اﷲ کی بہت ساری صفات میں سے ایک صفت ’’عدل‘‘بھی ہے،قرآن میں اﷲ تعالی نے فرمایاکہ کہ ’’وتمت کلمت ربک صدقاََوعدلاََ(سورۃ انعام،آیت115)‘‘ترجمہ: تمہارے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔
اﷲ تعالی نے انسان میں اپنی روح پھونکی ہے اورپھرفرمایاکہ ’’یاایھاالانسان ماغرک بربک الکریمOالذی خلقک فسوک فعدلکO(سورہ الانفطارآیات6,7)‘‘ترجمہ:اے انسان تجھے اپنے رب کرم کی طرف سے کس نے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیداکیا،تجھے نک سک سے درست کیا اور تجھے متناسب(فعدلک)بنایا‘‘۔گویا’’عدل‘‘نہ صرف یہ کہ انسان کی فطرت میں شامل ہے بلکہ انسان کی ساخت میں بھی شامل کردیاگیاہے۔ان سب کے بعداﷲ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں عدل کرنے کا حکم بھی دیا’’ان اﷲ یامربالعدل والاحسان‘‘(سورۃ نحل آیت 90)ترجمہ:اﷲ تعالی عدل اور احسان کا حکم دیتاہے۔اس رب کریم نے صرف اسی پر ہی بس نہیں کیابلکہ ایک ذات بابرکات بھی مبعوث فرمائی جس کی کل حیات طیبہ اور تعلیمات کے تمام تر مجموعہ کواگر عدل کامل کانام دیاجائے تو بے محل نہ ہوگا۔
معاملات کے اعتبارسے تین اصطلاحات کااستعمال عموماََورد زبان رہتاہے،عدل،احسان اور ظلم۔عدل سے مرادکسی کو اس کا حق اداکردیناہے،احسان سے مراد حق سے زیادہ ادا کردیناہے جبکہ ظلم سے مراد کسی کا حق دبالیناہے۔ظلم سے ملتاجلتاایک اور لفظ’’طاغوت‘‘بھی آسمانی تعلیمات میںکثرت سے استعمال ہوتاہے جو بالاصل ’’عدل‘‘کے متضادکے طور بھی استعمال کیاجاتاہے۔عدل سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ کوئی اپنی حدودکے اندر رہے جبکہ ’’طاغوت ‘‘کی اصطلاح کو ’’طغیانی ‘‘کی کیفیت سے بآسانی سمجھاجاسکتاہے جب کہ دریااپنی حدود سے باہر نکل آتاہے،پس انسانی رویے جب اپنی حدود میں رہیں گے تو گویا عدل کامصداق ہوں گے اور جب اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کی حدود میں داخل ہونے لگیں گے تو طاغوت کی شکل اختیار کر جائیں گے اور تب یہیں سے فسادات جنم لیتے ہیں جو انسانی معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ظلم سے بچنا،عدل پر عمل پیرارہنااوراحسان کے رویے کو بخوشی اپنانااسوۃ حسنہ کے سوتے پھوٹنے والے چشمے کاوہ پانی ہے جو انسانیت کی پیاس کو بدرجہ اتم مٹانے کی پھرپورصلاحیت رکھتاہے اوریہی وہ منزل ہے جس کی طرف عدل اجتماعی کی شاہراہ کاراستہ صراط مستقیم کی چھاؤں سے ہوکر گزرتاہے۔
محسن انسانیت ﷺ نے انسانیت کو عدل کی بالادستی کا درس دیااورایک بار جب ایک حد کے اجراسے روکنے کے لیے آپ ﷺ پر ناجائزدباؤ ڈالا گیاتوآپ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی اقوام اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے بڑے جرم کرتے تو ان سے صرف نظر کرلیاجاتاتھااور جب ان کے چھوٹے طبقوں کے لوگ جرم کرتے تو ان پر قانون پوری قوت سے نافذ کردیاجاتا۔ایک اور موقع پر عدل کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے آپ ﷺکے ارشاد کا خلاصہ ہے کہ اگرکسی مسلمان نے اسلامی ریاست کے کسی غیر مسلم (ذمی)پر زیادتی کی آپ ﷺ نے فرمایاکہ اس مسلمان کے خلاف روز محشراس غیرمسلم کی طرف سے میں محمدﷺ خود دعوی دائر کروں گا۔آپ ﷺ نے ظلم کوقیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیراقراردیااور اس سے بچنے کا حکم دیااور ساتھ فرمایا کہ تمہیں قیامت کے دن حق والوں کے حق ضرور اداکرنے ہوں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاجس آدمی پر بھی اپنے بھائی کاکوئی حق ہو تو اسے چاہیے کہ دنیامیں ہی اس سے عہدہ براہو جائے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس دن کسی کے پاس درہم و دینارنہ ہوں گے۔ عدل نبوی ﷺ کااس بات سے بھی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جب بھی کسی کو حاکم بناکر بھیجتے یاکسی سرکاری امورکی بجاآوری کے لیے روانہ فرماتے یا زکوۃ کی وصولیابی کے لیے تعینات کرتے تو عدل کادامن تھامے رکھنے کی ہدایات صادر فرماتے۔اس آسمان نے وہ دن بھی دیکھاجب خیبر کے یہود اس بات کے منتظر تھے کہ اب انہیں غلام بناکراسلامی افواج میں تقسیم کردیاجائے گا، ان کی جائدادیں اور تیارفصلیں اجاڑ دی جائیں گی.
اور ان کی خواتین کو بھیڑبکریوں کی طرح ہانک کر لے جایاجائے گاکہ اس وقت تک یہی دستوردنیاتھالیکن وقت کی رفتار تھم گئی جب تاریخ انسانی کے مشاہدہ کار نے اس صفحہ ہستی پر پہلی بارفاتح اور مفتوح کے درمیان مزاکرات کے عمل کو جاری و ساری ہوتے دیکھااور فصلوں کی ایک نسبت کی تقسیم پرمعاہدہ نامہ طے پاگیااور پھر اگلی فصل پر جب ایک قاصد نبویﷺ خیبرپہنچااورفصلوں کو نصف نصف تقسیم کیاگیاتواس قاصدنے یہود سے کہا کہ ان میں سے جو حصہ چاہو لے لواور جو جو تم چھوڑ دو گے وہ ہم لے جائیں گے،اس پر خیبر کے یہود چینخ اٹھے کہ خدا کی قسم اسی عدل و انصاف کا حکم توریت میں ہمیں دیا گیا تھااور اسی عدل و انصاف کے حامل کی توریت میں پیشین گوئی تھی کہ وہ آخری نبی علیہ السلام ہو ں گے۔
محسن انسانیت ﷺ کی ختم نبوت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا،یہ سبق آپ ﷺ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیاسے عنقا ہوچکاتھااورانسایت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی ،آپ نے انبیاء علیھم السلام کے اس درس انسانیت کی اس طرح تجدید کی کہ اس کا حق ادا ہو گیا،آپ ﷺ کے گزرے آج کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس بیت چکے،اس دوران انسانیت نے بہت ترقی کر لی،علو م و معارف آسمان ثریاکو چھونے لگے ہیں،انسان کے قدم اس کائنات میں زمین سے کوسوں دور خلاؤں میں جا ٹکے ہیں،راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہونے لگی ہیں،تہذیب و تمدن اور ثقافت کے ڈانڈے مستقبل میں کمندیں ڈالنے کے قابل ہواچاہتے ہیں،فاصلے سمٹ گئے اوراور انسان اس جگہ پر پہنچ رہاہے جہاں پر چند سال پہلے تک بھی سوچنا محال تھا .
لیکن اس سب کچھ کے باوجود عدالتوں کے لیے کسی ازم نے،کسی دانشورنے،کسی نئے نظام حیات نے عدل و انصاف سے بڑھ کر کوئی درس تجویز نہیں کیایہ انسانیت اپنی ساری ترقیوں کے باوجود نبی آخرالزمان کے دیے ہوئے درس اعتدال و عدل اوحتساب سے آگے نہیں گزرسکی،ہماری عقل کہتی ہے کہ ہم اس کو آخری نبی مانیں گے جو اس درس میں کوئی اضافہ کر عمل عدالت کے ارتقاء مزید کاباعث بنے گاجبکہ ہمارا ہماراایمان کہتاہے کہ عدالتوںکے ارتقاء کا سفرمعراج مکمل ہو چکااور اب اس میں کسی اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘(مجھے اخلاقیات کے معیارات کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہے)اور ایمان ہر درجہ عقل سے کہیں بڑااور بزرگ و برتر ہے ،سودرس عدل مکمل ہوچکااورچونکہ اس میں اب اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی نئے نبی کی بھی ضرورت نہیں۔
محسن انسانیت ﷺ نے عدل کے اطلاقی پہلویعنی بے لاگ احتساب کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا،اس سے بڑھ کر عدل و احتساب کی کوئی مثال کہاں مل سکتی ہے کہ عمرمبارک کے آخری ایام میں خود کو پیش کر دیاکہ میرے ہاتھوں کسی سے زیادتی ہوئی ہو تووہ اپنا بدلہ چکاسکتاہے۔ایک مسلمان آگے بڑھااورعرض کی ایک جنگ کے موقع پرآپ ﷺنے صفیں سیدھی کرتے ہوئے میری ننگی کمر پر چھڑی رسید کی تھی،پس سورج کی آنکھیں موندنیں کو ہو گئیں جب ختم عدالتﷺنے اپنی کمر ننگی کرلی اور فرمایاکہ آؤاپنابدلہ وصول کرلووہ مسلمان آیااور کمرمبارک سے لپٹ کرمہرنبوت کو بوسے دینے لگااور پھراس نے کہاکہ میری کیامجال کہ نبی سے بدلہ لوں میںتودراصل اس بہانے مہر نبوت کابوسہ لیناچاہتاتھا۔
سود حرام کیالیکن سب سے پہلے اپنے گھرکا حضرت عباس بن عبدالمطلب کاسودمعاف کیا،قتل معاف کرنے کی ریت کاآغاز کیااورسب سے پہلے اپنے گھرکاحضرت حمزہ بن عبدالمطلب کاخون معاف کیااورغلام آزاد کرنے کاحکم دیاتو سب سے پہلے غزوہ حنین کے موقع پراپنے غلام آزاد کیے۔احتساب کی یہ مثال آج بھی دنیاکے قوانین میں نابود ہے۔دنیاکایہ مسلمہ رواج ہے کہ جو طبقہ قانون بناتاہے وہ اپنے طبقے لیے خصوصی مراعات کا تعین کرتاہے یاجو خاندان قانون بناتاہے وہ اپنی نسل کے لیے برہمنی تفوقات کاپہلے سے دائرہ کھینچ لیتاہے لیکن خود احتسابی کی یہ مثال کہیں بھی تو نہیں ملے گی ختمی مرتبتﷺ نے خود اپنی نسل کے لیے مسلمانوں کے سب سے بڑے فنڈ’’زکوۃ‘‘کو ممنوع قرار دے دیااور اقرباپروری کے دروازے ہمیشہ کے لیے بندکرکے تو بے لاگ احتساب کا شیریں چشمہ فیض تاابد جاری فرمایا یہ کہ کر کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے۔
نبی ﷺکایہ بے لاگ احتساب جب اپنی ذات مبارکہ سے نکل کر معاشرے میں جگہ پاتاہے تو وہ معاشرہ مدینۃالنبی کی پاکیزہ و مقدس ریاست بن جاتاہے جہاں ایک بار جب حضرت عمر جیسے قریش کے اعلی نسب شخص نے ایک غلام زادے کو سخت سست الفاظ کہ ڈالے تو احتساب نبوی جوش مار گیااوربات تب ختم ہوئی جب حضرت عمر نے اپناایک گال زمین پر رکھاتودوسرے پراس غلام زادے صاحب ایمان نے اپنا پاؤں رکھا،بھلااس طرح کااحتساب اس آسمان نے کہیں اور بھی مشاہدہ کیاہوگا؟؟محسن انسانیت ﷺ نے دوستوں اور دشمنوں پر بہت احسانات کیے لیکن عدل کے معاملے میں کسی سے کوئی رعایت نہیں کی ،غزوہ احزاب کے موقع پر جب بنی قریظہ نے غداری کی توان کا محاصرہ کرلیاانہوں بہت زور لگایا لیکن احتساب نبوی ﷺ کا کوڑا اس زور سے ان یہودیوں پر برسا کہ ان کے سینکڑوں قابل جنگ مرد حضرات سر بازار قتل کر دیے گئے کہ دامن نبوی ﷺمیں دوستوں اور دشنوں دونوں کی گنجائش ہے لیکن غداروں کے لیے جو آستین کے سانپ ہوں اور مسلمانوں کے درمیان آسودہ رہ کر دشمن کے گن گائیں اوراہل ایمان کے خلاف سازشیں کریں ان کے لیے دامن نبوی ﷺ میں بھی کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔
عوامی جمہوریت کے نام پر گزشتہ تین صدیوں سے سیکولر مغربی تہذیب نے جن عالمی اداروں کے اندر عالمی عدالت انصاف کا ڈھنڈوراپیٹ رکھاہے اس کی حقیقت بوسنیاکے لاکھوں مسلمانوں کے مقدمہ قتل کے دوران کھل گئی تھی،گوری چمڑی کے تعصب سے بھرپورسیکولرازم کے مکروہ چہرے سے اس دنیائے انسانیت کو عدالت کے کٹہروں سے بھی سوائے ظلم و ستم کے کچھ میسر نہیں آیا۔آج بھی عدل نبوی ﷺ اور نبی علیہ السلام کے بے لاگ احتساب سے معمورتعلیمات ہی اس کرہ ارض سے ظلم و ستم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کے باب کاعنوان بن سکتی ہیںاور وہ دن دور نہیں جب کیمونزم کے خاتمے کی طرح سیکولرازم بھی بحراوقیانوس کے موجوں میں جا ڈوبے گااور سرمایاداری نظام کی باقیات بھی اس کو ڈھونڈ نہ پائیں گیںاور یہ انسانیت بلآخرتوحیدو نبوت و فکرآخرت کی ٹھنڈی چھاؤں میں خوب خوب جگہ پائے گی اور اپنے آنے والی نسلوں کی بھی آسودگی و راحت کاباعث بنیں گی۔انشاء اﷲ تعالی۔
کی محمدﷺسے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تیرے ہیں
تبصرہ لکھیے