ہوم << ماں جی- مسرور احمد

ماں جی- مسرور احمد

ہماری زندگی کے اصل ہیرو وہ ہوتے ہیں جو ہمارے لئے آسانیاں لے کر آتے ہیں، ہمارے لئے لڑتے ہیں، ہمارے لئے محنت کرتے ہیں اور ہماری آسائشوں کیلئے اپنی ضرورتوں کو تیاگ دیتے ہیں۔اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے والدین ہماری زندگی کے حقیقی ہیرو ہوتے ہیں بلکہ باپ اگر ہیرو ہے تو ماں سپر ہیرو۔کائنات کا سب سے خوبصورت رشتہ ماں ہے۔خالق کے بعد جو ہستی ہمیں مکمل کرتی ہے وہ ہماری ماں کی ذات ہے۔ ماں کی ایک عادت خدا سے بہت ملتی ہے، دونوں ہی معاف کر دیتے ہیں۔ ماں اپنی اولاد کو سب کچھ سکھاتی ہے سوائے اپنے بغیر جینے کے۔ دنیا میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس ہے جس کی ماں زندہ ہو۔ ماں سب کی جگہ لے سکتی ہے لیکن ماں کی جگہ کوئی نہیں۔ جو زخم ماں بھرتی ہے وہ کوئی دوسرا نہیں بھر سکتا، جو قربانی، جوپیار اور جودعا ماں دیتی ہے وہ کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ہم ہر کسی کا حق ادا کر سکتے ہیں لیکن ماں کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ جس طرح بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں اسی طرح مائیں بھی سانجھی ہوتی ہیں۔ ساری مائیں بابرکت اور مقدس ہوتی ہیں اسی لئے ان کے قدموں میں جنت رکھی گئی ہے۔ ساری ماؤں میں کچھ مشترکہ اقدار ہوتی ہیں۔ ماں کا نعم البدل کوئی نہیں اور ماں کی ممتا سے محرومی شائد انسانی زندگی کی ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔قابل رحم ہیں وہ لوگ جو ماں جیسی عظیم ہستی کی قدر نہ جان سکیں۔ مائیں خلوص، وفا، قربانی اور خیر کا پیکر ہوتی ہیں۔ وہ بہن بھائیوں میں رشتوں کو جوڑنے اور رشتے ناتوں کو مضبوط کرنے والی اکائی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اے کاش کہ ماں سے جدائی کا غم سہنا آسان ہوتا!
ماں جیسی بابرکت ہستی کا دنیا سے پردہ کر جانا اولاد کو امتحان میں ڈالتے ہوئے یتیمی کے درد کو دو چند کر دیتا ہے۔ جو درد اور تکلیف ماں کے بچھڑ جانے پہ ہوتی ہے اس کا کوئی مداوا نہیں۔ میری ماں جی، میری کل کائنات جب سے جدا ہوئی ہیں روح چھلنی ہے اور زندگی رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آج ان کو ہم سے رخصت ہوئے دو ہفتے گزر گئے۔ ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے کیونکہ موت برحق ہے لیکن کاش کہ خدا نے کوئی ماں کا نعم البدل بنایا ہوتاجو ماں سے جدائی کے ذخم بھر سکتا۔ کا ش کہ ان کی یاد میں مجھے یہ سطور نہ لکھنا پڑتیں! کاش کہ وہ ہمیں اپنی خدمت کا اور موقع دیتیں! دلی افسوس کہ وہ شفقت والا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے جب ماں دنیا سے رحلت کر جاتی ہے۔ بے شک ہم جس کی طرف سے آئے ہیں اس کی طرف لوٹنا ہے۔باقی ماؤں کی طرح میری ماں جی بھی سراسر محبت، شفقت اور عاجزی کا پیکر تھیں۔ہماری ماں جی ہماری حقیقی ہیر و بلکہ سپر ہیرو اورآئیڈیل تھیں۔ بہت سوں کیلئے ان کی زندگی ایک مثال ہے۔ ماں جی اپنے حلقہ احباب میں بہت مقبول تھیں اور بہت سوں کیلئے بھلائی اور خیر کا باعث تھیں۔ اگر کسی انسان پر مصیبت یا پریشانی آ جائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا ہے کہ یہ مصیبت کیا اس کیلئے ہی آنی تھی۔ ایسا اکثر ہوتا ہے لیکن میں نے ماں جی کو ایسا کبھی کہتے نہیں سنا بلکہ ان کے ہم سفر قبلہ والد صاحب کی تئیس برس قبل وفات کے بعد بھی وہ مشکل ترین حالات میں مضبوط چٹان کی طرح زندگی بسر کرتی رہیں۔ وہ ایک باکمال، شفیق، بہترین اخلاق کی حامل ایک شاندار خاتون تھیں جنھوں نے اپنے تمام بچوں کی زبردست تربیت کی اور نامساعد حالات میں پڑھا لکھا کر انھیں معاشرے کاکار آمد شہری بنایا۔ ماں جی کی سوچ انتہائی وسیع تھی، انھوں مشکل ترین حالات میں بھی اولاد کی تربیت پر محنت کی اور ان کو بہترین مقام پر پہنچنے تک سہارا دیا۔ یوں وہ اپنی ہم عصر خواتین کیلئے ایک مثال اور باغ وبہار شخصیت کی حیثیت رکھتی تھیں اور ہمارے آبائی علاقے میں ہر گھر میں ان کی مثالیں دی جاتی تھیں۔
گو ماں جی ان کے دور میں تعلیمی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے رسمی طور پر تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن اپنے شوق کے باعث لکھنے، پڑھنے میں طاق تھیں۔ ہمیشہ یہ کہتی تھیں کاش کہ ان کے گاؤں میں سکول ہوتا تو وہ رسمی تعلیم بھی حاصل کر سکتیں اور ہمیں اچھے اداروں میں پڑھا لکھا کر انھوں نے گویا اپنے شوق اور حسرت کی تکمیل کی۔ علم سے محبت ان کواپنے مرحوم شوہر سے ورثے میں ملی تھی جس کی انھوں نے ساری عمر حفاظت کی۔ ماں جی کی ایک بہترین عادت یہ تھی کہ وہ کبھی بھی اپنی ذات کے حصار میں قید نہیں ہوئیں، اتنی سوشل تھیں کہ کبھی کبھی ہمیں بہت حیرت ہوتی تھی۔ وہ احساس کم تری یا احساس برتری سے بے نیاز ایک سادہ مگر انتہائی زیرک، وسیع القلب، وسیع الظرف، رحم دل اور جہاندیدہ خاتون تھیں۔کم گو تھیں لیکن جب بولتی تھیں تو علم، فکر، بصیرت اور دانائی کے دریا بہا دیتی تھیں۔پنجابی اوراردو کے بہت سے اشعار اور محاورے ان کی گفتگو کا خاصہ ہوتے تھے اور ان کے برمحل استعمال سے وہ محفل لوٹ لیتی تھیں۔ وہ ایک انتہائی خوبصورت اور پروقار خاتون تھیں جو اپنے بچوں کی کامیابی اور ہر طرح کی دنیاوی نعمتوں کے حصول پر کبھی غرور میں مبتلا نہیں ہوئیں بلکہ ہمیشہ عجز اور انکساری کا پیکر بنی رہیں اور اپنی اولاد کو بھی اسے سانچے میں ڈھالا۔انھیں رشتے سنبھالنے اورنبھانے کا فن خوب آتا تھا۔ اسی سبب سے وہ نہ صرف اپنی فیملی میں بلکہ اپنی دوستوں میں بھی عزت و احترام کا اعلیٰ مقام رکھتی تھیں۔ وہ اتنی خوبصورت باتیں کرتی تھیں کہ جو ایک دفعہ ان سے مل لیتا تھا وہ ان کی شخصیت کے سحر سے نکل نہیں پاتا تھا۔اسلام آباد جیسے شہر میں بھی جہاں کوئی بنا مطلب کسی سے تعلق نہیں رکھتا ان کا ایک بڑا حلقہ احباب تھا۔ وہ دینی اور علمی محفلوں کا ایک جزو لاینفک تھیں۔ انکی پڑھی ہوئی نعتیں اور حمد و درود و ثنا آج بھی ہمارے دلوں کو سکون بخشتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اور پرایوں سے بہت سے غم اور دکھ جھیلے لیکن صبر اور استقامت کادامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور نہ ہمارے اوپر کبھی آنچ آنے دی۔ہمارے لئے وہ ہمیشہ ایک مضبوط ڈھال بنی رہیں۔وہ اسم با مسمیٰ تھیں، ان کا نام انور بی بی تھا اور ان کی بابرکت ذات انوارو تجلیات اور روشنی کا محور تھی۔خدا خوفی، دینداری، عزیز، رشتے داروں اور غریبوں کی فلاح و بہبود اورمثبت طرز فکر ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ میری ماں جی کا قد کاٹھ، شخصیت ا ور رتبہ اتنا بڑا ہے کہ ایک مضمون اس کا احاطہ نہیں کر سکتا اور ان پہ دیوان اور کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اس برگزیدہ ہستی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی قبر مبارک کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے۔ ہم تمام سوگواران بھائی اور بہن اور دیگر فیملی ممبرز ان تمام دوستوں کے مشکور ہیں جو دکھ کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ رہے اور جنھوں نے ہمارے ساتھ اس عظیم سانحے کا غم بانٹا اور ہمیں مصیبت کی گھڑی میں حوصلہ دیا۔ اللہ پاک ہماری نیک اور جنتی روح، ہماری پیاری ماں جی کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے، آمین!

Comments

Click here to post a comment