پاکستان میں شماریات کے ادارے بیورو آف سٹیٹکس کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں مہنگائی کی شرح میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ دو وجوہات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اشیا کی تیاری کی لاگت بڑھ جاتی ہے، مطلب خام مال کی قیمت زیادہ ہوئی یا پھر اجرت زیادہ لگی اس پر جو خرچہ زیادہ ہوا تو قیمت بھی بڑھ جائے گی۔ اسے 'کاسٹ پش انفلیشن' کہتے ہیں۔
دوسری وجہ محدودیت ہے۔ یعنی مارکیٹ میں مال کم ہے لیکن خریدار زیادہ ہیں۔ کچھ گاہک زیادہ پیسہ دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں اسے 'ڈیمانڈ پش انفلیشن' کہتے ہیں۔یہاں مثال تیل کی قیمت کی ہے۔ اگر تیل کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو وہ کاسٹ پش انفلیشن ہے۔ کیونکہ اسی ایندھن کی مدد سے چلنے والا ٹرک اشیا منڈیوں تک پہنچاتا ہے۔ یوں تیل کی قیمت میں اضافے کا اثر ان تمام چیزوں کی قیمت پر پڑے گا اور وہ بڑھ جائے گی۔اور ایک وجہ نوٹ چھاپنا بھی ہے۔ اگر حکومت زیادہ پیسے چھاپتی ہے تو پھر لوگوں کے پاس زیادہ پیسے آ جاتے ہیں۔
منڈی میں چیزیں محدود ہوتی ہیں اور لوگوں کے پاس پیسے زیادہ ہوتے ہیں تو اس سے بھی چیز مہنگی ہوتی ہے۔ اسے 'ڈیمانڈ انفلیشن' کہتے ہیں۔حکومت کبھی بھی بیبس نہیں ہوتی۔ ’اگر یہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں تو انھیں نوٹ نہیں چھاپنے پڑیں گے۔ اس سے ڈیمانڈ یعنی طلب کی جانب افراط زر کم ہوگی تو اس سے مہنگا?ی کی شرح بھی کم ہو گی۔مہنگائی پر قابو کرنے کے معاملے میں حکومت کبھی بھی بیبس نہیں ہوتی۔ ’اگر یہ اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں تو انھیں نوٹ نہیں چھاپنے پڑیں گے۔ اس سے ڈیمانڈ یعنی طلب کی جانب افراط زر کم ہوگی تو اس سے اس کی شرح بھی کم ہو گی۔
مہنگائی پر قابو پانے کیلئے حکومت میں براہ راست جو وزرا ہیں انھیں بحران کا نہ اندازہ ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے اور جہاں تک معیشت میں مشیر ہیں تو وہ تو پہلے بھی حکومت میں رہے ہیں اور وہ آج کے بحران کے لیے بہت حد تک ذمہ دار ہیں۔شہنشاہ اکبر سے لے کر دورِ حاضرتک مہنگائی کتنی بڑھی؟آج سے ایک صدی پہلے چھپنے والے ایک رسالے میں اکبر کے دور میں اجناس کی قیمتوں کا دلچسپ جائزہ لیا گیا ہے۔
گندم پونے پانچ آنے من
چاول آٹھ آنے من
دال مونگ پونے آٹھ آنے من
دال موٹھ پونے پانچ آنے من
باجرا ساڑھے پانچ آنے من
نمک سوا چھ آنے من
شکر ایک روپیہ سوا چھ آنے من
پیاز ڈھائی آنے من
گھی دو روپیہ دس آنے من
تیل دس آنے اور ہلدی چار آنے من
یہ تو بادشاہی وقتوں کی برکت تھی۔ اس کے بعد انگریزی عمل داری کے شروع میں غلہ کافی سستا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا عہد 1857
1857 میں گہیوں 39 سیر فی روپیہ
چنے ایک من ساڑھے 19 سیر فی روپیہ
چاول ساڑھے 18 سیر
گھی چار سیر اور دودھ چار من روپیہ کا ملتا تھا۔ یعنی ایک پیسہ کا اڑھائی سیر۔
ملکہ وکٹوریہ کا عہد 1890
1890 میں گندم 25 سیر فی روپیہ، چنے 28 سیر، چاول 12 سیر، گھی دو سیر فی روپیہ اور دودھ تین پیسہ سیر ملتا تھا۔ یہ حالت بھی غنیمت تھی۔‘اس کے بعد مدیر موصوف گزشتہ دو برسوں یعنی 1918 اور 1919 میں ہونے والی ’ہوش ربا‘ مہنگائی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’حال کے ان دونوں سال کی ہولناک گرانی اظہر من الشمس ہے، جس سے خلقت الامان پکار رہی ہے، کیوں کہ گندم روپیہ کی آٹھ سیر۔ چنے چھ سیر۔ دال تین سیر اور گھی ساڑھے پانچ چھٹانک ملتا ہے۔ دودھ جس میں آدھا پانی چار سیر۔غرض کہ مہنگائی کا قصہ کافی پرانا ہے لیکن آج تک غریب عوام کیلئے کچھ خاص نہیں کیا گیا۔ اس نہ مہنگائی نے تو غریب تو غریب متوسط طبقے کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ زندگی گزارنے کی بنیادی چیزیں کافی مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ایک یومیہ مزدور جسکی دیہاڑی صرف پانچ سو روپے ہے بھلا وہ گھر کو کیسے چلاتا ہو گا۔
ادویات مہنگی، تیل مہنگا، گھی مہنگا غرض کے غریب کے پاس کفن خریدنے کے پیسے تک نہیں ہیں۔مہنگائی پر کنٹرول کرنا اب ایک دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ مگر کیا ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لئیے کچھ کر سکتے ہیں؟ ہاں ہم خود بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ زندگی گزارنا بہت آسان ہے مگر ہم نے فضول اخراجات و فضول خواھشات سے اسے بھیانک بنا رکھا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں صرف ان چیزوں پر توجہ دینی چاہیے جن کے بغیر ہماری زندگی نہیں گزرتی اور فضول چیزوں کی خریداری ختم کرنی چاہئے۔
ہم جتنا سادگی سے زندگی گزاریں گے ہمارے اخراجات اتنا ہی کم ہوں گے تب ہمیں مہنگائی کا احساس بھی کم ہو گا۔ ہمیں اپنے اخراجات گھٹا کر اپنے اردگرد کے مزدور و غریب طبقے کی ضروریات کا خیال رکھنا ہو گا۔اگر ہم کھیلوں کے میدان آباد کریں گے اور اپنے کام خود کریں گے تو بیماریوں کی شرح کم ہو جا?ے گی اور علاج معالجے کے اخراجات بھی نہیں ہونگے۔ حکومت کو بھی چاھیئے کہ وہ اپنے فضول کے اخراجات بند کرے اور ایسے اقدامات کی طرف قدم اٹھائے جن کی وجہ سے مہنگائی کا سدباب ممکن ہو سکے۔
اگر حکومت نے مہنگائی کو قابو کرنے کے واضح اقدامات نہ کئیے تو عوام کی طرف سے وہ بغاوت اٹھے گی جس کو قابو کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ آگے بڑھئے اور مہنگائی کے جن کو بوتل میں قید کیجئے تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکے۔
تبصرہ لکھیے