’’مجھے آپ سے اختلاف ہے‘‘ اس کی آواز میں توانائی اور جذبہ تھا‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’اختلاف ضرور ہونا چاہیے‘ انسان اللہ تعالیٰ سے بھی شکوہ کرتا ہے‘ میں اور آپ کیا ہیں؟‘‘ وہ رکا‘ ہنسا اور بولا ’’آپ مجھے فلسفہ بے غیرتی سکھا رہے ہیں‘ میں موت کو کمپرومائز پر فوقیت دوں گا‘‘ اس کی آواز میں یقین تھا‘ میری ذات میں تین بڑی خامیاں ہیں۔
میں کسی بھی شخص کو اس وقت تک مشورہ نہیںدیتا جب تک وہ مشورہ مانگتا نہیں ہے‘ دوسرا جب کوئی شخص پورے یقین کے ساتھ بات کر رہا ہو تو میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں‘ بحث نہیں کرتا اور تیسرا میں سروائیول کو اہمیت دیتا ہوں‘ میرا خیال ہے انسان کا سب سے بڑا کمال اس کی سروائیول ہے‘ ہم ہر قسم کے حالات میں سروائیو کر جاتے ہیں۔ امریکا نے 1945 میں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹمی حملہ کیا تھا لیکن حملے سے اگلے دن بھی یہ دونوں شہر کھلے تھے اور لوگوں نے مارکیٹ سے اس دن بھی خریداری کی تھی‘ کھانا بھی کھایا تھا‘سڑکوں پر گاڑیاں بھی چلی تھیں اور لوگ دفتروں میں بھی گئے تھے۔
یہ ہے انسان‘ ہم انسان چرنوبل کے ایٹمی دوزخ میں گھس کر اس کی ری پیئرنگ بھی کرتے ہیں اور واپسی پر اسٹریچر پر لیٹے لیٹے کوکا کولا بھی پیتے ہیں لہٰذا انسان سروائیو کرتا ہے‘ یہ آگے بڑھتا ہے۔میرا خیال ہے آپ اگر ٹیپو سلطان یا طارق بن زیاد ہیں تو آپ بے شک اپنی ساری کشتیاں جلا دیں اور شیر کی طرح ایک دن کی زندگی گزار کر چلے جائیں لیکن آپ اگر عام انسان ہیں تو پھر آپ کو کشتیاں جلانے اور تلوار سے توپ کا مقابلہ کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے اور میں اس دن ارشد شریف کو یہی بتا رہا تھا۔میں اس سے عرض کر رہا تھا‘ آپ نے دو غلطیاں کیں‘ آپ کو شہزاد اکبر کی ہر فائل سے انقلاب طلوع ہوتا دکھائی دیتا تھا اور آپ یقین کی عمرانی منزل پر پہنچ کر یہ بھول گئے تھے ریاست حقائق اور بیانیے سے بڑی ہوتی ہے.
یہ ایک وقت میں مجاہدین کی انڈسٹری بن جاتی ہے۔یہ نبراسکا سے جہاد کی تعریف اور مدارس کا سلیبس درآمد کرتی ہے اور پورے ملک کو جہادی کارپوریشن بنا دیتی ہے اور پھر جب وقت بدلتا ہے تو وہی ریاست اپنی تخلیق کو چن چن کر مار دیتی ہے یا امریکا کے حوالے کر دیتی ہے۔ میاں نواز شریف ایک وقت میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات بناتے ہیں اور پھر اسی بے نظیر کے ساتھ میثاق جمہوریت کرتے ہیں‘ چوہدری ظہور الٰہی جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم مانگ لیتے ہیں جس سے انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی تاریخ طے کی تھی اور پھر انھی کے صاحب زادے آصف علی زرداری کے سیاسی اتحادی بن جاتے ہیں۔
جنرل مشرف ایک وقت میں دعویٰ کرتے ہیں بے نظیر اور نواز شریف میری میت پھلانگ کر ہی پاکستان آ سکتے ہیں اور پھر وہی مشرف محترمہ کے سامنے بیٹھ کر این آر او پر دستخط کرتے ہیں اور ن لیگ کے وزراء سے حلف لیتے ہیں اور عمران خان ایک وقت میں شیخ رشید کو چپڑاسی بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے اور پھر وہی شیخ رشید عمران خان کا دایاں بازو بن جاتے ہیں چناں چہ یہ یاد رکھو ریاست‘ حکومت اور سیاست دانوں کی سچائیاں بدلتی رہتی ہیں‘ ہم صرف صحافی ہیں۔ ہمارا کام رپورٹ کرنا اور رائے دینا ہوتا ہے‘ ہم کمنٹیٹر ہیں‘ کھلاڑی نہیں ہیں‘ ہمیں پارٹی نہیں بننا چاہیے اور آپ نے کھلاڑی بن کر پہلی غلطی کی اور آپ اب اپنی پہلی غلطی پر ڈٹ کر دوسری غلطی کر رہے ہیں‘ آپ ایزی ہو جاؤ‘ شہزاد اکبر رقم اور فائلیں سمیٹ کر فرار ہو چکے ہیں اور ان کے تمام حقائق‘ سارے سچ وقتی تھے۔
وقت گزر چکا ہے اور آپ کسی دن اپنی آنکھوں سے میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کو ایک ٹیبل پر بیٹھا بھی دیکھو گے لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ لمبی سانس لو اور زندگی میں آگے بڑھو‘‘ ارشد شریف گھنٹوں دوسروں کی بات سن سکتا تھا‘ وہ میری بات بھی اطمینان سے سنتا رہا‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولا ’’مجھے آپ سے اختلاف ہے‘ آپ مجھے فلسفہ بے غیرتی سکھا رہے ہیں اور میں موت کو کمپرومائز پر فوقیت دوں گا‘‘۔ میں یہ سن کر عادتاً پیچھے ہٹ گیا اور یوں بحث ختم ہو گئی لیکن حالات کیوں کہ فلسفے کو مانتے ہیں اور نہ ہی یہ غیرت مند ہوتے ہیں چناں چہ ارشد شریف حالات کی چکی میں پستہ چلا گیا‘ اس پر دھڑادھڑ مقدمے بنے اور آخر میں ارشد شریف کو دبئی میں پناہ لینا پڑ گئی اور وہ پارٹی جس کے سچ کو سچ مان کر ارشد شریف جان دینے کے لیے تیار تھا۔
اس نے مڑ کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھا‘ آج عمران خان دعویٰ کر رہے ہیں ’’میں نے اسے بتایاتھا تمہاری جان کو خطرہ ہے لہٰذایہاں سے نکل جاؤ‘‘ یہ بات اگر درست تھی تو پھر عمران خان سے سوال بنتا ہے ’’کیا آپ ارشد شریف کے لیے دبئی سے برطانیہ‘ یورپ یا امریکا کے ویزے کا بندوبست نہیں کر سکتے تھے؟‘‘ عمران خان عالمی شخصیت ہیں۔کیا یہ اپنے کسی دوست سے کہہ کر اسے دبئی سے کسی محفوظ ملک میں شفٹ نہیں کر سکتے تھے؟ آپ نے اس وقت اس بے چارے کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا لیکن آج آپ اس کا تابوت اٹھا اٹھا کر پھر رہے ہیں‘ آپ کو شاید اپنی سیاست چمکانے کے لیے زندہ ارشد شریف نہیں چاہیے تھا‘ ایک لاش چاہیے تھی .
اور آپ کو وہ مل گئی اور آپ اب اس لاش کو سیاست کے چوراہوں میں رکھ کر بیچ رہے ہیں۔ آپ کو اگر واقعی ارشد شریف سے ہمدردی تھی یا آپ اگر واقعی اسے پاکستان کا سب سے بڑا صحافی سمجھتے تھے تو آپ کو اس کا ہاتھ اس وقت پکڑنا چاہیے تھا جب اسے آپ کی ضرورت تھی‘ آپ اسے دبئی سے ملائیشیا ہی بھجوا دیتے‘ مہاتیر محمد آپ کا استاد تھا یا آپ اس کا رابطہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کروا سکتے تھے جس کی الیکشن کمپیئن کر کے آپ نے اپنے ملک کی سفارت کاری تباہ کر لی یا آپ دبئی حکومت ہی سے بات کر کے ارشد شریف کے لیے اسپیس پیدا کرا لیتے یا پھر آپ صدر عارف علوی کو درمیان میں ڈال کر ارشد شریف کی واپسی کا راستہ کھول دیتے‘ آپ نے اس وقت اپنے پسندیدہ ترین صحافی کے لیے کچھ نہیں کیا لیکن اب آپ اسے جھنڈا بنا کر اپنے جلسوں میں لہرا رہے ہیں‘ کیا یہ ظلم نہیں؟
ارشد شریف ایک محنتی‘ ان تھک‘ نڈر اور بے باک صحافی تھا‘ وہ پروفیشنل بھی تھا‘ میں دل سے اس کی عزت کرتا ہوں‘ میری اس سے زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں‘ ہم ایک دوسرے کے دوست بھی نہیں تھے لیکن احترام کا رشتہ تھالہٰذا سوال پیدا ہوتے ہیں۔وہ دبئی سے کینیا کیوں گیا‘ وہ کینیا میں وقار احمد اور خرم احمد کے ساتھ کیوں رہتا رہا اور یہ لوگ کون تھے؟کیا وہ واقعی حادثے کا شکار ہوا یا پھر اسے کسی انٹرنیشنل فورس نے گولی مار کر پاکستان کے انتشار کا ایندھن بنا دیا یا پھر اس کا قتل اس کے سیاسی ماضی سے جڑا ہوا ہے‘ یہ کہانیاں آہستہ آہستہ کھلیں گی‘ ان سوالوں کا جواب وقت دے گا لیکن میں ارشد شریف کو ارشد شریف کا قاتل سمجھتا ہوں۔
ارشد شریف بدقسمتی سے صحافت کرتے کرتے بارودی سرنگوں میں داخل ہو گیا تھا اور یہ حقیقت ہے آج تک جو بھی صحافی اس علاقے میں داخل ہوا وہ زندہ واپس نہیں آیا‘ وہ خواہ ارشد شریف ہو یاجمال خشوگی ہو‘ انسان پوری دنیا سے لڑ سکتا ہے لیکن یہ خدا اور ریاست سے نہیں لڑ سکتا‘ہمیں ریاست کو ٹھیک ضرور کرنا چاہیے۔اس کی غلطیوں کی نشان دہی بھی ضرور کرنی چاہیے‘ مظلوم کا ساتھ بھی دینا چاہیے اور معاشرے کو بہتر بنانے کی جنگ بھی ضرور لڑنی چاہیے لیکن ریاست کے ساتھ نہیں ٹکرانا چاہیے‘ انسان اسٹیٹ لیس ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا‘ آپ اسی طرح اللہ سے بھی شکوہ ضرور کریں‘ اس کی توجہ کے لیے گھنٹیاں بھی بجاتے رہیں مگر اسے ناراض کرنے کی غلطیاں نہ کریں کیوں کہ وہ اگر ناراض ہو جائے تو پھر وہ شاہ ایران‘ قذافی فیملی‘ صدام فیملی اور اشرف غنی جیسے لوگوں کو بھی گلی گلی میں ذلیل کر دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے ہم جتنے بھی تگڑے ہو جائیں ہم خدا اور ریاست کا مقابلہ نہیں کر سکتے لہٰذا انسان کو اپنی لمٹس ذہن میں رکھنی چاہییں اور دوسرا میر تجربہ ہے سینئر اگر آپ کے دشمن بھی ہوں تو بھی آپ زندگی میں جہاں کنفیوز ہو جائیں یا پھنس جائیں آپ کو فوراً ان سے رابطہ اور مشورہ کرنا چاہیے۔ آپ کو اس کے بعد کینیا میں پناہ نہیں لینا پڑتی‘ مجھے جب بھی مشورے کی ضرورت پڑتی ہے میں اپنے ان سینئرز سے بھی رابطہ کرتا ہوں جن کے ساتھ میرے تعلقات ٹھیک ٹھاک خراب ہوتے ہیں اورآپ یقین کریں مجھے آج تک کسی نے غلط مشورہ نہیں دیا‘ کاش ارشد شریف بھی مجیب الرحمن شامی‘ عطاء الحق قاسمی‘ طلعت حسین یا حامد میر کے پاس چلا جاتا یا یہ شکیل انجم اور افضل بٹ کے پاس آ گیا ہوتا تو شاید ہم آج اس کا جنازہ نہ پڑھ رہے ہوتے اور شاید غلطی ہم سب کی بھی ہے۔
ہم نے بھی اس کو اکیلا چھوڑ دیا تھا‘ کاش ہم ہی آگے بڑھ کر اسے روک لیتے‘ ہم ہی اسے سمجھا لیتے لیکن شاید ہم بھی تماش بین ہیں‘ ہم بھی اس کی صورت حال کو انجوائے کر رہے تھے‘ افسوس ہم ارشد شریف کو نہیں بچا سکے۔
تبصرہ لکھیے