ہوم << ڈے منائیں نہیں اقبال کو سمجھیں - حبیب الرحمن

ڈے منائیں نہیں اقبال کو سمجھیں - حبیب الرحمن

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اسمارٹ موبائل اب اسقدر عام ہو گیا ہے کہ ہر چھوٹے، بڑے، بزرگ اور بچے کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نہایت کم عمر کے ایسے بچے جو ابھی بولنا بھی نہیں جانتے اورعمر رسیدہ ایسے بزرگ جو کبھی آج کی جدید ٹیکنالوجی کے قریب سے بھی نہیں گزرے، فی زمانہ وہ بھی اسمارٹ فون کے سارے فیچرز کو بآسانی سمجھنے لگے ہیں.

اور اپنی دلچسپی کے مطابق تمام وہ پروگرام جو ان کے مزاج سے ہم آہنگی رکھتے ہوں، ان تک رسائی حاصل کر لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جہاں اس ٹیکنالوجی کی بہت بڑے بڑے منفی پہلو سامنے آ رہے ہیں وہیں اس سے وہ ساری مثبت معلومات بھی حاصل ہو رہی ہیں جو یا تو بزرگوں، عالموں، دانشوروں، شعرا اور ادبا کی محفلوں میں بیٹھنے، سننے اور سنانے سے حاصل ہوا کرتی تھیں یا پھر اخبارات، رسالوں یا کتابوں سے کشید کی جا سکتی تھیں۔ آپ چاہیں دن بھر خبریں سنیں، دلچسپی کے ایسے پروگرام جن کو آپ کسی صورت بھی دیکھے یا سنے بغیر چھوڑ دینا گوارہ نہ کرتے ہوں، چھوٹ جانے پر کسی بھی فارغ وقت میں سماجی سائیڈ پر دوبارہ بھی دیکھیں۔ المختصر یہ کہ ایک دنیا ہے جو فضاؤں اور خلاؤں میں آباد کردی گئی ہے اور پھر سب کچھ آپ کی صوابِ دید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ آپ جنتوں کی سیر کرنا چاہتے ہیں یا جہنم کے آتشی ستونوں اور ابلتے ہوئے گرم چشموں کے گرد گھومتے رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔

انٹر نیٹ کی اس دنیا میں کچھ تو صرف ایسے پروگرام ہیں جس سے آپ ذاتی تسکین یا خوشیاں حاصل کر سکتے ہیں لیکن بیشمار ایسے بھی چھوٹے بڑے کلپس یا ڈرامے ہیں جو آپ کے اندر انسان اور انسانیت سے محبت کی تڑپ کو مہمیز دیتے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے عابدوں اور زاہدوں کی عبادات کا ذکر بھی ہے۔ اپنے اپنے مذاہب کے مطابق ان گنت پند و نصح اور وعظ و فتٰویٰ کا ہجوم بھی۔ یہ سب باتیں ہدایتیں اور نصیحتیں ہمیں نیکی و بھلائی کی جانب دعوت دیتی اور ایمان کو تازہ کرتی ہوئی دکھائی تو ضرور دیتی ہیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک کوئی انسان کسی کو عملی میدان میں وہی کچھ کرتا ہوا نہ دیکھ لے جو وہ سننتا اور پڑھتا آ رہا ہے اس وقت تک دل کے اندر وہ جذبہ ہمدردی و انسانیت کو ابھرتا محسوس نہیں کر پاتا جو ان تمام عبادات، پند و نصح اور ہدایات کا نتیجہ ہونا چاہیے۔

اگر عبادات کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس کو ایک "جوان" کی اس تربیت کے مراحل سے تعبیر کر سکتے ہیں جو اس کو جسمانی اور ذہنی لحاظ سے ان آزمائشوں اور قربانیوں کیلئے تیار کر رہی ہوتی ہیں جو کسی بھی وقت اس کے ملک کی اندرونی و بیرونی سرحدوں کی حفاظت کیلئے پیش آ سکتی ہیں۔ اس کی تمام ورزشیں، سخت جسمانی تربیت، کئی کئی میل بھاگنا، مخدوش راستوں پر سفر، پہاڑوں پر چڑھنا، بلندیوں سے چھلانگیں لگانا، جنگی ہتھیاروں کا استعمال، نہایت گرم اور نہایت سرد علاقوں میں قیام جیسے جتنے بھی مراحل ہیں، یہ سب عبادتوں کی طرح ہوتے ہیں جبکہ اس کا عملی مظاہرہ، دشمن سے مقابلہ، ملک میں قدرتی آفات کے موقع پر برق رفتار سے آفت زدہ علاقوں تک رسائی، خلفشار اور بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال دینا جیسے سارے ایکشن در اصل ان ہی عبادات یعنی "تربیت" ہی کی وجہ سے سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ تاریخ میں کسی جوان کی سخت ورزشوں یا محنت کا ذکر نہیں آتا بلکہ تاریخ ان کی فتوحات و شکست سے مزین ہوا کرتی ہے۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی ایک سولجر بھی محض اس لئے بھرتی کر لیا جائے کہ کسی بہت بڑے انسان کی سفارش آئی ہو۔ اگر ایسا کر بھی لیا جائے تو کیا آزمائشوں کے موقعوں پر وہ کوئی کار کردگی دکھانے کے قابل ہو سکے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب "نہیں" کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم اپنے اسمارٹ فون میں ہزاروں عابدوں اور زاہدوں کے قصے سننے اور دیکھتے ہونگے لیکن ہمارے اعصاب کو وہی کلپس اور ڈرامے جھنجوڑتے ہیں جس میں کسی مستحق، مظلوم یا بے کس کی مدد کی جارہی ہو، کسی کے گری ہوئی رقم واپس کی جا رہی ہو، کسی کے دکھ میں شریک ہوا جا رہا ہو، شیطانی قوتوں کے خلاف پنجہ آزمائی ہو رہی ہو کسی نادار کیلئے کھانے پینے کا انتظام کیا جا رہا ہو یا کسی کی خاطر اپنی انا کی قربانی دی جا رہی ہو۔ ایسا محض اس لئے ہوتا ہے کہ ہماری عبادتیں ہوں یا محکمہ جاتی تربیتیں، وہ سب ہمیں ایک عملی انسان بنانے کیلئے تیار کر رہی ہوتی ہیں اور جب تک وہ عبادتیں یا تربیتیں کسی کے کام نہ آ سکیں تو ایسی عبادتیں یا تربیتی کسی کیلئے کوئی کشش نہیں رکھا کرتیں۔

یہی ساری عبادتیں اور تربیتیں اس بات کی تاکید کر رہی ہوتی ہیں کہ لوگوں کو ان کی اہلیت اور قابلیت کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے نہ کہ ان کے جاہ و حشم، امارت، نسل، نسب اور سفارش کو معیار بنایا جائے۔ جن قوموں نے ہر شعبہ زندگی میں کسی کو مقام دینے یا منتخب کرنے میں معیار اہلیت اور قابلیت کو بنایا ہوا ہے، آج وہی پوری دنیا پر راج کر رہی ہیں۔

ایک ہم ہیں کہ ایک اسلامی حکومت کہلاتے ہوئے بھی عرب و عجم، مقامی و غیر مقامی، انصاری و مہاجر کی تفریق میں مبتلا ہیں اور اہلیت کو تیسری درجے میں بھی شامل کرنے کو تیار نہیں اور ایک اہل کفر ہیں کہ وہاں کراچی نژاد ٹرک ڈرئیور کا بیٹا لندن کا میئر اور بھارتی نژاد ملک کا وزیر اعظم بنانے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہی ان کی ترقی و خوشحالی کا اور ہماری تباہ حالی کا سبب ہے۔ علامہ اقبال جواب شکوہ میں فرماتے ہیں کہ

کیا کہا بہرِ مسلماں ہے فقط وعدہ حور

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور

مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

کاش اقبال ڈے منانے والوں کے دلوں میں کامیابی و کامرانی کا یہ راز آشکار ہو جائے اور ہم عرب و عجم کی تفریق کو اسی طرح بھلانے میں کامیاب ہو جائیں جیسا کے آج کل اہل یورپ نے بھلا کر اپنے آپ کو "مسلم آئیں" بنایا ہوا ہے۔

Comments

Click here to post a comment