میرے ایک دوست نے اسلام آباد میں اپنا گھر ایک جاپانی فیملی کو کرائے پر دے رکھا ہے‘ یہ فیملی سات سال سے اس گھر میں رہ رہی ہے‘ میرے دوست کو بے شمار لوگوں‘ کمپنیوں اور خاندانوں نے تین گنا کرائے کی آفر کی لیکن میرے دوست نے جاپانی فیملی سے گھر خالی کرانے سے انکار کر دیا۔
میں نے دو دن قبل اس سے اس قربانی کی وجہ پوچھی تو اس کا جواب تھا‘ جاپانی خاندان نے میرا گھر اتنا صاف ستھرا رکھا ہوا ہے کہ میں بھی اس کی اتنی کیئر نہیں کر سکتا‘ میں نے ہنس کر کہا‘ یہ جاپانیوں کی قومی عادت ہے‘ یہ روزانہ اپنا گھر فرش سے لے کر چھت تک صاف کرتے ہیں‘ جاپانیوں کے گھر چھوٹے ہوتے ہیں‘ اس کی وجہ صفائی پسندی ہے۔یہ لوگ اپنے گھروں کی صفائی خود کرتے ہیں چناں چہ یہ چھوٹے گھر پسند کرتے ہیں تاکہ صفائی آسانی اور تفصیل سے ہو سکے‘ بڑے گھر پر زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے‘ یہ جوتے بھی باہر اتار کر گھر میں داخل ہوتے ہیں‘ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور واش روم کو تولیے سے صاف کر کے چمکا کر باہر آتے ہیں‘ یہ ان کی قومی عادت ہے‘ میرے دوست نے ہنس کر جواب دیا.
میں سمجھ رہا تھا شاید میرا کرایہ دار ایسا ہے۔ میں نے جواب دیا‘ ہرگز نہیں‘ آپ کسی بھی جاپانی کو گھر دے دیتے اس نے اس کا اسی طرح خیال رکھنا تھا‘ جاپانی لوگ اپنی گاڑی کو بھی معشوقہ بنا کر رکھتے ہیں شاید اسی لیے پوری دنیا میں جاپانی گاڑیوں کی ری سیل ویلیو زیادہ ہوتی ہے‘ جاپانیوں کی عادت ہے یہ جدید ترین گاڑی خریدتے ہیں۔ گیراج میں کھڑی کرتے ہیں اور خود ٹرین اور بس پر سفر کرتے ہیں‘ یہ صرف ویک اینڈ پر گاڑی نکالیں گے‘ چند کلومیٹر چلائیں گے‘ واپس آئیں گے‘ گاڑی کو خوب مل مل کر صاف کریں گے اور دوبارہ گیراج میں کھڑی کر دیں گے۔
جاپانی اپنا بھی بے تحاشا خیال رکھتے ہیں‘ جاپان میں 60 ہزار لوگوں کی عمریں سو سال سے زیادہ ہیں اور 98 فیصد بابے ورکنگ کنڈیشن میں ہیں‘ یہ روزانہ کام بھی کرتے ہیں اور دوڑتے بھاگتے بھی ہیں‘ جاپانیوں کی اچھی صحت اور لمبی عمر کی سات وجوہات ہیں اور دنیا کا کوئی بھی شخص یہ عادتیں اپنا کر اپنی صحت اور عمر میں اضافہ کر سکتا ہے‘ جاپانیوں کی پہلی عادت باتھ ہے۔ دنیا جہاں کے لوگ غسل (شاور) کرتے ہیں جب کہ جاپانی گرم پانی کے باتھ لیتے ہیں‘ یہ روزانہ باتھ ٹب میں لیٹتے ہیں‘ جاپان میں گرم پانی کے تیس ہزار تالاب ہیں‘ لوگ ایڈوانس بکنگ کرا کر ان تالابوں میں باتھ لیتے ہیں‘ شاور سے صرف آپ کا جسم صاف ہوتا ہے جب کہ باتھ ٹب میں بیٹھنے یا لیٹنے سے انسان کی جلد کے سیلز میں انرجی بھی آ جاتی ہے مسلز کو سکون بھی ملتا ہے اور ٹینشن اور اینگزائٹی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے دنیا کی تمام پرانی تہذیبوں میں شہروں اور دیہات کے درمیان تالاب ہوتے تھے‘ پنجاب میں بھی جوہڑ ہوتے تھے اور پورا شہر اور گائوں ہر شام ان میں تیراکی کرتا تھا‘ یورپ میں آج بھی تیراکی لازمی ہے‘ مغربی دنیا کے ہر گھر میں باتھ ٹب بھی ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاور اور باتھ کا فرق ہے‘ جاپانی یورپ سے بھی چند ہاتھ آگے ہیں لہٰذا یہ روزانہ باتھ لیتے ہیں‘ دوسری عادت‘ جاپانی صفائی کے نشئی ہیں۔ جاپانی خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو یہ اپنے گھر‘ گاڑی اور گلی کی دو تین گھنٹے صفائی کرے گا‘ جاپان میں بچے اپنے اسکول کی صفائی خود کرتے ہیں‘ یہ اسکول آنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے فرش‘ کھڑکیاں‘ دروازے‘ واش رومز‘ لان‘ گیٹ اور کھیل کے میدان صاف کرتے ہیں اور ان کی کلاسیں اس کے بعد شروع ہوتی ہیں‘ یہ لوگ چلتے چلتے بھی صفائی کرتے رہتے ہیں‘ سڑکوں سے کچرا اٹھا کر ڈسٹ بین میں پھینکیں گے‘ پرانی دیواریں پینٹ کر دیں گے‘ سرکاری درختوں کی کانٹ چھانٹ کر دیں گے اور یہ کام ان کے ارب پتی لوگ بھی کرتے ہیں۔
ٹوکیو میں جرائم پیشہ لوگوں کے گینگز بھی ہیں‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ گینگز بھی گند نہیں ڈالتے‘ یہ اگر کسی کو قتل بھی کریں گے تو فرش باقاعدہ صاف کر کے واپس جائیں گے‘ تیسری عادت پورا ملک روزانہ ایکسرسائز کرتا ہے‘ جاپانی ایکسرسائز ریڈیو کیلس تھینکس (Radio Calisthenics) کہلاتی ہے‘ یہ اجتماعی ایکسرسائز ہے۔ حکومت نے یہ 1928 میں متعارف کرائی تھی اور پوری جاپانی قوم سو سال سے بلاناغہ سال کے 365 دن یہ ایکسرسائز کرتی ہے‘ ریڈیو ایکسرسائز دفتروں اور گھروں دونوں میں کی جاتی ہے اورہر عمر کے لوگ کرتے ہیں‘ یہ 30 ایکسرسائز کا سیٹ ہے اور یہ تین منٹ اور 32 سکینڈ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن آپ کا پورا جسم ایکٹو ہو جاتا ہے لہٰذا جاپانی پوری دنیا میں ایکٹو اور فٹ سمجھے جاتے ہیں‘ چوتھی عادت لوگ صبح جلدی جاگتے ہیں اور سورج کی طرف منہ کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
جاپانی زمانہ قدیم میں سورج کی پوجا کیا کرتے تھے اور پوجا کے لیے صبح اٹھ کر سورج کا استقبال ضروری ہوتا تھا چناں چہ جلدی جاگنا ان کے ڈی این اے میں شامل ہو چکا ہے‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا کے تمام مذاہب میں صبح کی نماز موجود ہے اور اس کی وجہ انسان کو صبح کی برکتوں سے متعارف کرانا ہے‘ انسان کے جسمانی کلاک میں صبح کا رول انتہائی اہم ہے اور جاپانی اس حقیقت سے واقف ہیں چناں چہ یہ صبح جلدی اٹھتے ہیں اور سورج کی روشنی کو انجوائے کرتے ہیں‘ پانچویں عادت یہ لوگ انتہائی سادہ خوراک کھاتے ہیں۔ یونیسکو نے 2013میں جاپانی خوراک کو دنیا کی بہترین خوراک قرار دیا تھا‘ آپ آج یہ خوراک شروع کر دیں آپ کی زندگی اور صحت دونوں میں اضافہ ہو جائے گا‘ جاپانی خوراک ایک سوپ اور تین سائیڈ ڈشنز پر مشتمل ہوتی ہے‘ یہ لوگ روزانہ تھوڑے سے ابلے ہوئے چاول‘ مچھلی‘ سلاد‘ فرمینٹڈ سبزیاں‘ گریک اسٹائل دہی اور بینز کھاتے ہیں‘ کھانا نیچے بیٹھ کر آہستہ کھاتے ہیں اور ڈنر کے دوران خوش گوار گفتگو کرتے ہیں۔
یہ لوگ کھانے کے دوران منفی بات نہیں کرتے اور جھگڑتے بھی نہیں ہیں جب کہ ہماری ہر ڈائننگ ٹیبل پر لڑائی بھی ہوتی ہے اور ہم سب سے زیادہ غیبت بھی کھانے کے دوران کرتے ہیں‘ چھٹی عادت‘ یہ لوگ ماچا چائے پیتے ہیں‘ ماچا (Matcha) سبز رنگ کے پتے ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ان کا پائوڈر بناتے ہیں اور یہ پائوڈر گرم پانی میں گھول کر پی جاتے ہیں‘ ماچا میں وہ تمام معدنیات اور وٹامنز موجود ہوتے ہیں جن کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ جاپانی یہ چائے استعمال کرتے رہتے ہیں بالخصوص بزرگ جاپانی اس کے عادی ہیں اور ساتویں عادت جاپانی ہائیکنگ کرتے ہیں‘ جاپان میں سیکڑوں چھوٹی بڑی پہاڑیاں ہیں‘ جاپانی لوگ ہفتے میں کم از کم ایک بار ان پہاڑیوں پر ہائیکنگ ضرور کرتے ہیں‘ ہائیکنگ سے انسان کی ٹانگیں‘ مسلز اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں‘ آپ پہاڑی علاقوں کے لوگوں کو دیکھیں آپ کو ان کی عمریں بھی لمبی ملیں گی‘ یہ لوگ شہر کے لوگوں کے مقابلے میں صحت مند بھی ہوں گے اور ان کے جوڑ بھی مضبوط ہوں گے۔
پہاڑی لوگ ہڈیوں کے امراض کا کم شکار ہوتے ہیں‘ میری سائوتھ افریقہ میں ہڈیوں کے ایک سرجن سے ملاقات ہوئی‘ اس نے انکشاف کیا‘ میرے پاس آج تک کوئی رنر اور کوئی ہائیکر نہیں آیا‘ ائیرمارشل نور خان نے 88سال عمر پائی‘ یہ آخری دنوں تک روزانہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کے گھٹنوں میں درد نہیں ہوتا‘‘ ائیرمارشل صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میں نے بھی لوگوں سے سنا تھا ہائیکنگ سے گھٹنوں میں درد ہو جاتا ہے لیکن میرے گھٹنوں میں آج تک نہیں ہوا‘‘ جاپانی بھی اس راز سے واقف ہیں لہٰذا یہ کم از کم ہفتے میں ایک دن ہائیکنگ ضرور کرتے ہیں۔
دنیا میں بلیو زونز کے نام سے پانچ ایسے علاقے ہیں جہاں لوگوں کی عمریں سو سال سے زیادہ ہیں‘ یہ لوگ ورکنگ کنڈیشن میں بھی ہیں اور یہ کسی قسم کی دوا بھی استعمال نہیں کرتے‘ یہ علاقے جاپان کا جزیرہ اوکی ناوا (Oki Nawa)‘ اٹلی کا علاقہ سارڈینیا (Sardinia)‘ کوسٹا ریکا کا شہر نی کویا (Nicoya)‘ یونان کا شہر آئیکیریا (Ikaria) اور کیلیفورنیا کا ٹائون لومالینڈا ہے‘ دنیا جہاں کے سائنس دان ان بلیو زونز پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ اب تک کی ریسرچ کے مطابق یہ لوگ متحرک ہیں‘ مطمئن اور شاد ہیں‘ سادہ زندگی گزارتے ہیں‘ نیچر کے قریب ہیں‘ جلد سو جاتے ہیں‘ جلد اٹھتے ہیں‘ صبر اور شکر کرتے ہیں اور قہقہے لگاتے رہتے ہیں لہٰذا یہ صحت مند بھی ہیں اور ان کی عمریں بھی لمبی ہیں‘ہمارا ایمان ہے زندگی اور موت کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اگر یہ نہ چاہے تو شداد بھی گھوڑے کی رکاب سے پائوں زمین پر نہیں رکھ سکتا اور یہ اگر چاہے تو فرعون اور نمرود کو بھی اپنے پسندیدہ نبیوں کے سامنے چھوٹ دے دیتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم انسانوں کی کوشش ہونی چاہیے۔
ہم جتنی دیر بھی زندہ رہیں ہم اپنی زندگی کی قدر بھی کریں اور صحت مند رہنے کی کوشش بھی کریں‘ بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار اپنے نائب انسان کو بھی دے رکھے ہیں اور ان اختیارات میں پہلا اختیار زندگی گزارنے کا فیصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کو مثبت یا منفی گزارنے کا اختیار انسان کو دے رکھا ہے لہٰذا اچھائی اور بہتری کی کوشش بھی کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا بھی کرتے رہیں‘ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا‘ کوشش نہ کرنا بے وقوفی اور کوشش کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرنا تکبر ہوتا ہے چناں چہ میرا مشورہ ہے جاپانیوں کی طرح کوشش اور دعا ساتھ ساتھ چلاتے رہیں‘ آپ کبھی گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔
تبصرہ لکھیے