ہوم << نہایت غیر مناسب جواب - حبیب الرحمن

نہایت غیر مناسب جواب - حبیب الرحمن

کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی تبلیغ تو السلام کی کر رہا ہو اور اس کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کہ آپ کی جد و جہد کے نتیجے میں اسلام کو غلبہ ملنے کی بجائے اہلِ کفر غالب آجائیں تو؟، جس پر آپ کا جواب اگر یہ ہو کہ "آجائیں مجھے کیا فرق پڑے گا" تو کیا یہ جواب کہیں سے کہیں دانشمندانہ ہوگا۔

وہ تمام گروہ جو آپ کے ساتھ سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اور جان و مال کی قربانیاں دینے کیلے کمر بستہ ہیں، ان کو مایوسی نہیں ہوگی۔ آپ کے ساتھ چلنے والے تو اپنا سب کچھ تج کر محض اس لئے آپ کے ساتھ ہو لئے تھے کہ آپ کی منزل اسلام ہے لیکن آپ اس پر بھی خفا نہیں ہیں کہ آپ کی جد و جہد کے نتیجے میں یہود و ہنود غالب آتے ہیں تو آجائیں کیونکہ اس سے آپ کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ایک ایسا رہنما جس کے پیچھے پاکستان کے عوام کا ایک جمِ غفیر ہو، پیچھے پیچھے چلنے والے بنا غرض اور لالچ، محض اس لئے اس کے ساتھ چلنے اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہوں کہ وہ ان کو چوروں اور ڈاکووں کے ٹولوں سے نجات دلوائے گا، ملک کو لوٹنے والوں کو ان کے اصل انجام سے دوچار کرے گا، اسٹبلشمنٹ کی منفی حمایت سے بننے والی حکومت کا خاتمہ کرے گا.

پاکستان کو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں غلام نہیں بننے دے گا، پرانے پاکستان کو ایک نئی بہار دے گا، پاکستان کو حقیقی جمہوریت سے روشناس کرائے گا، لوگوں کے گلے میں پڑے ہوئے غلامی کے طوق کھلوا کر ہر قسم کی بولنے اور اظہار رائے کی حقیقی آزادی دلوائے گا اور 75م برسوں سے خفیہ طاقتوں کے ان ہاتھوں کو قلم کر دے گا جو ہر حکمران کی گردن کو جکڑے ہوئے رہتے ہیں اور پسِ پردہ حکمرانی کرکے عوامی نمائندوں کو اپنی یعنی عوام کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرنے دیتے۔ لوگوں کا عالم یہ ہے کہ جہاں جہاں سے بھی خان صاحب کا قافلہ گزرتا ہے، لوگ گھروں سے نکل کر شاہ راہوں کے کنارے جمع ہو کر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں، جو ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں، قافلے کے ہمراہ ہو لیتے ہیں اور جو چل نہیں سکتے وہ دعاؤں پر دعائیں دے رہے ہوتے ہیں۔

ہر دل یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ خان ان کے نجات دہندہ ہیں اور وہ بہر صورت ان کو چوروں اور ڈاکووں سے نجات دلا کر ہی اسلام آباد سے لوٹیں گے۔ عام انسانوں کی یہ سوچ اور خان صاحب کا یہ جواب کہ اگر "ملک میں مارشل لا لگتا ہے تو لگے"۔ جواب اگر اتنا ہی ہوتا کہ "ملک میں مارشل لا لگتا ہے تو لگے" تو شاید قابلِ برداشت بھی ہوتا لیکن اس کے آگے یہ کہنا کہ "مجھے اس سے کیا فرق پڑے گا"، نہایت اذیت ناک ہے۔ خان صاحب نے درست ہی کہا ہے کہ مارشل ہی کیا اگر پاکستان پر خدا نخواستہ، پاکستانیوں کی بجائے بھارتی، چینی، روسی یا امریکی حکمرانی بھی آ جائے تو وہ اشرافیہ کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں یا ملحدوں کے آنے جانے سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا کرتا۔ جب پورا برِ صغیر فرنگیوں کی حکمرانی میں تھا تو تاریخ گواہ ہے کہ خان صاحب جیسے صاحب حیثیت خاندانوں کی زندگی پر کوئی منفی اثر نہیں تھا۔

آج کل بھی پاکستان میں جو بڑے بڑے رؤسا، سرمایادار، مل مالکان، سردار، وڈیرے، نواب، ملک، چوہدری اور حرام کی دولت حاصل کرنے والے ہیں کیا ان کو کسی ملیٹری ڈکٹیٹر، آمر، صدر یا وزیر اعظم کے آنے جانے سے کبھی کوئی فرق پڑا ہے۔ بے شک ملک غربت کا شکار ہو جائے، معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے، لوگ نانِ شبینہ تک کے محتاج ہو جائیں، لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشیوں پر مجبور ہوں، اپنی اولادوں کو فروخت کرنے لگیں، بیماریوں سے مرنے لگیں، چوروں اور ڈاکووں کے ہاتھوں لٹ نے لگیں یا گلی گلی قتل و غارت گری میں موت کو گلے لگاتے رہیں، کبھی ایسی حیثیت والے خاندانوں کو کوئی فرق پڑا ہے۔

دعویٰ تو یہ کیا جا رہا تھا کہ میں قوم کو حقیقی آزادی دلوا کر رہوں گا لیکن معلوم ہوا کہ وہی دھوکے اور فریب جو قوم پاکستان بننے سے پہلے کھاتی چلی آ رہی ہے، روپ بدل بدل کر قوم کو دیئے جا رہے ہیں اور ہر مرتبہ قوم فریب پر فریب کھائے جا رہی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ مکانات سے شروع ہونے والے دھوکے کا سلسلہ، نیا پاکستان، ریاست مدینہ سے چلتا ہوا حقیقی آزادی دلانے کے دھوکے سے گزرتا ہوا اب "مارشل لا" لگائے جانے کی جانب محوِ سفر ہے لیکن اس کے باوجود بھی کوئی ایک فرد یہ نہیں کہہ سکتا دھوکا دیتے رہنے کا یہ سلسلہ کسی منزل پر رکے گا بھی یا گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر قوم کو مایوسی کی ایسی دوزخ کی جانب لے جائے گا جہاں، آگ، پیپ، خون، اور خاردار غذا کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو گا۔

جس قوم کے رہنما کا یہ حال ہو کہ وہ قوم کو آزادی کے نام پر ایک ایسی آمریت کے مسلط ہوجانے کے احتمال کو دیکھتے ہوئے بھی اس عذاب سے بچانے کے عزم کا اظہار کرنے کی بجائے اس کی قبولیت پر بھی خوش ہو وہ بہر صورت قوم کا رہبر نہیں قزاق ہی ہو سکتا ہے جو قوم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر یہ کہے کہ قوم ڈوبتی ہے تو ڈوبے، جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے تو گھونٹ دیا جائے، لوگ بد ترین آمریت کا شکار ہوتے ہیں تو ہوا کریں، ان سے آزادی اظہار کا حق چھین لیا جاتا ہے تو چھین لیا جائے، سارے ٹی وی چینل، اخبارات، رسالے اور ریڈیو کسی ایک ظالم کی مٹھی میں آتے ہیں تو آجائیں مجھے اس سے کیا کیونکہ اس سے میری ذاتی زندگی پر کیا فرق پڑے گا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ قوم خود فیصلہ کرے کہ ان کا لیڈر حقیقی آزادی کے نام پر اسے کس جانب دھکیلے لئے جا رہا ہے۔ اگر قوم نے اس بات پر غور نہیں کیا تو یہ تاریخ کی بہت بڑی غلطی ہوگی اور یاد رہے کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کیا کرتی۔

Comments

Click here to post a comment