اس کا دماغ سوچوں میں گم اور نگاہیں سامنے والی دیوار پر مرکوز تھیں۔وہ آج صبح سے ہی کافی بددل ہو رہی تھی۔یہ دراصل رویوں کی کڑھن تھی۔نظر انداز کیے جانا،محاذ بنائے رکھنا،بداخلاقی کا سامنا اس کے اعصاب شل کیے جا رہا تھا۔
یاسیت اس پر اس قدر طاری ہو چکی تھی کہ سامنے والی دیوار پر آویزاں کیلنڈر پر لکھی عبارت اس کو مزید الجھن میں ڈال رہی تھی۔ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے، مگر اچھائی پھلے پھولے گی کیسے؟ وہ عجیب تھڑدلے پن کی کیفیت میں تھی۔اسی کیفیت سے ہم میں سے اکثر لوگ کبھی نہ کبھی گزرے ہوتے ہیں جب نیکی کے صلے کی تمنا لاشعوری پر ہم کر رہے ہوتے ہیں اور دار الامتحان کی آزمائشوں سے حوصلہ کھونے لگتے ہیں۔
دراصل، ہم انسان تھڑدلے واقع ہوئے ہیں، جلد باز مخلوق۔۔۔ گھبرا جانے والے ۔۔۔ کبھی خدا بن بیٹھتے ہیں تو کبھی اپنے آپ کو حد درجہ گرا کر اپنے ہی جیسے انسانوں کے آگے جھک جاتے ہیں۔ حالانکہ توازن اور اعتدال تو یہ تھا کہ اللہ کی مانتے تا کہ کسی اور کی نہ ماننی پڑتی۔ ہم نے جب بھی یہ غلطی کی کہ اللہ کے سوا کسی اور سے ڈرے، کسی اور سے مانگا،کسی اور کے آگے جھکے، کسی اور کو فریاد رس سمجھا، طاقت کا منبع کسی اور کو سمجھا تو اللہ کے "بندوں" کی فہرست سے بھی نکلے اور دنیا میں بھی خوار ہوئے۔
بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ نیکی کے راستے پر چلتے چلتے ہمارے پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں ، تمام اعضا تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ صلے کی تمنا ہمیں بے چین و بے قرار کر دیتی ہے ،یاسیت ہمارے اندر ڈیرے ڈال لیتی ہے، یقیناً اس کیفیت کا شکار ہم اس لئے ہوتے ہیں کہ دنیا جنت نہیں ہے ۔ جنت کی چاہ میں تھکا دینے والے سفر سے ہمیں لا محالہ گزرنا پی پڑتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس تھکن سے بے حال ہو کر راستہ تبدیل کر لیتے ہیں ، شارٹ کٹ ڈھونڈنے لگتے ہیں ، جیسے کو تیسا والا رویہ اپنا لیتے ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی حدود سے نکل کر انسانوں کا مقابلہ کرنے لگتے ہیں مگر یاد رکھئے یہ طرز عمل بھی آپ کی دنیا کو جنت نہیں بنا سکتا۔
آپ چاہتے ہیں کہ ادھر ہم دعا کے دو بول اور آنکھ سے دو آنسو ٹپکائیں اور پلک جھپکتے میں فرشتہ سند قبولیت آپ کو دے جائے ادھر ہم نیکی کریں ،ادھر ہمیں انعام مل جائے لیکن پیارے لوگو! پھر اللہ نے جنت کاہے کو بنائی ہے، پھر آزمائش ہی کیا ہوئی، دنیا میں ہی جزا اور سزا کا چکر چلا دیا گیا تو انسانوں کے جہاں کی بجائے فرشتوں کی دنیا کا گمان ہونے لگے گا جہاں کوئی کسی سے بیر نہیں رکھتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ ہم انسانوں کا ٹیسٹ کیس ہے دنیا۔۔۔ جہاں ہمیں اپنے حصے کی مشعل جلانی ہے یا دوسروں کی جلائی ہوئی مشعل کو بجھانا ہے۔
یہاں چلتے ہوئے آپ کو خوشی کے ساتھ غم، سکون کے ساتھ بے سکونی،صحت کے ساتھ بیماری، جوانی کے ساتھ بڑھاپا،خوشحالی کے ساتھ تنگدستی، فراغت کے ساتھ مشغولیت،زندگی کے ساتھ موت کی وادیوں سے گزرنا پڑے گا۔ اب اگر آپ اس 'پیپر سکیم' کو سمجھ جاتے ہیں، اہم اور غیر اہم ابواب میں تمیز کر لیتے ہیں، اہم پر توجہ اور غیر اہم سے کنی کترا جاتے ہیں، 'لازمی' اور' اختیاری ' میں متوازن رویہ اختیار کرتے ہیں، لازمی پر زیادہ توجہ اور اختیاری میں مناسب سی توجہ سے کام چلا لیتے ہیں.
اور اعتدال کے رویے کو تھامے رکھتے ہیں تو دنیا ذلیل و خوار ہو کر آپ کے پاس آتی ہے، آپ دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور بے نیازی سے نواز دیے جاتے ہیں۔یہی وہ وقت ہوتا جب دنیا بھی آپ کو جنت کی مانند نظر آنے لگتی ہے۔
تبصرہ لکھیے