ہوم << ماں کی رضائی - آصف محمود

ماں کی رضائی - آصف محمود

ماں نے گاؤں سے سلوا کر رضائی بھجوائی، بچپن ساتھ چلا آ یا۔ اب میری سفید کنپٹیاں میرے بچپن سے پوچھ رہی ہیں کہ کچھ بتاؤ تو یہ کیا قصہ ہے، ماں نے اتنی دور سے رضائی بھیجی مگر روئی کی نہیں بھیجی ، پولیسٹر کی بھیج دی ہے ۔

اگرچہ شاندار رضائی ہے، بھاری، گرم اور مخصوص دیہاتی پیرہن کا سارا حسن لیے ہوئے ہے لیکن اس میں روئی کیوں نہیں ہے؟
بچپن میں،ماں ہمیشہ روئی کی رضائی بنواتی تھیں ۔ ارغوانی اور گلابی رنگ کی کامدار رضائیاں ۔ پہلے روئی چنوائی جاتی ، پھر اس کی ’پنجائی‘ دھنائی ہوتی ۔ اس کے بعد رضائیاں روئی سے بھر دی جاتیں اور ان کی سلائی ہو جاتی ۔ بھاری اور وزنی رضائیاں ۔ جاڑے کی کہر برساتی راتوں میں اس رضائی میں سکون آ جاتا۔

بڑی سی حویلی تھی، سنبل کے درخت کے ساتھ ، امرود ، بادام اور کینو کے پودے لگے تھے ۔ پھر برآمدہ اور اس کے یچھے کھلے، روشن اور ہوادار کمرے ۔ یہ شہروں کے ڈربوں جیسے کمروں کاگاؤں میں کوئی تصور ہی نہیں تھا ۔ جاڑا اتنا سخت ہوتا تھا کہ صبح سکول کے ساتھ میدان میں ’ککر‘ جما ہوتا تھا اور ہم اس برفاب میدان سے یہ ککر جمع کر کے سلیٹیاں بناتے تھے ۔ رہائشی حویلیوں کے ساتھ ایک خاندان کی مشترکہ حویلی تھی جہاں ہم کھیلتے تھے ۔

یہیں میں نے اپنے کزن ندیم گوندل کے ساتھ مل کر خرگوش پال رکھے تھے ۔ جاڑے کی ایک صبح ہم نے دیکھا سفید رنگ کے سرخ آنکھوں والے دو خرگوش بچے سردی سے مر کر اکڑے پڑے تھے۔اس شدید جاڑے میں کوئی ہیٹر نہیں ہوتا تھا ۔ سر شام کوئلوں کی ایک انگیٹھی دہکا لی جاتی تھی اور پھر رضائی میں گھسنے کے بعد کسی اضافی اہتمام کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی ۔ روئی کی یہ رضائی اتنی گرم ہوتی تھی کہ آگ یا ہیٹر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی ۔پھر وقت بدلا، بازار میں نئی ہلکی پھلکی رضائیاں آنے لگیں تو میں نے کہا ماں مجھے یہ بھاری توپ جیسی پرانے وقتوں کی رضائی نہیں چاہیے۔

ماں نے بازار سے کمبل اور جدید رضائی منگوا دی۔ان وقتوں میں یہ بازاری سویٹر نہیں ہوتے تھے ۔ ماں ہاتھ سے سویٹر بنتی تھیں ۔ سویٹر بھی اور جرسی بھی ۔ جس رنگ کی فرمائش کی جاتی تھی وہ رنگ اس میں شامل کر دیا جاتا تھا ۔ پھر دھیرے دھیرے گاؤں میں جدت آنی شروع ہو گئی ادر ادھر ایک دو لڑکوں کو بازاری سویٹر پہنے دیکھا تو ماں سے کہہ دیا اب یہ پینڈو سویٹر مجھ سے نہیں پہنے جاتے۔ماں نے سویٹر بنانا چھوڑ دیے اور مجھے بازار کی جرسیاں اور جیکٹیں لا دیں۔خالص دوودھ ہوتا تھا، ماں ڈنڈے سے پلاتی تھیں مگر مجھے اچھا نہیں لگتا تھا ۔ برائلر انڈیا ور برائلرگوشت کا ذکر میں نے سناہی نہیں تھا ۔

مرغ کے گوشت کامطلب یہی تھا کہ دیسی ہی ہے ۔ گھر میں بھاگتے پھرتے تھے، ساون اور جاڑا آتا تھا تو خودکھائے جاتے تھے یا مہما ن آتا تھا تو اسے کھلائے جاتے تھے ۔ یہ مرغے اذان دے دے کر صبح سویرے جگا دیا کرتے تھے تو میں انہیں بد دعا دیتاتھا کہ تمہیں کوئی بلی یا باگڑ بلا لے جائے، کم بختو سونے بھی نہیں دیتے۔گھی صرف دیسی ہوتا تھا ۔ بناسپتی اور کوکنگ آئل کا کوئی وجود نہ تھا ۔ دوسرے گاؤں نانی کے گھر جاتے تھے تو وہ ہر شے کو دیسی گھی سے بھر دیتی تھیں ۔ سارے نواسوں نواسیوں میں سے میں ان کا چہیتا تھا ۔ سب سے چھپ کر اپنی قدیمی تجوری سے نکال کر مجھے پیسے دیاکرتی تھیں۔ صبح سویرے مدھانی رڑکتی تھیں اور میں کہتا تھا نانی سونے دیاکریں کیا گھرڑ گھرڑ لگا دیتی ہیں ۔

ناشتے میں ہر شے دیسی گھی میں ڈبوئی ہوتی تھی اور جو بچ رہتا تھا اس پر مکھن ہوتا تھا ۔ میں کہتا تھا نانی مجھے اس میں سے بو آتی ہے میں کیا کروں ۔ وہ ہنس پڑتیں ۔ مگر کھلا کر ہی چھوڑتیں۔نانی کے گھر ددھانے کا دودھ ہوتا تھا ۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا ۔ مجھے اس میں سے دھوئیں کی بو آتی تھی ۔ مگر وہ ادھر ادھر کی سنا کر پلا دیا کرتی تھیں ۔ میں کہتا تھا میری نانی جیسی نانی کسی کی نہیں ۔ اللہ نے یہ ایک ہی بنائی ہے ۔ مگر اب اپنے بچوں اور ان کی نانی کے باہمی دلچسپی کے امور دیکھتا ہوں تو لگتا ہے نانیاں ہوتی ہی ایسی ہیں ۔ ایک جیسی ۔

نوے کی دہائی میں گاؤں کے اس ماحول سے نکلا تو ایم اے انگریزی کرنے اسلام آباد آ گیا اور پھر یہیں کا ہو رہا ۔ جب جدت کو اس کے سارے رنگوں میں دیکھ لیا تو اپنا گاؤں اور اپنے رنگ یادآنے لگے۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔میں بھی لوٹ رہا ہوں۔ تب دودھ اچھا نہیں لگتا تھا، اب خالص دودھ کے لیے سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔تب دیسی گی سے بو آتی تھی ، اب مہینوں پہلے درجن بھر لوگوں سے کہہ رکھتے ہیں تب جا کر کچھ گھی ملتا ہے اور جب ملتا ہے تو لگتا ہے سوغات ہاتھ آگئی ۔تب مکھن اچھا نہیں لگتا تھا اب اس کی شکل کو ترس گئے ہیں۔

تنور کی روٹی کو تو اب اکھیاں ترس گئی ہیں ۔ اسلام آباد کے کتنے ہی ہوٹلوں کو مفت مشورہ دے چکا ہوں کہ لکڑی سے سلگائے تنور پر پکنے والی گندم کی روٹی کا بندوبست کرو،لیکن اب اس تردد میں کون پڑے۔ گھر قمقموں سے روشن ہوتا ہے مگر میں لالٹین تلاش کرتا پھرتا ہوں کہ گھر میں ایک لالٹین تو رکھا ہو۔تب ہاتھ سے بنی سویٹر اور جرسیاں پسند نہیں تھیں ، آج لگتا ہے ان جیسی نعمت ہی کوئی نہیں تھی۔ پر اب کون بنا کر دے؟ ماں نے اب مجھے جدید رضائی بھجوائی ہے اورمیں بیٹھا سوچ رہا ہوں انہوں نے روئی کی بنی وہ توپ رضائی کیوں نہیں بھجوائی۔

اب جاؤں گا تو انہیں بتاؤں گاچیزیں وہی اچھی تھیں جو ان کے پاس تھیں جو ان کی تھیں، جدید چکا چوند میں واقعی کچھ نہیں رکھا۔ روٹی تنور کی، دود ھ ددھانے کا، گھی دیسی اور رضائی وہی روئی کی بنی ہوئی توپ رضائی ۔ جو اتنی بڑی ہوتی تھی کہ ایک فٹ سر کی جانب سے دہری کی جاسکتی تھی اور ایک فٹ پاؤں کی جانب سے۔ باقی سب دکھاواہے۔ وقت آگے جاتا ہے، بھول بھلیوں میں بھٹکتا ہے اور پھر لوٹ آتا ہے۔ اپنی اصل کی جانب اور اپنے مقام کی طرف۔

اب ماں نے اگر پولیسٹر کی رضائی بھیجی ہے تو ٹھیک ہی تو کیا ہے۔ ماں کو وہ دن کیسے بھولاہو گا جب اس کے بیٹے نے اس کی اتنی محبت سے تیار کردہ روئی کی رضائی کی ناقدری کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ توپ بھی کوئی رضائی ہے۔رضائیاں تو وہ ہیں جو فلاں فلاں کی مائیں بازار سے خرید لائی ہیں۔

ماں نے تو سمجھایا تھا کہ بیٹا بھلا نئی رضائیاں بھی کوئی رضائیاں ہیں، یہ تو چیتھڑے ہیں۔ رضائی تو وہ ہے جو میں تمہارے لیے بنواتی ہوں لیکن میں نے ہی مان کر نہیں دیا تھا۔مجھے تو کمبل اور جدید رضائیاں چاہییں تھیں۔