مسجد اقصیٰ کے دفاع کی آخری عرب اسرائیل جنگ کو 49 برس بیت گئے ۔
بیت المقدس ، اسلام کا دارالحکومت ، قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے ۔ مگر عالمی سامراج کی مخصوص پالیسی کے تحت اسے مسلمانوں سے چھین کر غاصب اسرائیلیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ مسلمان خاموشی اور سکون سے اپنے مقدس ترین مقام کو دشمنوں کے ہاتھ میں کیسے دے سکتے ہیں ؟
1948 سے لے کر آج تک کئی بار اسے پنجہِ یہود سے نکالنے کی کوشش کی گئی ، جو منظم حکمتِ عملی اور باہمی اتحاد نہ ہونے کے سبب کامیاب نہ سکی۔ اسرائیلی افواج کے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کی بھی کوئی حد نہ تھی۔ 1948 میں فلسطینی مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی کوشش کی گئی جس میں بے شمار مسلمان غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ دوسری جانب اسرائیلی فتنہ پرور، مسلسل مسلمانوں کے جذبات سے بھی کھیل رہے تھے۔ جس میں 1967 میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی دہشت گردانہ کارروائی بھی شامل تھی۔ عرب ممالک نے گزشتہ صدی کے دوران 4 بار اس سلسلے میں باقاعدہ جنگ بھی لڑی ۔ 1948 ، 1956، 1967 اور 1973۔
1948، 1956اور 1967 تو واضح ناکام مہمات تھیں۔ اسرائیلی افواج نے امریکی امداد اور یورپی پشت پناہی کے سبب عرب اتحادی افواج کو ہواؤں میں بکھیر کر رکھ دیا ۔ بیت المقدس تو کیا آزاد ہوتا ، الٹا گولان کی پہاڑیاں اور مصری صحرائے سینا بھی اسرائیل کے قبضے میں چلی گئیں ۔ اس سب کے تناظر میں عرب قوم پرست اتحاد نے ایک بار پھر جگر آزمانے کی ٹھانی اور مصر کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس بار ، مصری افواج نے باقاعدہ ایک حکمت عملی اپنائی تھی اور کسی قدر منظم انداز اپنایا تھا ۔ اگرچہ اس بار جنگ کا مقصد عرب افواج کا کھویا ہوا وقار بحال کرنا تھا ، اور اگر صحرائے سینا یا گولان کی پہاڑیاں واپس مل جاتیں تو سونے پہ سہاگا ہو جاتا۔
6 اکتوبر 1973 کو عرب افواج نے مصری حکمران انور سادات کی قیادت میں جنگ کا آغاز کیا ۔ یہ جنگ 25 اکتوبر تک جاری رہی ، جس میں پہلی بار مصری افواج نے بالخصوص قابلِ عزت کارروائی کی۔ اگرچہ اس جنگ میں اسرائیلی افواج کا پلڑا ایک بار پھر بھاری رہا مگر ہزاروں اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے ، اور صحرائے سینا پر مصری افواج نے خاصی نمایاں کامیابیاں سمیٹیں۔ عرب شہداء کی تعداد اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ تھی ، کیونکہ ایک تو امریکی اور یورپی اسلحہ اسرائیل کے پاس تھا جو ظاہر ہے عرب افواج کے اسلحے پر فوقیت رکھتا تھا ، جبکہ دوسری طرف اسرائیلی عسکری تربیت بہتر اور ان کے کمانڈرز زیادہ پروفیشنل تھے ۔ عرب افواج میں مصر کے علاوہ شام ، سعودی عرب ، الجزائر ، لیبیا ، عراق ، اور اردن سمیت کئی عرب ممالک شامل تھے ۔ اس جنگ میں حتمی کامیابی تو اسرائیل ہی کے نام رہی مگر مصری افواج نے اپنا کھویا ہوا وقار کسی حد تک واپس حاصل کر لیا اور اسرائیلی افواج کے لیے واضح ہو گیا کہ آئندہ کسی جنگ میں انہیں شکست دینا اس قدر آسان نہ ہو گا۔ چنانچہ صحرائے سینا واپس مصر کو سونپ دیا گیا اور یوں اس جنگ سے مصر کو کافی کچھ حاصل ہو گیا ۔
جنگ کا حاصل جو بھی رہا ہو مگر فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی مظالم اور جرائم کا سلسلہ کسی طرح بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور آج بھی اسرائیل، ارضِ فلسطین کے چہرے پر ایک ناسور کی طرح موجود ہے ۔
تبصرہ لکھیے