ہوم << بچہ آخر کب بڑا ہوگا - حبیب الرحمن

بچہ آخر کب بڑا ہوگا - حبیب الرحمن

ایک بچہ ضد پر اڑگیا کہ چھپکلی کھاؤں گا۔ گھروالوں نے بہت سمجھایا لیکن کسی کی ایک نہ مانی۔ گھر والوں نے تنگ آکر ایک باباجی کو بلوایا جو ضد تڑوانے میں ماہر تھے۔ باباجی کے حکم سے ایک چھپکلی منگوائی گئی اور اسے پلیٹ میں رکھ کراس بچہ کے سامنے رکھا گیا۔

‏باباجی نے بچہ سے کہا لو کھاؤ۔ بچہ مچل گیا اور بولا تلی ہوئی کھاؤں گا۔ باباجی نے چھپکلی تلوائی اور کہا، لو اب چپ چاپ کھالو۔ بچہ پھر اڑ گیا اور بولا آدھی کھاؤں گا۔ چھپکلی کے دو ٹکڑے کئے گئے۔ اب بچہ بابا جی سے بولا، ‏پہلے آپ کھائیں پھر میں کھاؤں گا۔ باباجی سوچ میں پڑگئے کہ کہاں پھنس گیا۔ کسی بھی طرح آنکھ ناک دبا کے باباجی نے آدھی چھپکلی نگل لی۔ باباجی کے چھپکلی نگلتے ہی بچہ زور زور سے رونے لگا کہ آپ تو میرا والا ٹکڑا کھاگئے۔

اتنا سنتے ہی باباجی نے اپنی دھوتی سمبھالی اور ننگے پیر سرپٹ بھاگ نکلے۔ یہ وہی بچہ ہے جو پورے 56 سال تک بچہ ہی بنا رہا۔ 56 سال بعد اس کا بچپنا کچھ جوان ہونا شروع ہوا تو سیاست کے چکر میں پڑ گیا اور جن کو ہمیشہ پہلے والوں سے کم عقل کی تلاش رہتی ہے، ان کے ہاتھ لگ گیا اور وہ مزید بائیس برس تک اس گملے میں کھاد اور پانی ڈلتے رہے۔ وہ اس فریب میں مبتلا رہے کہ جیسا ہم خمیر اٹھانا چاہ رہے ہیں، پودا اسی سوچ کے مطابق پروان چڑھ رہا ہے۔

جب فریب زدوں نے اسے تختِ شاہی پر سجایا تب ان کے علم میں یہ بات آئی کہ ذہنی لحاظ سے یہ تو وہیں کھڑا ہے جہاں سے ہم نے گود لیا تھا۔ ایک ملک کو نیا بنانے کے چکر میں رگڑ رگڑ کر اس میں ہر جانب چھید پر چھید کر ڈالے۔ تنگ آکر ریات کا کھلونا اس کے ہاتھ سے چھیننا ہی پڑ گیا۔ اب رو رہا ہے کہ کھلونا مجھے واپس دو، میں اسے نیا کر کے ہی رہوں گا، میرے ابا کی نوکری کو توسیع دو، آ کر میں خود اپنا دوسرا ابا بدلوں، کسی کے سامنے ہاتھ نہیں جوڑوں گا البتہ حکم ملے تو اپنا ریموٹ کنٹرول تک اس کے حوالے کر دونگا۔ بچہ ہے کہ ابھی تک ضد پر اڑا ہوا ہے، روئے جا رہا ہے، چلا رہا ہے لیکن "باباجی" ہیں کہ بچے کے چاہنے والوں کو مل کر ہی نہیں دے رہے ہیں۔

ملک کے حالات کتنے گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں، کچھ پتا نہیں کہ کونسی قیامت ٹوٹنے والی ہے، ہر جانب ہاہا کار مچی ہوئی ہے، قدرتی آفات کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے، ایک کے بعد ایک بلا ہے جو ملکِ خدا داد پر ٹوٹ رہی ہے، بیماریوں کی بلاؤں کے بعد آفتِ سماوی و عرضی نے قیامت مچائی ہوئی ہے، کروڑوں لوگ بارشوں اور سیلابوں میں گھر چکے ہیں، بڑی بڑی عمارتیں اپنے تمام تر حسن و جمال کے ساتھ تنکوں کی طرح بہہ چکی ہیں، بستیوں میں تعمیر شدہ کچے پکے گھر مٹی میں مل کے مٹی مٹی ہو چکے ہیں، مویشی پانی کے ریلوں میں تنکوں کی طرح بہتے جا رہے ہیں، کئی کروڑ افراد کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، کھڑے ہوئے پانی نے مکھیوں اور اور مچھروں کی افزائش میں اتنا قیامت خیز اضافہ کر دیا ہے کہ ان پر قابو پانا ناممکن سا ہو کر رہ گیا ہے.

شدید سردیوں کا موسم دوڑا بھاگا چلا آ رہا ہے اور اگر کئی کروڑ افراد کیلئے پختہ چھتوں اور مناسب رہائش کا بند و بست نہ ہوا تو بہت بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے، کھیت اور کھلیان تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں، آنے والے دنوں میں غذائی قلت کا شدید خطرہ ہے، لاتعداد مقامات سے زمینی رابطہ بالکل منقطع ہو چکا ہے، ریلوے لائینیں اور سڑکیں میلوں تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، متعدد پل اپنی بنیادوں سمیت اکھڑ چکے ہیں، المختصر ہر جانب موت اپنی پوری تباہ کاریوں سمیت پوری باہیں کھولے سروں پر منڈلا رہی ہے اور بچہ ہے کہ چھپکلی کھاؤنگا کی ضد سے باز آ کر نہیں دے رہا۔

پاکستان میں کب سیاسی ماحول بنتا بگڑتا نہیں رہا۔ کب حکومتیں ٹوٹتیں یا توڑی جاتی نہیں رہیں۔ کب ملک صدارتی اور پارلیمانی نظاموں کے دو پاٹوں کے درمیان نہیں پستا رہا۔ کب وزرائے اعظم تبدیل ہوتے نہیں رہے۔ کب دو دو ڈھائی ڈھائی سال کے اندر حکومتیں پر حکومتیں نہیں بدلی جاتی رہیں۔ کب ایسا نہیں ہوا کہ وزرائے اعظموں کو نااہلیوں کا سامنا نہیں رہا۔ کب عدالتیں خفیہ ہاتھوں کے دباؤ میں آکر فیصلے نہیں کرتی رہیں۔ کب ایسا نہیں ہوا کی عدالتی فیصلے عدل و انصاف کی روشنی کی بجائے مصلحتوں کے پیشِ نظر نہیں کئے جاتے رہے اور کب ایسا نہیں ہوا کہ جن کو جو بھی لائے وہی ان کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر نہیں کرتے رہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ بچے کو بھی ہٹایا ہی گیا ہے لیکن اس ضدی اور احسان فراموش بچے کو یہ بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کو لانے والے بھی تو وہی تھے۔ اسے لانے کیلئے انھیں نہ جانے کتنے جتن کر نے پڑے۔ کتنے سیاسی کھڑ پیچوں کو نا اہل کرنا پڑا۔ سرحدی آپریشن کا رخ کراچی کی جانب موڑ کر 14 نشستوں کی راہ ہموار کرنی پڑی اور اس عاشقی میں دنیا بھر میں اپنی "عزتِ سادات" کو خاک میں ملانا پڑا۔ ماضی کو بھول کر حال کے بھونچال پر، یہ جانے بوجھے بغیر کہ جس ملک کی "آزادی" کیلئے وہ ٹسوے بہا رہا ہے وہ تاریخ کے ایک بہت بھیانک دہانے پر کھڑا ہے.

اور اس کے مسلسل اڑیاں رگڑ نے سے یہاں زم زم نہیں آتش فشاں پھوٹ پڑے گا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بچہ بچہ ہی ہوتا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ اقبال رح کا یہ شعر حسبِ حال ہے یا نہیں، علامہ سے نہایت معذرت کے ساتھ، اس ضدی بچے کو کرسی اقتدار سے کان پکڑ کر نکالنے والوں کی جانب سے ضرور عرض کرنا چاہونگا کہ

ہم نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاتا ہے تو

مہرباں ہم ہیں ہمیں نا مہرباں سمجھا ہے تو

Comments

Click here to post a comment