ہوم << ایک ناگزیر سوال - مفتی منیب الرحمن

ایک ناگزیر سوال - مفتی منیب الرحمن

کہاجاتا ہے:’’رُوم جل رہا تھا اور نیرو چَین کی بانسری بجارہا تھا‘‘،سواگر ہمارا قومی مزاج بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر یہ فرض کرلینا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے تو’’گھرپھونک ،تماشا دیکھ‘‘کی اس نفسیاتی بیماری کا دنیا میںکوئی علاج نہیں ہے۔لیکن اگر ہم ایک حقیقت پسند قوم ہیں ،ملک وقوم کو درپیش خطرات اورحالات کا ہمیں احساس ہے ،تو ایک ناگزیر سوال ہمارے سر پہ کھڑا ہے کہ آیا ہمارا ملک اب بھی قابلِ حکمرانی ہے یا ایک ناقابلِ حکمرانی ریاست میں تبدیل ہورہاہے۔

ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب اور پختونخوا کے شہروں اور شاہراہوں میں بے امنی ، انتشار اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت تقریباً مفلوج اور محصور دکھائی دیتی ہے اور یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ اگر پنجاب کنٹرول میں نہیں ہے تو وفاقی حکومت مفلوج اور محصور نظر آئے گی۔عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے بعض لیڈر برملا اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں، کیونکہ بظاہر وفاق کی حکمرانی وفاقی دارالحکومت تک محدود ہے اور ائیرپورٹ، موٹرویز اور ہائی ویز تک رسائی بھی مَعرضِ خَطَر میں ہے، کبھی بحال ہوتی ہے اور کبھی بند کردی جاتی ہے۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ پنجاب اورپختونخوا کے صوبے وفاق کے مقابل کھڑے ہیں ، وفاق کو چیلنج کر رہے ہیں اور صوبائی پولس جو امن وامان کی ذمے دار ہے، وہ بھی معطل ہے ، مفلوج ہے یا صوبائی حکومت کے حکم پر قانون کی عمل داری کو مفلوج کرنے والے عناصر کو تحفظ دینے پر مامور ہے۔

جنابِ عمران خان ایک ضدی ، ہٹ دھرم ،منتقم مزاج اور زود رنج شخصیت میں ڈھل چکے ہیں، اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمہوری انداز میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ، مگر وہ اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں ، کبھی اسے امریکی سازش قرار دیتے ہیں اور کبھی مقتدرہ سے شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ انھوں نے میری حکومت کیوں نہ بچائی،چنانچہ وہ انھیں میر جعفر،میر صادق، ہینڈلر ،جانور ، نیوٹرل اورنہ جانے کیسے کیسے القاب سے نوازتے ہیں۔تاریخِ عالَم یہ بتاتی ہے کہ جب کوئی جذباتی ، منتقم مزاج ،انا پرست ،اپنی پارسائی اور برتری کا حدسے زیادہ یقین رکھنے والا حکمران یاسیاسی رہنما عوامی مقبولیت بھی پالے ، تو وہ فاشسٹ بن جاتا ہے ۔ماضی میں یورپ میں ہٹلر اور مسولینی عوامی مقبولیت کے بل پر ہی حکمران بنے اور پھرفاشسٹ بن کر اپنے ہی ملکوں کو تباہی سے دوچار کیا، کچھ ایسا ہی منظر ہم اپنے ہاں بھی دیکھ رہے ہیں ۔

جناب عمران خان کو مقتدرہ نے اپنی خصوصی مہارت سے پالا پوسا ،ان کی شخصیت کو بنایا سجایا، پھر سوشل میڈیا کو کمالِ مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اُن کاغیر معمولی تاثّر لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کے ذہنوں میں راسخ کیا ، پھر اقتدار میں لانے کے لیے تمام تدابیر اختیار کیں ، اُن کے مخالفین کو نشانِ عبرت بنایا ، اُن کے راستے کے کانٹے ایک ایک کر کے صاف کیے ، انھیں مکمل حمایت سے نوازا ، خود خان صاحب کے بقول ہر مشکل مرحلے میں وہ ان کی مددکو آئے ، جب ضرور ت محسوس ہوئی تو ارکانِ پارلیمنٹ کو گھیر کر اُن کی حمایت میں ووٹ دلانے کے لیے لائے۔

اب اس عادت سے چھٹکارا اُن کے بس میں نہ تھا، انھوں نے اپنے بارے میں فرض کرلیا کہ انھیں قدرت نے دائمی حکمرانی کے لیے بنایا ہے ، لہٰذا ریاست کے ہر ادارے ،ہرفرد ، ہر شعبے اور ہر عنصر کو ہمہ وقت اُن کی حمایت پر کمربستہ ہونا چاہیے، کیونکہ اُن کے خیال میں یہ اُن کا استحقاق ہے۔ اُن کی اپوزیشن ایسے حالات میں اقتدار میں آئی کہ عالمی اقتصادی صورتِ حال ناسازگار اور ابتر ہوگئی۔ ترقی یافتہ ممالک (امریکہ ،کینیڈا ،یورپین یونین ، برطانیہ وغیرہ )میں بھی منہگائی تاریخ کی ریکارڈ سطح پر ہے، توانائی (پٹرول ، ڈیزل اور بجلی وغیرہ) کی قیمتیں تمام انتہائوں کو عبور کرچکی ہیں،حال ہی میں ہمیں کینیڈا اور برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا ، وہاں بھی لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔

لیکن ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو عالمی محرکات کا اندازہ ہوتا ہے ، اُن کی ناگزیریت کا ادراک ہوتا ہے ، اس لیے اپنی حکومتوں کے بارے میں اُن کا ردّعمل قدرے متوازن ہوتا ہے ،جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں عوام کو عالمی رجحانات کا ادراک نہیں ہوتااور وہ ان چیزوں کو اپنی حکومت کی نا اہلی اور ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ شاید اب ماضی کی اپوزیشن والے پچھتارہے ہوں گے کہ یہ وقت اقتدار کو ہاتھ میں لینے کا نہیں تھا، لیکن :’’اب پچھتاوے کیا ہووَت ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘، اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو اس سال کی طوفانی بارشوں نے وہ بھی پوری کردی ، کیونکہ کہاجاتا ہے کہ ایسی تباہی کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی ، تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوگئے اور ایک اندازے کے مطابق تیس ارب ڈالر یعنی چھیاسٹھ کھرب روپے سے زیادہ کا اقتصادی نقصان ہوچکا ہے۔

جنابِ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے ہمارے نظام کے کھوکھلے پن کو خوب آشکار کیا۔ عدلیہ اور مقتدرہ سمیت اداروں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کو اپنا شعار بنالیا تھا ، اس لیے اسلام آباد میں بیٹھا ہوا حکمران ہر وقت لرزاں وترساں رہتا ہے، اُسے اپنے حال و مستقبل اور بے اختیاری وبے توقیری کی فکر لاحق رہتی ہے ،اُس کی قُویٰ مضمحل رہتی ہیں،بیوروکریسی بھی ڈری سہمی رہتی ہے کہ کہیں کل ہمیں ہی انتقام کا نشانہ نہ بنادیا جائے ۔الغرض فیصلہ سازی کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب ہیئتِ حاکمہ متضاد عناصر کا مجموعہ ہو، ہر شریکِ حکومت پہلے سے سمٹے ہوئے خوانِ اقتدار سے زیادہ سے زیادہ سمیٹ لینے کی فکر میں ہو ،تو انجام نوشتۂ دیواربن جاتا ہے ۔ چھوٹے گروپ ہر وقت بلیک میل کرتے رہتے ہیں ، کیونکہ حکومت کی بقا کے لیے توازن اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ اگر وہ حمایت واپس لے لیں تو حکومت دھڑام سے گر جائے۔

خان صاحب نے مقتدرہ کو اتنا بے توقیر کردیا ہے کہ اُن کا رعب ودبدبہ تو دور کی بات ہے ،بھرم بھی باقی نہیں رہا، ماضی کے پچھتر سالوں میں مقتدرہ کی اتنی بے توقیری کبھی نہیں ہوئی تھی ، اگرچہ یہ خود ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، انھیں کسی اور سے گِلہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(۱)’’ لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب برّوبحر میںفساد برپا ہوگیاتاکہ اللہ انھیں اُن کے بعض اعمال کی سزا چکھائے ، ہوسکتا ہے کہ وہ باز آجائیں ،(الروم:41)‘‘، (۲)’’اللہ ایک بستی کی مثال بیان فرماتاہے جو پرامن اور پرسکون تھی ، ہرجگہ سے اُس کی روزی اُس کے پاس وافر مقدار میں آتی تھی ، پھر اس بستی والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اس بستی والوں کو ان کے کرتوتوں کے سبب بھوک اور خوف کا عذاب چکھایا ،(النحل:112)‘‘۔اس آیت میں بھوک اورخوف کو لباس سے تشبیہ دی ،لباس اپنے پہننے والے کے وجود کو گھیر لیتا ہے، یعنی اسی طرح بھوک اور خوف نے ان کے وجود کو گھیر رکھا ہے ،نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ (اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے:وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے یا تمھارے پائوں کے نیچے سے کوئی عذاب بھیجے یا تمھیں مختلف گروہ بناکر ایک دوسرے کو تشدّد کا مزا چکھائے، دیکھو! کس طرح سے ہم (اپنی) نشانیاں بار بار بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں ، (الانعام:65)‘‘۔ مفسرین کرام نے لکھا:’’اوپر سے عذاب سے مراد یہ ہے کہ حکمران ظالم ہوجائیں اور نیچے کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ ماتحت نافرمان ہوجائیں یا اوپر سے طوفانی بارشیں برسیں اور نیچے سے سیلاب برپا ہوں یا زلزلے آئیں ، اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔

الغرض اس وقت ہمارا ملک انارکی ، بدنظمی ، انتشار اور اقتدار کی بے توقیری کا منظر پیش کر رہا ہے، اقوامِ عالَم بھی اس کا مشاہدہ کر رہی ہیں، جب اقتدار ڈانواں ڈول ہوتو ایسے حالات میں کون ہم سے معاملہ کرے گااور کس سے معاملہ کرے گا۔ متبادل قوت عمران خان نے تو دنیا کے سامنے اپنامنفی تاثّرپیش کیا ہے،وہ ایک مغلوب الغضب اور منتقم مزاج بن کر سامنے آئے ہیں ،جبکہ قیادت کی اہلیت کے لیے قائد کی شخصیت کا متحمل مزاج،بُردبار اور مُدَبِّرہونا ضروری ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عدلیہ اداروں کے دائرۂ کار واختیار میں توازن کی ضامن ہوتی ہے ، مگر ہمارے ہاں 2007کی عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں جو آزاد عدلیہ وجود میں آئی ،وہ خود غیر متوازن ہوگئی ،پارلیمنٹ اورمنتظمہ کے دائرۂ اختیار میں تجاوزات کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔

نیویارک، واشنگٹن ، لندن یا کسی ترقی یافتہ ملک کے کسی بڑے شہر میں کھڑے ہوکر لوگوں سے اُس ملک کی سپریم کورٹ یا چیف جسٹس یا جج صاحبان کے نام پوچھیں تو ہمیں سوفیصد یقین ہے کہ ایک فیصد لوگوں کو بھی ان کے نام معلوم نہیں ہوں گے، مگر ہمارے ہاں روزٹی وی اسکرین پر ٹِکرچلنا ضروری ہیں ۔جسٹس افتخار محمد چودھری ، جسٹس ثاقب نثار ،جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے جو تاثّر چھوڑا، وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اب بھی عدلیہ کے مزاج میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔ایک المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مقتدرہ اور عدلیہ حقیقی معنوں میں کسی کو جواب دہ نہیں ہیں، اگر وہ اپنے دائرۂ کار سے تجاوز کریں تو اُن کے لیے تحدید وتوازن کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے ، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو کو تو ویسے ہی بے توقیر بنادیا گیا ہے، اس بے توقیری میں ان کا اپنا کردار بھی شامل ہے،ظہیر دہلوی نے کہا ہے:

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں، جنوں کے آثار

اور کچھ لوگ بھی ،دیوانہ بنادیتے ہیں

الغرض ملک میں بے یقینی کے سائے چھائے ہوئے ہیں ، کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ، کسی کو نہیں معلوم کہ ہمارا آنے والا کل کیسا ہوگا، ہمارے حال سے بدتر ہوگا یا پردۂ غیب سے کوئی خیر کی صورت پیدا ہوگی ،خداوندِ قدّوس ذاتِ مُسَبِّبُ الاسباب سے بصد اخلاص وعَجز ونیاز دعا ہے کہ وہ اپنے حبیبِ مکرّم ﷺ کے طفیل ہمارے ملک وقوم کے لیے کوئی خیر کی صورت مقدر فرمائے، ورنہ ظاہری اسباب مایوس کن ہیں،جس وقت ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں، امریکی انتخابات کے نتائج ریپبلکن پارٹی کے حق میں ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اُسے غلبہ حاصل ہوسکتا ہے،اگر ایسا ہوا تو صدر بائیڈن کواپنی مَن پسند پالیسیاں بنانے میں دشواری ہوگی،اس کا اثرپاکستان سمیت عالمی سیاست پر پڑے گا۔