ہوم << مراد علی شاہ صاحب! آئیں بھنگ پیتے ہیں - عمیر محمود

مراد علی شاہ صاحب! آئیں بھنگ پیتے ہیں - عمیر محمود

عمیر محمود ارے مراد علی شاہ صاحب۔ آپ تو سنجیدہ ہی ہو گئے۔ یہ وزیراعلیٰ بنتے ہی عوامی خدمت کا نعرہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کو عوام سے ایک ہی چیز تو چاہیے ہوتی ہے، ووٹ۔ وہ خدمت کیے بغیر بھی مل رہے ہیں۔ جب آپ کو وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کیا گیا، اس وقت آپ نے کہا تھا وہی کریں گے جو پارٹی لیڈر شپ کہے گی. پھر یہ عوامی خدمت کا اعلان کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید ہمارے کان بجے، امن و امان کے حوالے سے آپ نے قائم علی شاہ کے دور کو سندھ کا بہترین دور قرار دیا۔ اگر آپ کے نزدیک بہتری کا معیار یہ ہے تو خدا جانے بدتری کسے کہیں گے؟
ایک تو آپ نے اپنی تقریر میں انگریزی کے فقرے بار بار استعمال کیے۔ مجھ ان پڑھ کو تو سمجھ ہی نہیں آئی۔ صاف کراچی، ہرا تھر اور محفوظ سندھ۔۔۔ کیا یہی کہا آپ نے؟ کہیں آپ کراچی کا کچرا صاف کرانے کا پروگرام تو نہیں بنا بیٹھے؟ ارے کچھ تو اس کچرے پر پلنے والے اربوں جراثیم کا خیال کیا ہوتا۔ کس چاؤ سے یہ جراثیم عوام کو بیمار کرتے ہیں، اور آپ انہیں ختم کرنے چلے ہیں۔ اور تھر کو ہرا کرنے سے پہلے تھر کے رہنے والوں کو سیراب کرنے کا تو کچھ بندوبست کیجیے۔ سنتے ہیں آپ سے پہلے والوں نے کوئی پانی صاف کرنے کے پلانٹ وغیرہ لگوائے تھے۔ تھر واسیوں کی پیاس بجھانے کے بعد اب آپ کو تھر کی پیاس بجھانے کی بھی سوجھی ہے۔ اللہ کرے تھر کے سبزے میں کوئی سبز قدم حائل نہ ہو۔
انگریزی میں آپ نے کچھ ایسی بات بھی کہی کہ اکیلا چلوں گا تو تیز چلوں گا لیکن سب کو ساتھ ملا کر چلوں گا تو دور تک چلوں گا۔ صاحب سب کو ساتھ ملا لیا تو آپ کو آگے بڑھنے کون دے گا؟ یہ انگریزی کی کہاوتیں انگریزوں کے ہاں ہی اچھی لگتی ہیں۔ دور تک جانا ہے تو اکیلے ہی قدم بڑھائیں۔
آگاہ کیا، بس اتنا پروٹوکول لوں گا جتنا حفاظت کے لیے ضروری ہو۔ اب اس ‘ضرورت’ کا تعین کون کرے گا ؟ اور ساتھ ہی کہا۔۔۔ چاہتا ہوں سندھ کا ہر شہری خود کو محفوظ سمجھے۔ پہلے خود کو تو محفوظ سمجھ لیجیے۔ کرپشن کے ماضی کا ذکر کر کے بھی اچھا کیا۔ کہ یہ تو انیس سو سینتالیس سے ہے۔ قائد اعظم نے بھی اپنی تقریر میں کرپشن کے خاتمے کا ذکر کیا تھا۔ جو چیز جتنی قدیم ہو اس کی قدر تو اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اور جو چیز قائد اعظم اپنے ایک سالہ دور میں ختم نہ کر سکے، وہ آپ اتنے سال میں کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے تو پالیسی نامی شے بنانا پڑتی ہے۔ لہذا نہ کرپشن کا اعتراف ہوگا، نہ خاتمے کی کوششیں ہوں گی۔ نہ نو من تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی۔
سندھ والوں کو تعلیم دینے کا خیال بھی خوب ہے۔ کہیں پورا ہو گیا تو ہر کسی کو شعور آ جائے گا۔ یہ شعور کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ پرہیز ہی بہتر ہے۔ اور پھر ہر استاد کو بچوں کو پڑھانا پڑے گا۔ وہ جو گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں، ان بے چاروں کا کیا بنے گا؟
اپنے والدین کو یاد کرتے آپ آبدیدہ ہو گئے۔ وہ بھی آپ کو وزیراعلیٰ بنتے دیکھتے تو کتنا خوش ہوتے۔ اچھا کیا آپ نے صرف اپنے والدین کو ہی یاد کیا۔ سندھ میں بے امنی اور صحت کی سہولیات نہ ہونے سے مرنے والوں کو یاد نہ کیا۔ اس ننھی بیمار بسمہ کو یاد نہ کیا جو آپ کے لیڈر بلاول بھٹو کے پروٹوکول کی نذر ہو گئی تھی۔ زندہ ہوتی تو ایک سال اور بڑی ہو گئی ہوتی۔
خیر چھوڑیں یہ باتیں۔ آئیں بھنگ پیتے ہیں، ایمان سے سرور آ جائے گا۔

Comments

Click here to post a comment