ہوم << خصائصِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - مفتی منیب الرحمن

خصائصِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - مفتی منیب الرحمن

ہمارے نزدیک ہر نبی اور رسول محترم ہے ،مکرّم ہے ، مُعَزَّزْ ومُوَقَّراور ذی شان ہے،لیکن خود رسولوں کے مابین فضیلت کے اعتبار سے درجہ بندی موجود ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یہ رُسلِ عظام کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی، (البقرہ: 253)‘‘۔

پس ہمارے آقا ومولیٰ ،سیدالمرسلین ،رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن،خَاتمُ النَّبِیّٖٖنسیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے خصائص اور فضائل بے شمار ہیں، ان کی تفصیلات آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہیں،حدیث پاک میں ہے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے تمام انبیائے کرام پر بعض چیزوں میں فضیلت عطا فرمائی گئی:

(۱)مجھے ’’جَوَامِعُ الْکَلِم‘‘یعنی معانی کے سمندر کو ایک جملے میں سمونے کاملکہ عطا کیا گیا،اسی کو اردومحاورے میں ’’ دریا کو کوزے میں بند کردینا‘‘کہتے ہیں، اس کی مثالیں محدثینِ کرام نے متعدد بیان کی ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے،

(۲) اللہ نے میری شخصیت کو رُعب دار اور ذی وجاہت بنایااور(دشمنوں پر)ایک ماہ کی مسافت پرمیرارعب طاری ہوجاتا ہے،

(۳) میرے (یعنی میری امت )کے لیے اموالِ غنیمت (اور صدقات) کو حلال کردیا گیا، مجھ سے پہلے کسی کے لیے غنیمت (اور صدقات)حلال نہیں تھے،

(۴)میرے لیے روئے زمین کو مسجد بنادیا گیا اور پاکیزہ قرار دیا گیا (بشرطیکہ اس پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو)، پس میرا جو بھی امتی نماز کا وقت پائے ، وہ جہاں کہیں بھی ہو قبلہ رُو ہوکر نماز پڑھ لے،

(۵) ماضی میں نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا، مجھے اللہ تعالیٰ نے سارے عالَمِ انسانیت اور ساری مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا،صحیح مسلم:521کے الفاظ ہیں: ’’مجھے ہر گورے اور کالے کی طرف نبی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے‘‘،

(۶) مجھے شفاعت کااذن عطا کیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کیا گیا(اس سے مراد شفاعتِ کُبریٰ ہے)،

(۷) مجھ پر نبوت کے سلسلے کو ختم کردیا گیا ہے،یعنی میں ’’خَاتمُ النَّبِیّٖن‘‘ ہوں‘‘، (۸) دریں اثنا کہ میں سویا ہوا تھا، مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں اور میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں‘‘۔ یہ خصائص ہم نے صحیح البخاری:335،2977، صحیح مسلم:523،521،کی احادیثِ مبارکہ کو یکجا کر کے اور مکررات کو حذف کر کے لکھے ہیںاور تحت اللفظ نہیں ،بلکہ تشریحی ترجمہ کیا ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری ، ج:1، ص:849میں لکھا ہے: ’’امام محمد بن ابراہیم نیشاپوری نے مختلف روایات کے حوالے سے آپ ﷺ کے پچاسی خصائص لکھے ہیں ، ان میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے‘‘۔

ان مِن جملہ خصوصیات میں سے ایک ’’رسالتِ عامّہ‘‘ہے ،یعنی آپ کی نبوت ورسالت تمام عالم انسانیت ، جنّات وملائک حتیٰ کہ انبیائے کرام ورُسلِ عظام علیہم السلام اور جمیع انواعِ مخلوق کو شامل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(۱) ’’(اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، (الاعراف:158)‘‘،

(۲) ’’اورہم نے آپ کو (قیامت تک کے)تمام لوگوں کے لیے جنّت کی بشارت دینے والا اور جہنم سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،(سبا:28)‘‘،

(۳)’’نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے مکرم بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے (عذاب سے) ڈرانے والے ہوں، (الفرقان:1)‘‘،

(۴) ’’اور (اے نبی مکرم!)ہم نے آپ کوتمام جہانوں کے لیے فقط رحمت بناکر بھیجا ہے، (الانبیاء:107)‘‘۔ الغرض قرآنِ کریم کی متعدد آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ کی نبوت قیامت تک پورے عالَمِ انسانیت کے لیے حتیٰ کہ جنّات وملائک اور دیگر انواعِ مخلوق پر بھی محیط ہے ۔

آپ کی ایک منفرد وممتاز خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی رضا آپ کے خالق ومالک اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو مطلوب ومحبوب ہے، قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے، (الضحیٰ:5)‘‘۔

ہجرت کے بعد مدنی زندگی کے ابتدائی سترہ ماہ تک اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ بیت المقدِس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے ، لیکن آپ کے دل میں یہ خواہش تھی کہ آپ کے اجدادِ اعلیٰ حضراتِ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بنائے ہوئے کعبۃ اللہ کو قبلۂ نماز بنادیا جائے، اس تمنا میں آپ اضطراب کی کیفیت میں بارہا اپنا رُخِ انور آسمان کی طرف پلٹ کر دیکھتے کہ شاید جبریلِ امین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے تحویلِ قبلہ کا حکم لے کر آئیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اس ادا کا ذکرفرماکرآپ کو اپنے خصوصی شرف سے نوازتے ہوئے فرمایا: ’’بے شک ہم نے (بارہا) آپ کو اپنا چہرہ آسمان کی طرف پلٹتے ہوئے دیکھا ہے ، سو ہم آپ کو ضرور اُس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو آپ کو پسند ہے، پس آپ (نماز میں)اپنا رُخ مسجدِ حرام کی طرف پھیر دیں اور ( مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو، اپنارُخ اُسی کی طرف پھیر لو، (البقرہ:144)‘‘۔

یہ آیتِ مبارکہ مقامِ مصطفیﷺ کی رفعتوں کو سمجھنے کے لیے ایک بہترین کسوٹی ہے، کیونکہ عقل کا تقاضا تویہ ہے کہ جس کی بندگی کی جائے قبلہ اُسی کی پسند کا ہونا چاہیے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ کریم ﷺ کو خصوصی شرف سے نوازتے ہوئے قبلہ آپ کی پسند کا مقرر فرمادیا،عام شرعی ضابطہ یہ ہے کہ رضائے الٰہی کو پانا ہی بندگی کی معراج ہے،مگر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کو رضائے مصطفی ﷺ کے مطابق فرمادیا، امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں:

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم

خدا چاہتا ہے رضائے محمد

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’(اے رسولِ مکرم! )اُن کی (دل آزار)باتوں پر صبر کیجیے اور طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھیے اور رات کے بعض حصوں اوردن کے (درمیانی)کناروںمیں بھی تسبیح پڑھتے رہیے تاکہ آپ راضی ہوجائیں، (طہٰ:130)‘‘۔ مفسرینِ کرام نے بتایا :اس آیۂ مبارکہ میں حمد وتسبیح سے مراد نمازیں ہیں ،کیونکہ بعض اوقات جز بول کر کُل مراد لیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حمد وتسبیحات نماز کا حصہ ہیں۔ نیز اس میں نمازوں کے اوقات کی طرف بھی اشارہ ہے اور فی نفسہٖ تو عبادت رضائے معبود کے لیے ہوتی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو ان کلمات کے ساتھ اعزاز عطا فرمایا : آپ اس لیے حمد کے ساتھ تسبیحات پڑھیں ،نمازیں ادا کریں تاکہ آپ راضی ہوجائیں، اس سے معلوم ہوا کہ رضائے الٰہی اور رضائے مصطفی ﷺ دوجدا چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی حقیقتِ کاملہ کا نام ہے،اللہ کی رضا میں مصطفی کی رضا اور مصطفی کی رضا میں اللہ کی رضا شامل ہے ، یہ دو متوازی یا متضاد چیزیں نہیں ہیں ،بلکہ ایک ہی آئینے کے دو رُخ ہیں ،ایک ہی حقیقت کے دو پَرتو ہیںاور ایک ہی تجلی کے دو عکس ہیں۔

جب معبودِ حقیقی سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور رضا کا مدار ومعیار رضائے مصطفی قرار پائی ،اطاعتِ الٰہی کا شعار اطاعتِ رسول قرار پایا ، اس کے سوا کچھ نہیں ،تو پھر نیکی وہی ہے جوآپ ﷺ کی ذات سے منسوب ہو، جو آپ کی ادائوں سے جانی جائے ، جو آپ کی سیرت میں ڈھل جائے ،اس کے سوا نیکی کا ہر مَن پسند معیار فریبِ نفس ہے ، عُجبِ نفس ہے، اناپرستی ہے اور حق سے انحراف ہے، حدیثِ پاک میں ہے:

’’انس بن مالک بیان کرتے ہیں: تین افراد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجرات کی طرف آئے اور آپ ﷺ کی عبادت کے معمولات کے بارے میں سوال کرنے لگے، پس جب امہات المؤمنین نے انہیں آپ ﷺ کے (روزوشب کی عبادات کے) معمولات بتادیے، تو انہوں نے اپنی دانست میں ان کو کم سمجھااور کہا:کہاں ہم اور کہاں نبی ﷺ !(یعنی ہمیں اس سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے)،آپ ﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے قطعی اور کُلِّی مغفرت کی سند عطا کر رکھی ہے۔ پس ان میں سے ایک نے کہا: اب میں ہمیشہ ساری رات نوافل پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا: اب میں ہمیشہ نفلی روزے رکھوں گا اور روزہ کبھی نہیں چھوڑوں گا، تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے لاتعلق رہوں گااور کبھی شادی نہیں کروں گا(تاکہ سارا وقت عبادت میں مشغول رہوں)، دریں اثنا رسول اللہ ﷺ اُن کی طرف تشریف لائے اور (ان کی باتوں کا حوالہ دے کر)فرمایا: تمہی وہ لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں .

سنو! واللہ! مجھ سے بڑھ کر نہ کسی کے دل میں خشیتِ الٰہی ہے اور نہ مجھ سے کوئی بڑا متقی ہے، لیکن (میرا معمول یہ ہے کہ) میں کبھی نفلی روزے رکھتا ہوں اور کبھی چھوڑ دیتا ہوں، رات کا کچھ حصہ نوافل پڑھتا ہوں اور کچھ وقت کے لیے سو بھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھے ہیں ، (پس میرا شِعار بندگی یہی ہے )، سوجو میری سنت سے اعراض کرے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے، (صحیح البخاری: 5063)‘‘۔ مقامِ غور ہے کہ یہ تنبیہ یا وعید گناہگاروں کے لیے نہیں ہے ،بلکہ اُن کے لیے ہے جو اپنی دانست میں سنتِ مصطفی ﷺ سے ہٹ کراعلیٰ معیارِ بندگی اختیار کرنا چاہتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معیارِ بندگی فقط میری سنت کے اتباع کا نام ہے ،اس سے اِعراض کا نام نہیں ہے۔

حدیث مبارک میں ہے: ’’ملائکہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ اس وقت سورہے تھے ،آپ ﷺ کے بارے میں مکالمہ کرتے ہوئے بعض نے کہا:’’ یہ سورہے ہیں اور بعض نے کہا: بے شک آنکھ سورہی ہے اور دل بیدار ہے‘‘ ۔پھر بعض نے کہا: ’’تمہارے اس صاحب کے لیے ایک مثال ہے ،سو وہ مثال بیان کرو،تو دوسروں نے کہا:ان کی مثال اُس شخص کی سی ہے ، جس نے ایک گھر بنایا اور اس میں دعوت طعام کا اہتمام کیا اورلوگوں کو اس دعوت کی طرف بلایا، پس جس نے اس دعوت کو قبول کیا،وہ گھر میں داخل ہوگیااور طعام کو نوش کیااور جس نے داعی کی پکار پر لبیک نہ کہا ،وہ گھر میں داخل نہ ہوا اور دعوتِ طعام سے محروم رہا۔ پھر انہوں نے کہا: اس کی تاویل بیان کرو تاکہ سمجھ میں آئے ،تو بعض نے کہا:’’ بے شک وہ سورہے ہیں اور بعض نے کہا: بے شک آنکھ سورہی ہے اور دل بیدار ہے اوربعض نے کہا: یہ گھر (جو بنایا گیا )جنت ہے.

اور اس کی طرف دعوت دینے والے (سیدنا) محمد ﷺ ہیں، سو جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی ،تو اس نے (در حقیقت) اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی ،تو اس نے (درحقیقت) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد ﷺ لوگوں کے درمیان حق وباطل کی معرفت کی کسوٹی ہیں، (مختصر صحیح الامام البخاری:2698)‘‘۔یہ اس آیت کی تشریح ہے ،فرمایا:’’اور جس نے رسول کی اطاعت کی ،تو اس نے (درحقیقت)اللہ کی اطاعت کی، (النسآء:80)‘‘۔