ہوم << آئمہ مساجد کے کرنے کا کام- امیرجان حقانی

آئمہ مساجد کے کرنے کا کام- امیرجان حقانی

آئمہ مساجد کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے عامۃ الناس اور اہلیان محلہ کو درس قرآن کے ذریعے قریب نہیں کیا. قرآن فہمی کے لیے کوشش ہی نہیں کی گئی. مساجد میں درس قرآن کی راہ میں ایک رکاوٹ مسجد میں موجود بوڑھے قسم کے بابے، تبلیغی جماعت کے ساتھی اور ریٹائرڈ ملازمین پر مشتمل مسجد کمیٹی کے ممبران بھی ہیں لیکن یہ سارے اتنے رکاوٹ نہیں، اگر مسجد کا امام چاہیے تو تھوڑی سی محنت، ترغیب اور جرآت سے ان سب کو قابو کرسکتا ہے اور آسانی سے درس قرآن کی طرف متوجہ کرسکتا ہے.اس کے لیے تھوڑا دل، قرآن سے لگاؤ اور جرات اور فکر مند ہونے لازم ہے.

ہمارا بنیادی المیہ یہ ہے کہ ہم نے تلاوتِ قرآن پر تو فوکس کیا ہے مگر فہم قرآن کو مکمل نظر انداز کیا ہوا ہے. جتنا اہم تلاوتِ قرآن ہے اتنا ہی اہم فہم و تدبر قرآن بھی ہے. بنیادی طور پر عامۃ الناس اور ائمہ مسجد تلاوت قرآن، تذکر قرآن اور تبلیغ قرآن پر تو کسی حد تک عمل پیرا ہیں مگر تدبر و فہم قرآن کو مکمل نظر انداز کیا ہوا ہے.

عمومی طور پر ہمارے ائمہ درس قران سے کتراتے ہیں. اس کا لازمی نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگ نماز اور تبلیغی تعلیم کےلیے تو مسجد آتے ہیں مگر فہم قرآن وغیرہ کے لیے ریڈیو، ٹی وی، یوٹیوب اور دیگر مجالس کا انتخاب کرتے ہیں جہاں عموما ایسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے جنہوں نے ترجمہ قرآن اور عمومی مطالعہ سے قرآن بیان کرنا شروع کر دیا ہوتا ہے. ایسے لوگ غریب القرآن، اعجاز قرآن، اسرارالقرآن، معانی القرآن، احکام القرآن، رموز القرآن، نکات القرآن، بلاغۃ القرآن، فقہ القرآن، گرائمر قرآن، تجوید قرآن وغیرہ سے مکمل نابلد ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ان علوم و فنون کو باقاعدہ پڑھا نہیں ہوتا.مطالعہ کی زور سے یہ سمجھنے آنا نہیں.

اس میں عام آدمی کا قصور نہیں کہ وہ درس قرآن کے لیے ایسے اسکالرز کا انتخاب کرتا ہے. اس نے اپنی پیاس بجھانی ہوتی ہے جب اس سے مکمل صاف و شفاف اور صحت افزا پانی نہیں ملے گا تو وہ کہیں سے بھی جیسا تیسا پانی پی کر پیاس بجھا لے گا.

ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کے ائمہ سہل اور عام فہم انداز میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کریں. یہ درس عوامی ہونا چاہیے، مدارس و جامعات کے طلبہ کو دیا جانے والا درس مساجد و عوامی اجتماعات میں نہیں چل سکتا.وہاں مخصوص اصطلاحات اور حل عبارات و الفاظ ضروری ہوتا ہے.

مسجد کا درس انتہائی سلیس اور عام فہم ہونا چاہیے اور صرف کچھ بنیادی مقاصد پیش نظر ہونے چاہیے جن میں رضاالہی، تزکیہ نفس، عقائد باطلہ کی تردید، عقائد حقہ کی تبلیغ، اعمال باطلہ سے دوری اور اعمال صالحہ کی ترغیب شامل ہو اور عوام میں قرآنی ذوق پیدا کرنا مقصود ہو.

میں نے ذاتی طور پر ایک تجربہ کیا کہ جمعۃ المبارک کی تقریر می درس کا سلسلہ شروع کیا. تین سال میں سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی 215 آیات کا درس ہوگیا ہے. اس طویل مشقت کے بعد اب کافی سارے احباب مطالعہ قرآن کی طرف متوجہ ہوئے ہیں.

ہر مسجد کا خطیب اور امام اپنی اور نمازیوں کی سہولت و مشاورت کے بعد درس قرآن کا مکمل پلان بنا سکتا ہے کہ کتنے دن درس ہو، کتنا وقت ہو اور کس نماز کے بعد ہو، یہ ساری چیزیں طے کرکے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے. یاد رہے یہ طویل اور صبر آزما کام ہے. ایک آیت کے درس کے لیے قدیم و جدید اور مطول و مختصر کئی تفاسیر کا مطالعہ کرنا ہوگا. درجنوں صفحات کے عمیق مطالعہ کے بعد ایک آیت کا دس بیس منٹ درس ہی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے. صرف لفظی ترجمہ اور اوپر اوپر کی تفسیر سے قرآنی ذوق نہیں پیدا کیا جاسکتا ہے. مطالعہ تفاسیر کے وقت افادہ سے زیادہ استفادہ کی نیت ہو تو پھر افادہ ہوہی جائے گا۔

( یہ مصنف کی ذاتی آراء ہیں، جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)