دین اسلام اور خالق کائنات اللہ تعالیٰ کی عبادت طرف دعوت دینا انبیاء علیہم السلام اور علمائے ربانین کا طریقہ ہے، جوکہ سب سے بڑی نیکی اور سب سے بہترین کام ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل بھی کریں گے، نیک بنیں گے اور اپنے اعمال وکردار سے دین حق کی سچائی کو ثابت کریں گے ۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تبلیغ کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا ،جنہوں نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب گالم گلوچ سے نہیں دیے بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیا۔ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار فرماتے، اور احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔ اور اب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ، اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے۔
اور دین اسلام کی تبلیغ کاکام آپ کے اور ہمارے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذمہ ہے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔ تبلیغ اسلام کاکام ہرزمانے میں جاری رہا اور موجودہ حالات میں بھی اس کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ پہلے تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا ’’(اے نبی) آپ کہہ دیجیے یہ میرا راستہ ہے ،میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ ،میں اور میرے ساتھی بھی۔ اللہ پاک ہے اورشرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘ (سورۃیوسف:108 )۔
یہی امت کا اصل مشن ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امت مسلمہ میں ہر دور میں کم از کم ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو عام لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہیے جونیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ‘‘ (سورۃ آل عمران:104 )۔ فرداً فرداً سارے ہی مسلمان ان احکامِ قرآن کے مخاطب ہیں اور ان کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کی طرف بلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ، دین اسلام دعوت کو لے کر پوری دنیا پر چھاجائیں، اور غیر مسلم لوگوں کو اللہ کی بندگی واطاعت کی طرف بلائیں۔ امت مسلمہ کو دیکھ کر دنیا کو یہ معلوم ہوناچاہئے کہ اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کی زندگی کا مقصد کیاہے ؟
اور انسانیت کے لیے حقیقی راہِ نجات کیاہے ؟ اس گواہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کا حق ادا کیا ، پوری زندگی اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے اسی طرح اس کا حق ادا کیا جائے اور پوری زندگی اس مشن کوزندہ اور قائم رکھاجائے ۔ شرح وتفسیر میں مفسرین کی یہ صراحت ملتی ہے کہ ہم مسلمانوں کوروزمحشر اللہ کی عدالت میں اس بات کی شہادت دینی ہوگی کہ اے اللہ تیرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کوجو ہدایت ملی تھی، ہم مسلمانوں نے اسے تیرے عام بندوں تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اے اللہ! ترے آخری نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ہم کوجو دین حق ملا تھا، ہم نے اسے من وعن پوری دنیا تک پہنچادیا اور اسے قبول کرنے کی عام دعوت دی۔ظاہر ہے اس دنیا میں اگر ہم نے دعوت دین کاکام نہیں کیا اور اللہ کے بندوں تک دین حق کاپیغام لے کرنہیں پہنچے اور ان کو قبول اسلام کی دعوت نہیں دی تو آخرت میں اللہ کے دربار میں یہ گواہی ہم کیسے دے سکیں گے ؟ آخری خطبہ میں بھی آپ صلی اللہ عیہ وسلم نے پورے مجمع سے گواہی لی تھی کہ تم سب اس بات کے گواہ رہنا کہ مجھ پر تبلیغ دین کی جو ذمہ داری تھی، میں نے اسے ادا کردیا ہے ۔
اسی طرح آج دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔غور کیجیے ! کیا امت مسلمہ پوری دنیا کو مخاطب کرکے کہہ سکتی ہے کہ اے دنیا والو!تم سب گواہ رہنا کہ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت امت مسلمہ ہم پرتبلیغ دین کی جو ذمہ داری ڈالی تھی، وہ ذمہ داری ہم نے ادا کردی ہے ۔ پوری دنیاتو کیا ہم اپنی بستی یا قرب وجوار کے غیر مسلم باشندوں کو مخاطب کرکے بھی ایسا نہیں کہہ سکتے ،کیوں کہ ہم نے مطلوبہ انداز میں ان تک دین کی بات پہنچائی ہی نہیں ۔ قرآن مجید کی تیسری سورۃ آل عمران کی آیت نمبر110 میں امت مسلمہ کا مقصد وجود کیا بتایا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’(اب دنیا میں )وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں( کی ہدایت واصلاح )کے لیے میدان میں لایاگیا ہے۔
تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اللہ کا وجود ہے ،دعوت اسلام دنیا کا سب سے عمدہ کام ہے، اور دنیا کی سب سے بڑی سچائی بھی اسلام ہے، یہی نجات کا واحد راستہ ہے ، اس کی طرف لوگوں کو بلانا ،سب سے بڑی نیکی ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل کریں۔ نیک بنیں اور اپنے اعمال وکردار سے اس سچائی کو ثابت کریں ۔ قرآن مجید میں ایک جگہ اسی بات کو بڑے خوب صورت انداز میں کہا گیا ہے ’’ اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا میں مسلمان ہوں‘‘(حم السجدۃ33 )۔
جبکہ غیر مسلم لوگوں کے دلوں میں بھی اسلام کی پیاس موجودہے کیونکہ جودائرہ اسلام سے باہر ہیں ان کو مسلسل اپنی فطرت سے جنگ لڑنا پڑتی ہے ، جبکہ اسلام خود دین فطرت ہے۔ اسلام میں عدل وانصاف ہے ،عزت واحترام ہے ،انسانوں کی ہرطرح کی ضروریات کی رعایت ہے ۔ہر شخص صرف اپنے ہی اعمال کا جواب دہ ہے اورکسی پر اس کی طاقت وقوت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا ۔ اس کے عقائد بہت ہی شفاف اور عقل وفہم میں آنے والے ہیں۔ عبادات سے لے کر معاشرت ومعاملات بلکہ زندگی کے ہر میدان کے لیے مفصل ہدایات ہیں۔اس کی مذہبی کتاب وحی الٰہی پر مبنی ہے اور ہمیشہ کے لیے خردبرد سے محفوظ ہے ۔ اس کی دیگر تعلیمات کا بھی پورا ذخیرہ مستند تاریخی روایات پر مشتمل ہے اورصدیوں کی تاریخ ان احکام وتعلیمات کا عملی ثبوت ہے ۔
اسلام کی یہ ایسی خوبیاں ہیں جو کسی بھی حقیقت پسند آدمی کو ایمان لانے پر مجبور کردیتی ہیں۔اگر ان خوبیوں کو کسی غیر مسلم یا مشرک کے سامنے بیان کیا جائے تو کم ازکم وہ ان چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارا فرض ہے کہ غیر مسلم بھائیوں کو اسلام سے متعارف کروائیں اور ان کو اسلام اختیار کرنے کی دعوت دیں، تاکہ بطور مسلمان ہم اپنی ذمہ داری احسن طور پر نبھاکر روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ سکیں۔دین اسلام کی دنیا بھر میں تبلیغ و اشاعت کے لئے تین روزہ سالانہ اجتماع رائے ونڈ میں منعقد ہوتا ہے ۔
بلاشبہ حج کے بعد یہ عالم اسلام کا دوسرا بڑا اجتماع ہے جس میں لاکھوں فرزندان اسلام ذہن میں تبلیغ اسلام کی فکرلیے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے شہروں ، قصبوں، دیہاتوں اور بیابانوں سے شرکت کرتے ہیں۔ رواں سال بھی تبلیغی اجتماع 3 نومبر2022 ء سے شروع ہورہا ہے۔
تبصرہ لکھیے