حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خَاتِمُ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تک تمام انبیائے کرام ورُسلِ عظام علیہم السلام دینِ اسلام کے داعی اور علمبردار تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:بے شک اللہ کے نزدیک (پسندیدہ) دین اسلام ہے،(آل عمران:19)‘‘، نیز فرمایا: ’’اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گاتو اُس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا، (آل عمران: 85)‘‘۔ الغرض دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہ ہے اسلام، البتہ مختلف انبیائے کرام ورُسُلِ عظام کے ادوار میں شرعی احکام میں حذف واضافہ ، ترمیم وتنسیخ اور ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا ہے تاآنکہ خاتم النبیّٖن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ، اب آپ کی شریعت تمام سابقہ شرائع کی خاتِم ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ناقابلِ تبدیل ،حتمی ،قطعی اور آخری منشورِ حیات ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اس نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیاہے جس کاحکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جو ہم نے وحی کے ذریعے آپ کی طرف بھیجا اور اسی کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیاتھا(اور تاکید کی تھی ) کہ تم اس دین کو قائم رکھنا اور اس کے بارے میں تفرقہ نہ ڈالنا ،جس دینِ(توحید) کی طرف آپ مشرکوں کو بلارہے ہیں، وہ اُن پر بہت بھاری (اورشاقّ ) ہے، اللہ جسے چاہتا ہے ،اس دین پر جمع فرمادیتا ہے اور جواس کی طرف رجوع کرتا ہے، اِس دین کی طرف اُس کی رہنمائی فرماتا ہے، (الشوریٰ:13)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تکمیلِ دین کا اعلان فرمایا:’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کومکمل کردیاہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمالیا ہے، (المائدہ:3)‘‘،نیز فرمایا : ’’اُس نے اس سے پہلے اور اس قرآن میں بھی تمہارا نام مُسلم رکھا ہے تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو جائو، (الحج:78)‘‘۔
جب اعلانِ نبوت ہوا تو حجاز میںتین بڑے گروہ یہود ، نصاریٰ اور مشرکینِ مکہ اپنے آپ کو ملتِ ابراہیمی کی طرف منسوب کرتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی، بلکہ وہ ہرباطل سے یکسو ہوکر خالص مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے (بھی ) نہ تھے، (آل عمران: 67)‘‘۔ اسی طرح تعمیر کعبہ کے بعد حضرات ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے دعا کی: ’’اے ہمارے رب! اور ہمیں خاص اپنی فرمانبرداری (اسلام)پر برقرار رکھ اور ہماری اولاد میں سے (بھی) امتِ مسلمہ پیدا فرما،(البقرہ:128)‘‘، آیت میں ’’مُسْلِمَیْن‘‘اور’’اُمَّۃً مُّسْلِمۃً‘‘کے کلمات ارشاد فرمائے گئے ہیں۔
جب ہم ’’اَھلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کا عنوان اختیار کرتے ہیں ،تو لبرل سادہ لوح لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں کہ گویا یہ اسلام کے مقابل کوئی تصورِ دین ہے،ایسا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ ہمارے نزدیک یہ دینِ اسلام کی صحیح ترین تعبیر ہے جو حدیثِ مبارک سے اخذ کی گئی ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی کہ پچھلی امتوں کی طرح میری امت بھی فرقوں میں بٹ جائے گی ،تو آپ سے سوال ہوا:’’ ان میں سے نجات پانے والا فرقہ کونسا ہوگا‘‘،آپ ﷺ نے فرمایا:’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘،جو میری اور میرے اَصحاب کی راہ پر چلے گا، ( ترمذی:2641)‘‘۔ ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ ‘‘کو سنّت سے تعبیر کیا گیا ہے اور ’’اَصْحَابِی‘‘کو جماعت سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اس امت میں انبیائے کرام اورذاتِ رسالت مآب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد انسانیت کا سب سے قیمتی اثاثہ صحابہ کرام کی جماعت ہے.
جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّم ﷺکی صحابیت کے شرف سے مشرّف فرمایا، ان میں وہ اہلِ بیت اطہار بھی شامل ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں موجود تھے اور آپ سے نسبتِ قرابت کے ساتھ ساتھ شرفِ صحابیت سے بھی مشرّف ہوئے،اسی عہد کو رسول اللہ ﷺنیخَیْرُ الْقُرُوْن سے تعبیر فرمایا ، احادیثِ مبارکہ میں ہے:(۱) ’’اللہ تعالیٰ کا دستِ تائید جماعت پر ہے، (نسائی:4020)‘‘،(۲) ’’جماعت سے وابستگی کو لازم پکڑو، ( ترمذی:2165)‘‘،(۳) ’’بے شک میری امت( بحیثیتِ مجموعی ) گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، پس جب تم اختلاف دیکھو توسوادِ اعظم سے وابستہ رہو،( ابن ماجہ: 3950)‘‘، (۴)’’بے شک شیطان انسان کے لیے بھیڑیاہے، جیسے بکریوںکے لیے بھیڑیا ،وہ اُس بکری کو شکار کرتا ہے جو ریوڑ سے دور چلی جاتی ہے اور ایک جانب نکل جاتی ہے ، پس تم گروہ بندی سے بچ کر رہو اورجماعت وعَامّۃ المسلمین اور مسجد کو لازم پکڑو، (مسند احمد:22029)‘‘۔امام احمد رضا قادری نے بطورِ تفاخر وتشکُّر اہلِ سنّت کے عنوان کو اختیار کیا ہے:
اہل سنّت کا ہے بیڑا پار، اصحابِ حضور نجم ہیں اور نائو ہے، عترت رسول اللہ کی آج کل بھی ہم بعض اوقات اختصار کے طور پر ’’اہلسنّت ‘‘ کا عنوان اختیار کرتے ہیں ، اس سے مراد اہلسنّت وجماعت ہی ہوتا ہے، امام اہلسنّت کا یہ شعر دو حدیثوں کا مجموعہ ہے:(۱)’’میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ،تم جس کی بھی پیروی کرو گے ،ہدایت یافتہ ہوگے‘‘، یہ حدیث معنی کی وحدت اور الفاظ کے فرق کے ساتھ متعدد کتبِ احادیث میں روایت کی گئی ہے، (۲)’’میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی سی ہے، جو اس میں سوار ہوا ،نجات پاگیااورجو اس سے پیچھے رہ گیا،وہ ہلاک ہوگیا، (المستدرک : 3312)‘‘۔’’سنّت سے مراد دین پر چلنے کی وہ راہ ہے، جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اقوالِ مبارکہ،افعالِ مبارکہ اور احوالِ مبارکہ کے ذریعے امّت کی اتباع کے لیے مقرر فرمائی، اہلسنّت وجماعت اس آیت کا بھی مصداق ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور جو شخص اپنے اوپر ہدایت واضح ہونے کے باوجود رسول اللہ کی مخالفت کرے اور وہ مسلمانوں کے راستے سے ہٹ کرالگ راستے پر چلے تو ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور (قیامت کے دن) اسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے، (النسآء:115)‘‘۔اس آیت میں بھی اتباعِ سنّت اور سبیلِ مومنین سے انحراف کرنے والے کو جہنم کاسزاوار قرار دیا گیا ہے۔
ہم نے 28اور 30جولائی2022کو ’’اسلام کو بھارتیانے کا ناپاک منصوبہ ‘‘کے عنوان سے دو کالم لکھے تھے اور ان میں بتایا تھا کہ دشمنانِ دین کے نزدیک مسلمانوں کی طاقت کا راز امت سے وابستہ رہنے میں ہے، اس لیے متعصب ہندوئوں نے کہا:’’اگر مسلمانوں کو بھارت میں پرامن طور پر رہنا ہے تو اُمّت کا تصور چھوڑ دیں‘‘، سو ہم عالمی سطح پر امت کا لازمی حصہ ہیں اور اس حوالے سے ہمارا عنوان ’’اَھْلُ السُّنَّہ وَالْجَمَاعَہ‘‘ ہے،بریلی امام احمد رضا قادری کا وطنِ مالوف اور جائے پیدائش ہے ،یہ مذہب ومسلک کا نام نہیں ہے، اس لیے ہمیں اپنے مسلک کا تعارف اہلسنّت وجماعت کے عنوان سے کرنا چاہیے ، نہ کہ ہم اپنے آپ کو مسلکاً ’’بریلوی‘‘ کہلائیں، اس پر ایک بزرگ نے، اللہ انھیں صحت وسلامتی کے ساتھ درازیِ عمر عطا فرمائے ،ناراضی کا اظہار فرمایا،سو اُن کے اطمینانِ قلب کے لیے ہم اکابرِ اہلسنّت کے چند شواہد پیش کررہے ہیں:
نبیرۂ امامِ اہلسنّت ،تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں القادری الازہری اپنے عربی رسالے ’’حَقِیْقَۃُ الْبَریلَوِیّہ‘‘ میںلکھا: ’’اہلسنّت وجماعت کو بریلویت سے منسوب کرنا ہندوستان کے دیوبندی حضرات اورجواہلسنّت کی عداوت میں اس راہ پر چلے ،اُن سب کا طریقۂ کار ہے، الحمد للہ! ہم اس تہمت سے بری ہیں اور ہم بریلویت کو دین اور ملتِ جدیدہ کے طور پر اختیار نہیں کرتے، ہم سیّدالمرسلین ﷺ کی روشن ملّت کا حصہ ہیں، جس کی رات دن کی مانند روشن ہے ،ہم ہمیشہ سے اہلسنّت رہے ہیں ،اہلسنّت کے اندر شامل رہے ہیں اور اہلسنّت کے ساتھ رہے ہیں‘‘، مزید لکھتے ہیں:’’ہم صوفیہ صافیہ ہیں اور اہلسنّت وجماعت کا سوادِ اعظم ہیں،سلَف سے خَلَف تک جو اہلسنّت طریقۂ صوفیہ پر رہے ہیں، اگرچہ ان سب کا بریلی کے علماء سے نہ تَلَمُّذ کا رشتہ ہے، نہ طریقت کا ، بس انھوں نے امام ِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی کی طرف منسوب کر کے ’’بریلویہ‘‘کہنا شروع کردیا،(الحق المبین عربی ،ص:3)‘‘۔
تاج الشریعہ سے سوال ہوا: ’’پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض دیوبندی ،کیا یہ اچھی بات ہے؟‘‘،انھوں نے فرمایا:’’بریلوی کوئی مسلک نہیں ہے، ہم مسلمان ہیں، اہلسنّت وجماعت ہیں، ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں، اصحابِ رسول کا ادب کرتے ہیں،اہلِ بیتِ اطہار سے محبت کرتے ہیں، اولیاء اللہ سے عقیدت رکھتے ہیں ، فقہ میں ہم امام اعظم ابوحنیفہ کے مقلّد ہیں، ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں سمجھتے، ہمارے مخالف ہمیں ’’بریلوی‘‘ کہتے ہیں،(ضیائے حرم لاہور،ص:14،فروری1986ء)۔سعودی عرب میں گرفتاری کے بعد وہاں کی ایجنسی سے گفتگو کے دوران انھوں نے فرمایا:’’ہم پر کچھ لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ہم اور قادیانی ایک ہیں، یہ غلط ہے اور وہی لوگ ہمیں بریلوی بھی کہتے ہیں، جس سے وہم ہوتا ہے کہ بریلوی کسی نئے مذہب کا نام ہے، ایسا نہیں ہے.
بلکہ ہم اہلسنت و جماعت ہیں،‘‘،مزید لکھتے ہیں:’’بریلویت کوئی نیا مذہب نہیں ہے، ہم لوگ اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں،(حیات تاج الشریعہ ، ص:42،بحوالہ عرفان مسلک و مذہب،ص:45)‘‘۔ علامہ محمود احمد رفاقتی اشرفی قادری لکھتے ہیں:’’1960ء کے ماہنامہ پاسبان الٰہ آباد کے باب الاستفتاء میں حضرت سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہٗ کا فتویٰ شائع ہوا تھا، اس میں حضرت نے تحریر فرمایا تھا: ’’جب اہلِ سنت کو بریلوی کہہ کر خطاب کیا جائے تو اس جدید خطاب سے شدّت کے ساتھ انکار کیا جائے، ہم وہی چودہ سو سالہ قدیم اہلسنّت وجماعت ہیں، مخالفین اہلسنّت کو بریلوی کہتے ہیں،(اہلسنت میں اختلاف وتفریق کے المناک واقعات، ص:136)۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد لکھتے ہیں:’’ امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ ’’بریلوی‘‘ فرقے کے بانی ہیں۔ تاریخ میں بریلوی کوئی فرقہ نہیں، بلکہ سوادِ اعظم اہل سنّت کے مسلکِ قدیم کو عُرفِ عام میں ’’بریلویت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کو ’’بریلویت‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابویحییٰ امام خاں نوشہروی ’’یہ نام اہلِ حدیث کا دیا ہوا ہے‘‘۔
پروفیسر ڈاکٹر جمال الدین (جامعہ ملیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے :’’یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ امام احمد رضا خاں بریلوی نے پوری قوت کے ساتھ سوادِ اعظم اہل سنّت کے اس عالمی مسلک کی حفاظت اور مدافعت فرمائی اور اس کو دشمنوں کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دیا، (آئینۂ رضویات، ص:300،مطبوعہ: ادارہ تحقیقات امام احمد رضا )۔(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے