔
ویڈیو بہت تکلیف دہ تھی‘ لیکن اس مسلمان کی قسمت کہ ہجوم اسے مردہ سمجھ کر فرار ہو گیا جبکہ وہ زندہ تھا۔ ہسپتال میں علاج کے بعد اس کی جان بچ گئی ہے۔ کچھ ملزم اس واقعہ کے پکڑے گئے ہیں۔ دوسری ویڈیو والا مظلوم اتنا خوش قسمت نہیں تھا بلکہ بہت ہی بدقسمت تھا۔ یہ واقعہ یوپی کے شہر کانپور کا ہے جہاں ریلوے لائن کے پاس ایک مسلمان سبزی فروش اپنی ریڑھی لیکر جا رہا تھا کہ ایک انتہاپسند ہندو پولیس والے نے اس کا سامان ریل کی پٹڑی پر پھینک دیا۔ بھارت کے غریب مسلمانوںکی غربت کا پیمانہ بہت لرزہ خیز ہے۔ سبزی والے نے اپنی متاع بچانے کیلئے پٹڑی پر چھلانگ لگا دی۔ اسی وقت ٹرین آگئی اور اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں۔ نہایت ناقابل بیان قسم کا دردناک منظر تھا۔
سابق بھارتی صدر من موہن سنگھ نے اس بری طرح تڑپتے مسلمان کی ویڈیو ٹوئٹر پر ڈالی اور اپنا تبصرہ اس سوال کی شکل میں کیا کہ کیا مسلمانوں کو کاٹ ڈالنا ہندو اکثریت اور پولیس کا ”دھرم“ بن گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بھارت کے ہندو انتہاپسندوں کو پاکستان سے کچھ نہ کچھ خوف رہتا تھا‘ لیکن اب نہیں ہے۔ پاکستان کا نام سن کر مسکرانے لگتے ہیں اور اب تو ملک پر راج ہی انہی کا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی مسلمان لنچ ہوتا ہے اور بھارتی عدالتیں ملزم‘ اگر پکڑے جائیں اس کو بری کر دیتی ہیں۔ بھارتی مسلمان پاکستان کے پڑوس میں لاوارث اور فلسطین کے مسلمان عرب ممالک کے پڑوس میں بے یارومددگار ہیں۔
بی جے پی کے دور میں اور بھی کئی انوکھے کام ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے ضلع کھٹولی میں چند روز پہلے ضمنی انتخابات ہوئے تو مسلمان ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ سماج وادی پارٹی نے فوری طورپرالیکشن کمشن سے رابطہ کیا کہ مسلمان ووٹروں سے ان کے شناختی کارڈ لیکر واپس بھیجا جا رہا ہے اور انہیں ووٹ ڈالنے نہیں دیا جا رہا۔ پارٹی نے اس کی ویڈیوز بھی الیکشن کمشن کو بھیجیں‘ لیکن الیکشن کمشنر نے کوئی ایکشن لیا نہ اس شکایت پر کوئی جواب دیا۔ یوپی بہار وغیرہ کے علاقوں میں چھوٹی ذات والی جماعتیں جیسے کہ یہ سماج وادی پارٹی ہے‘ اکثر الیکشن جیت لیتی ہیں اور بی جے پی سمجھتی ہے کہ یہ جیت مسلمان ووٹروں کی وجہ سے ہوئی ہے۔
یوپی سے ہی خبر آئی ہے کہ سنگ پریوار کی بدنام زمانہ مسلم دشمن جماعت وشوا ہندو پریشد نے بنارس میں اپنے کارکنوں کو بڑی تعداد میں نو انچ کے چاقو‘ چھریاں اور تلواریں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بنارسی ہندوﺅں کا بہت مقدس مذہبی شہر ہے‘ لیکن اس میں مسلمانوں کی خاصی بڑی اقلیت بھی آباد ہے۔
20‘ 22 لاکھ آبادی والے اس شہر میں لگ بھگ 30 ہزار آبادی مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کے کئی علمی اور دینی مراکز یہاں ہیں۔ کئی رسالے بھی نکلتے ہیں۔ یہ چھریاں‘ چاقو علی الاعلان تقسیم کئے جا رہے ہیں اور مقصد بھی واضح ہے بنارس کا نیا نام اب وارتاسی ہے۔ اسے بھارت کا روحانی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے