ہوم << دسمبر کا جنگل - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

دسمبر کا جنگل - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

دسمبر کا پہلا ہفتہ صاف شفاف نیلے آسمان کی بلندیوں میں سورج کا سنہرا گولا پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا گرمی جا چکی تھی موسم سرما ٹھنڈے ٹھار خنک ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اپنی آمد کا بگل بجا چکا تھا .

سردی کے آنے سے موسم سرما کی سر گرمیوں کا آغاز ہو گیا تھا آپ اگر نوٹ کریں تو سردیوں گرمیوں حبس بہار خزا ں کے موسموں کے الگ ہی رواح اور سر گرمیاں ہو تی ہیں موسم گرم میںآپ کھلے آسمان کے نیچے کڑکتی دھوپ میں زیادہ وقت نہیں گزار سکتے شدید گرمی اور حبس آپ کو بہت سارے کاموں سے روک دیتا ہے اِسی لیے جیسے دسمبر کی آمد ہو تی ہے اہل دنیا پر دسمبر کا رنگ غالب آنے لگتا ہے دسمبر کی پراسراریت یادیں اداسی پیار بھرے لمحات قلب و روح کو زیست آفرین احساس بخشتے ہیں.

بہت سارے لوگوں کی طرح بلا شبہ دسمبر میرا بھی پسندیدہ ترین مہینہ جس کا میں سارا سال انتظار کرتا ہوں دسمبر کی شامیں راتیں سنہرے دھوپ بھرے دن کھلا آسمان دور تک پھیلے سر سبر و شاداب لہلہاتے کھیت قدآور صحت مند فصلوں کے جھومتے کھیت سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی دھان ( چاول ) کی فصل کا پکنا پھر آخری دنوں میں چاول کی مسحور کن خوشبو کہ مشام جان عطر بیز ہو کر جھوم جھوم جائے ۔

میرا تعلق دیہی زندگی سے ہے میرا بچپن جوانی گائوں میں گزرے خاندانی زمین ٹیوب ویل بھی تھا جس کی وجہ سے میں حقیقی گا ئوں کی زندگی سے لطف اندوز ہوا گرمیوں میں تو ہم لوگ قریبی نہر یا پھر دریائے راوی پر چھلانگیں لگاتے نظر آتے لیکن سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی موسم سرما کو خوب انجوائے کرتے میں بچپن لڑکپن اور جوانی کے ہر دور میں کھیل کود کو زیادہ پسند کر تا تھا ‘رب تعالی نے اچھی یاد داشت رکھی تھی سارا سال کھیلوں کے میدان میں گزرتا آخری مہینے میں جا کر کتابوں سے دوستی ہوتی حلقہ یاراں بہت زیادہ پھیلا ہو اتھا ایک سے زائد کھیلوں کا پھرتیلا مرکزی کھلاڑی تھا اِس لیے امتحانوں میں پاس ہونے کے لیے دوستوں کی نظروں سے اوجھل ہونے کے لیے کتابیں پکڑتی.

اور کھیتوں کی طرف نکل جاتا ہر روز اِسی طرف جانا کہ دوستوں کی نظر سے بچ کر سکون سے دھان کی فصل کی پرالی کے قد آور ڈھیروں کے درمیان نرم و گداز جگہ پر چھپ کر پڑھائی کرنا یا قدآور فصلوں کے کے درمیان میں کتابیں چاٹنے کا کام کرتا یا قریبی باغ میں جا کر درختوں میں چھپ کر تیاری کرنا پیدل چلنے کا شوق شروع سے تھا میلوں دور جا کر پڑھائی کرتا اپنے گائوں سے دور نکل جاتا مجھے فصلیں کھیت دور تک لہلہاتے میدان پھر مختلف درختوں فصلوں کی خوشبو بہت متاثر کرتی آپ آج بھی اگر کھیتوں کی طرف نکل جائیں دسمبر کی سردی آسمان پر چمکتا حرارت آمیز شعائیں پھیکتا سورج کہ آپ پر سحر سا طاری ہو جائے آسمان سورج دھوپ کھیت ہر طرف فطرت کے رنگ کہ آپ کی روح جھوم جھوم جائے پھر مٹی کی خوشبو آپ نہر کے کنارے دریا کے کنارے جا کرمختلف لذت کو محسوس کر تے ہیں.

جنگل فطرت کھیت فصلوں کی خوشبو ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی ہے اِ س ماحول میںآسمان درختوں پر پھدکتے پرندے زمین پر چرتے جانور اور اگر قریب کہیں پر گڑ شکر بنانے والا بیلنا ہو تو اُس کا اُٹھتا دھوا ں گنے کے رس اور گڑ کی خوشبو فضا مہکی مہکی لگتی ہے چھٹی کا دن ہمیشہ کھیتوں پر گزرتا پھر بچپن میں چھانگا مانگا کے جنگل میں جب جاتے تو دیوہیکل صدیوں پرانے درختوں کا ہیبت ناک ماحول جنگل کی پراسراریت آپ کی روح کو گد گداتی ہے یا فصلوں کے عین درمیان اگر پرانا شیشم پیپل یا برگد کا درخت آسمان کی بلندیاں چیرتا ہوا آپ کو نظر آئے تو دسمبر کا مہینہ آسمان پر چمکتا سورج اور دیو قامت بلند و بالا درخت آپ محسوس کریں تو عجیب کیف انگیز کیفیت سے دوچار ہو جائیں گے پڑھائی کے بعد جب نوکری کے لیے قدرت نے کوہ مری بھیجا.

اور پھر وہاں راہ سلوک کا مسافر بننے کے بعد تزکیہ نفس کی مختلف منازل سے گزرتے ہو ئے ذکر اذکار کی حلاوت کے ساتھ جب جذب و سکر استغراق طاری ہو تا تو جسم کا سردی گرمی کا احساس سے بے فکر ہو جانا ایسے میں چاک گریبان کوہ مری کے گھنے جنگلات کا رخ کرنا پہاڑی علاقوں کی جنگلات کی خوبصورتی رعنائی پراسراریت بہت زیادہ ہوتی ہے دیو قامت صدیوں پرانے درخت جنگلی جڑی بوٹیوںکی مہک آور خوشبو ندیاں جھرنے آبشار چشمے جنگلی پھلوں کے درخت پراسرار پرندوں کی پروازیں اڑتی گلہریوں کی ایک سے دوسرے درخت پر پروازیں جنگل فطرت اور سناٹا سکوت دنیا کی مادیت پرستی سے دور ہر طرف فطرت ہی فطرت یا قدرت کے ہزاروں رنگ پھولوں کی کیاریاں لہریں کھاتے پہاڑی سلسلے میں مری کے قیام کے درمیان خوب خوب جنگل گردی کرتا مری سے لاہور آنے کے بعد جنگل گردی کم ہوگئی گائوں سے بھی رابطہ کم سے کم ہو تا گیا .

لیکن آج صبح صاف موسم روشن سورج دیکھ کر دل چاہا کہ قریبی پارک میں جا کر Forest Breathingیعنی جنگل کے ساتھ سانس لوں گا وقت گزاروں یہ سبق یا لذت مجھے سکاٹ لینڈ سفر کے درمیان لوک لومنڈ کے جنگل اور ندی کے کنارے ایک بوڑھے انگریز نے بتائی تھی جب وہ سورج کی دھوپ کے نیچے آنکھیں موندے لیٹا اپنی ہی تنہائی سے انجمن کا لطف لے رہا تھا میں اُس کے پا س بیٹھ گیا اُس نے میری آہٹ سے آنکھیں کھولیں میں نے چاکلیٹ آگے کر دی اُس نے مسکراتی آنکھوں سے پکڑ کر شکریہ کہا تو میں نے پوچھا کیا کر رہے ہیں تو وہ بو لا Forest Breathingکر رہا ہوں اُس وقت تو مجھے حیرت ہوئی کہ یہ بوڑھا گورا کس مستی میں جنگل کے ساتھ وقت گزار نے اور سانس لینے آیا ہے.

لیکن بعد میں جب میں نے غور کیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں بھی بچپن سے آج تک کھیتوں جنگلوں میں یہی عمل دہراتا آیا ہوں پھر کوچہ فقر کے درویش جو جنگلوں پہاڑوں دریائوں صحرائوں میں کھلے آسمان کے نیچے ڈیرے جماتے ہیں وہ بھی تو یہی عمل کرتے ہیں آپ اِس عمل سے لطف لینے کا آرٹ اگر سیکھ گئے تو باطن کے ڈپریشن پر یشانی سے آزاد ہو جائیں گے کیونکہ حضرت انسان کی تخلیق بھی مٹی سے ہوئی ہے اِس لیے زمین پر بیٹھ کر جنگل کی زندگی آب و ہوا کو محسوس اور انجوائے کریں باطنی سر شاری کے نئے جہانوں سے متعارف ہو نگے .

مجھے شدت سے جنگل کی یاد ستانے لگی تو اچانک مجھے قریبی پارک کا مصنوعی جنگل یاد آگیا جس کے ایک گوشے میں چند سال پہلے پارک والوں نے مصنوعی جنگل اگا دیا تھا جو اب تنا آور درختوں کی شکل میں خوب پھیل چکا تھا لہذا میرے قدم جنگل کی طرف اٹھنے لگے ( جاری ہے )

Comments

Click here to post a comment