جھوٹ اگر شائستگی سے بھی بولا جائے تو جھوٹ ہی رہتا ہے۔ ان محترمہ کی ویڈیو کافی وائرل ہوئی ہوئی ہے اور لوگ خواہ مخواہ ۔۔۔۔ نہیں خیر خواہ مخواہ تو نہیں کہنا چاہیے ۔۔۔۔ تہذیب اور شائستگی کے تو پورے نمبر ملنے چاہئیں ۔۔۔۔ لیکن خیر لوگ غلط بیانی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ میں فی الحال حسن ظن رکھتے ہوئے یہ تصور کر لیتا ہوں کہ محترمہ خود بھی حقائق سے کافی حد تک نابلد ہیں۔۔۔
خیر ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں:
۔۔ پہلے انہوں نے کہا کہ قانون میں مرد سے عورت اور عورت سے مرد میں جنس کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حالانکہ قانون میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ
Self Perceived Gender Identity
یعنی اپنی جو صنفی حیثیت آپ خود متعین کرتے ہیں، وہ اختیار کرنے کا آپکو حق ہے ، خواہ وہ آپکی پیدائشی جنس سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں جنس اور صنف کا فرق ذہن میں رکھیں کیونکہ آگے اسکی وضاحت آئے گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید نے جو اعداد و شمار پیش کئیے کہ اتنے ہزار مرد، عورتوں میں تبدیل ہو گئے ہیں اور اتنے ہزار عورتیں، مردوں میں۔۔۔۔تو وہ کیا جھوٹ کا پلندہ ہے؟ (ثبوت کے طور پر قانون کے مسودے کے متعلقہ حصے کا سکرین شاٹ ملاحظہ فرمائیں)
۔۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ اس قانون میں ہم جنس پرستی کا کوئی ذکر نہیں۔ ٹھیک ہے کہ ذکر نہیں ہے۔ لیکن خالی ذکر نہ ہونا کافی نہیں ہے، قانون بناتے وقت اسکے اثرات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ مثلاً آپ قانون بنا دیں کہ ائیرپورٹ میں داخلے کے وقت کسی شخص کی تلاشی نہیں لی جائے گی کیونکہ اس سے لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ اب یہاں کہیں دہ ش ت گر د ی کا ذکر نہیں۔۔۔ لیکن کیا اس قانون کے نتیجے میں ایسے واقعات ہوں گے یا نہیں؟ کیا یہ قانون د ہ ش ت گ ر دی کے فروغ کا باعث بنے گا یا نہیں؟
تو یہی مسئلہ اس بل کے ساتھ ہے۔ چونکہ پہلا نکتہ غلط ثابت ہو چکا ہے اور ایک مکمل مرد، بغیر کسی ثبوت یعنی میڈیکل ٹیسٹ کے، عورت بن سکتا ہے تو اسے مرد سے "قانونی" نکاح کرنے سے کون روکے گا؟ یہ ہم جنسیت کا فروغ نہیں تو اور کیا ہے؟
۔۔ پھر فرمایا کہ پاکستان میں جنس کے تعین کیلئے میڈیکل ٹیسٹس کی سہولت ہی موجود نہیں۔ پتہ نہیں محترمہ کون سی دنیا میں رہتی ہیں یا نجانے انکے خیال میں وہ کون سا پیچیدہ ٹیسٹ ہے جو اس مقصد کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔ عرض ہے کہ میں بطور ڈاکٹر یہ بتا رہا ہوں کہ 90 فیصد کیسز میں تو کسی لیب ٹیسٹ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ محض ڈاکٹر کا معائنہ کر لینا ہی کافی ہوتا ہے۔ باقی کیسز جہاں شک ہو یا مزید تفصیلات کیلئے الٹراساؤنڈ، ایم آر آئی اور کیریو ٹائیپنگ سے لے کر ڈی این اے ٹیسٹنگ تک، ہر قسم کے ٹیسٹس کی سہولت پاکستان میں موجود ہے
۔۔ پھر فرمایا کہ جینڈر کا تو ٹیسٹ ہوتا ہی نہیں۔۔۔ دیکھیں اصل بات اللہ نے خود ہی نکلوا دی۔ یہی تو ہم کہتے ہیں کہ جینڈر اور سیکس کو مکس کرنے کے دھوکے پر مبنی اس قانون کو ختم کیا جائے۔ "سیکس" یعنی "جنس" پیدائشی ہوتی ہے جسکو آنکھوں سے دیکھا اور لیبارٹری میں پرکھا جا سکتا ہے ۔ اسکے برعکس "جینڈر" یعنی "صنف" اختیاری ہوتی ہے جو دماغی (فتور) تصور پر مبنی ہوتی ہے اور اسکا واقعی کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ اسکا ٹیسٹ یہی ہے کہ پیدائشی جنس کو آنکھوں سے دیکھا جائے اور جو زبان سے وہ کہہ رہا ہے، اگر وہ اسکے خلاف ہے تو ایسے بندے کا نفسیاتی علاج کیا جائے نہ کہ وہ جو اس قانون کی ذیل میں "ڈبلیو پی اے ٹی ایچ" جیسی تنظیم کی بنائی گائیڈ لائنز کو فالو کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔۔۔ جس کی رو سے اختیاری صنف کے مطابق ، "مریض" کے جسم اور جنسی اعضاء کو ڈھالنے میں ہر ممکن سہولت دینا اسکا بنیادی انسانی حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے ۔۔۔!!!
۔۔ آخری بات یہ کہ ہم عام لوگوں سے میڈیکل ٹیسٹ کا تقاضہ کیوں نہیں کرتے شناختی کارڈ میں جنس کا خانہ پر کرتے وقت؟
جواب بہت آسان ہے۔ کیوں کہ ہمارے ماں باپ نے ہمیں جو بتایا ہم نے وہ جنس قبول کر لی۔ انہیں جھوٹا قرار نہیں دیا ۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسکے والدین نے اسکی جنس غلط بتائی ہے تو اپنی سچائی کا ثبوت تو دینا پڑے گا۔۔۔ کہ نہیں؟!!!
اب خود ہی بتائیں کہ ان محترمہ نے جو اسلام پڑھا ہے کیا یہ وہی اسلام ہے جو آپ نے پڑھا ہے؟ اور کیا اس میں ان سب فضولیات و لغویات کی گنجائش ہے؟!!!
تبصرہ لکھیے