اسکا ایک پیر ٹوٹی ہوئی سیڑھی کے آخری سِرے پر تھا اور سر کا اک حصہ اور دایاں بازوں میزائل سے تباہ شُدہ کھڑکی میں تھا ,اُسنے خود کو پوشیدہ رکھنے کیلۓ کھڑکی کے ساتھ دیوار کا سہارا لیا ہوا تھا,سر پہ مخصوص کالا (keffiyeh) لپیٹا ہوا تھا جو اسکے وطن کی خاص پہچان تھا,وہ شیشے جیسی چمک لۓ بےخوف آنکھیں عُقاب کی طرح باہر گلی میں ٹُوٹے پُھوٹے مکانوں کی آڑ میں موجود جدید ہتھیاروں اور یونیفارم سے مسلح اپنے دشمنوں کو تلاش کر رہی تھیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ وہ تمام مطلوبہ تعداد میں اک جگہ اکٹھے ہیں یا نہیں؟تاکہ جب وہ ان پر حملہ آور ہو تو انکو ذیادہ سے ذیادہ تعداد میں موت کی وادی میں پہنچاسکے.
اچانک سامنے سے سَنسناتی ہوئی اک گولی اسکے دائیں بازوں کو چُھو کر گزرتی پیچھے موجود دیوار میں پیوست ہوگئ,بازوں تیزی سے آتی گولی کی رگڑ سے زخمی ہوچکا تھا اور خُون اسکی آستین سے رِستا ہوا اس کے ہاتھ تک پہنچ چکا تھا لیکن اس تکلیف کے باوجود بھی اسکی بے خوفی میں رتی بَھر بھی کمی نہیں آئی تھی بلکہ اسکی آنکھوں کی چمک مذید تیز ہوگئی تھی اس بات کا ادراک کر کے کہ دشمن اسے دل پر بھی وار کرسکتا تھا وہ گولی بازوں کی بجاۓ سیدھا اسکے دل میں بھی داغی جاسکتی تھی لیکن عیار و چالاک دشمن کو معلوم تھا کہ دل پہ گولی چلانے کا مطلب خود انکی موت تھا ,انکی موت جو مرنے سے انتہاء درجے کے خائف اور خوف ذدہ تھے.وہ اسکو مارنا نہیں بلکہ زندہ گرفتار کرنا چاہتے تھے کہ انکی زندگی اسکی زندگی کی محتاج تھی,اسلۓ اسکو زخمی ہی کیا گیا تھا تاکہ وہ تھک کر زخموں کی تکلیف سے تنگ آکر زندہ ان کے قابوں میں آجاۓ.لیکن اسے زندہ گرفتار کرنے کی خواہش رکھنے والے یہ بھی جانتے تھے کہ وہ کس قدر نڈر اور بے خوف ہے اور موت سے کیسی محبت کرتا ہے,اسلۓ وہ اب حد درجہ زِچ آچکے تھے اس چوہے بلی والے کھیل سے,اور اب مل کر اک ساتھ اسکو گھیرنے کی پلاننگ میں مصروف تھے,مسلسل دو گھنٹے کی اس آنکھ مچولی سے تنگ آیا ہوا دشمن اپنے اپنے بِلوں سے نکل کر اب اس کے گرد گھیرا تنگ کرہا تھا.
وہ جس وقت اور موقع کی کب سے تلاش میں تھا وہ آپہنچا تھا,سیڑھیوں سے نیچے اتر کر اسنے اک بار تنقیدی نظروں سے اپنا جائزہ لیا اور یہ تسلی کر لی کہ بیگ پیک میں موجود 60 کلو وزنی بارود اس ہی طرح ہے جیسے اسے ترتیب دیا گیا تھا اور سینے پر موجود جیکٹ بھی صحیح طرح تیار ہے,اسکا ہاتھ جیب میں موجود چھوٹے سے ریموٹ کو اپنے اندر اک قیمتی ہیرے کی طرح جکڑ چکا تھا کہ جس کے کھو جانے سے سب کچھ کھو دینے کا ڈر ہو.آج اس بستی میں اسکی آخری رات تھی اسکے گاؤں کی طرح اس شہر کی آخری مسلم بستی کو بھی چند دن پہلے مَسمار کر کے دشمنوں کا وہاں بھی قبضہ ہوچکا تھا,اس تباہی میں اس کے کئی قریبی عزیز,اسکے دوست تھے جو اب شہید ہوچکے تھے اور اس نے انکی شہادت کا بدلہ لینے اور جنگِ آزادی کی تحریک کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہوا تھا جو اب پورا ہونے والا تھا.
اسنے دروازے سے محروم اس دیوار کی طرف قدم بڑھادۓ جس کے باہر دشمن اسکی تاک میں جمع ہوچکے تھے وہ جانتا تھا اس کے ہاتھ ہر طرح کے اسلحے سے خالی ہیں اس کے پاس اس بارودی جیکٹ اور بیگ پیک کے علاوہ دشمنوں پر حملہ آور ہونے کے لئےاور کوئی ہتھیار نہیں ہے,اندھیرے میں اس نے سامنے والی دیوار کے ساتھ تاک لگا کر بیٹھے ہوۓ تمام دشمنوں کو اک ہی پل میں گِن لیا تھا انکی تعداد 20، 25 کے قریب تھی,اسکے ہونٹوں پر مسکرہٹ آگئی تھی جو اسکے قدموں کی رفتار کے ساتھ مذید گہری ہوتی جارہی تھی.جب وہ دیوار پار کر کے دشمن کے بالکل سامنے آگیا تو وہ اک دم حواس باختہ ہوگۓ تھے موت کا خوف انکی شکلوں سے پسینہ بن کر ٹپکنے لگا تھا اس سے پہلے کہ وہ اس پر قابوں پانے کی ناکام کوشش کرتے اسنے ان کے بالکل قریب پہنچ کر ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کا بٹن دبادیا تھا,بٹن کے دبتے ہی زور دار دھماکوں سے پوری بستی گونجنے لگی تھی اور ساتھ ہی تیز روشنی میں انسانی اعضاء چیتھڑوں کی طرح فضاء میں اِدھر اُدھر بکھرنے لگے تھے.
محض 18 سال کی عمر میں وہ شہادت کا رُتبہ پاچکا تھا اس نے اپنے ملک و قوم پر مسلط اللہ کی بتائی ہوئی سب سے ذلیل قوم جو اپنے انبیاء کی قاتل تھی,اس سے انتقام لے لیا تھا,اسکی شہادت سے فلسطین میں 1987 سے جاری تحریکِ انتفاضہ میں اک نئی جان پڑ گئی تھی. اور اہلِ فلسطین دشمنوں کی توپوں,مارٹر گولوں,مشین گنوں,رائیفلوں کے آگے بے سروسامانی کی حالت میں ہر طرح کے اسلحے سے محروم ,ہاتھوں میں بس پتھروں سے ہی اپنا دفاع کرنے اور دشمنوں کو للکارنے پر مجبور نہیں تھے اب انکو اپنی تحریک کو مذید تیز کرنے کیلۓ گوریلا جنگ اور خودکُش حملوں کا طریقہ بھی مل گیا تھا جس کی بدولت دشمن اب پہلے سے محتاط ہوکر اور سوچ سمجھ کر ہی ان پر حملہ آور ہوسکتا تھا,کیونکہ وہ ازل سے موت سے شدید خائف اور ڈرا ہوا تھا.
اگلے چند دن بعد اسکی شہادت کی خبر اود دشمنوں کی تعداد جو واصلِ جہنم ہوۓ تھےتمام اخبارات میں شہ سُرخیوں میں شائع ہوئی تھی اور ہاتھوں میں پتھر لۓ دشمن کے ٹینکوں کا سامنا کرنے والوں کو اک نیا حوصلہ عطا کرگئی تھی.
مرے بچے تُو میری بے حِسی کو درگُزر کردے
کہ مَیں ہر روز خبروں میں
ترے پیاروں کو مرتے دیکھتا ہوں
اور مَیں کچھ کر نہیں سکتا
مری آنکھوں میں ہے منظر
کسی کے زندہ جلنے کا
کسی بُوڑھی کے گِرنے کا
کسی ماں کے بِلکَنے کا
کسی اک باپ کی آغوش میں
بچے کے مرنے کا
ہر اک منظر کھٹکتا ہے مرے دل میں
مگر میں کچھ نہیں کرسکتا
مگر مجھ کو یقیں ہے کہ
مرے بچے,تُو یہ جنگ جیت ہی لے گا
عدو کی گولیوں,راکٹ بموں کے باوجود اک دن
فتح تیرا مقدر ہے
تجھے مُجھ جیسے لوگوں کے سہارے کی ضرورت کیا؟
بڑی طاقت کے سب جالوت خود ہی تجھ سے ڈرتے ہیں
وہ یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ
تُو اپنے دور کا داؤد (علیہ السلام) ہے اور تیرے ہاتھوں میں
وہی تاریخی پتھر ہے.
(30 سال بعد)
مغربی کنارے کی اک گنجان آباد بَستی کے چَھوٹے سے تنگ و تاریک گھر کا اکلوتا بلب روشن تھا کمرے میں موجود 18 سالہ لڑکی اپنے کیمرے سے بنائی ہوئی ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر منتقل کرنے میں مصروف تھی,ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا تھا کہ فلسطین کے اس گنجان آباد علاقے (مغربی کنارے) میں موجود مظلوم ومحکوم فلسطینیوں کو کس بےدردی اور وحشت ناک طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے,ان میں سے بیشتر بچے اور بوڑھے تھے,ان سب کو انکے گھروں سے نکال کر انکے گھروں کو بلڈوز کیا جارہا تھا ان تمام فلسطینیوں پر شک تھا کہ وہ حماس کی پُشت پناہی کررہے ہیں.
ویڈیو جیسے ہی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر منتقل ہوئی اک سیکنڈ میں اس پر 30 لائک اور 40 تبصرے آچکے تھے,اس ہی وقت دروزے کو کسی نے انتہائی زور سے دھکے دینے شروع کۓ تھے اور کمزور ,زنگ آلود دروازہ چند منٹوں میں زمین بوس ہوچکا تھا,اسرائیلی فوجی اندر داخل ہوتے ہی اس پر جھپٹے تھے اسکے ہاتھوں میں موجود موبائل,اسکا کیمرہ سب انہوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور اسے گھسیٹتے ہوۓ باہر موجود بکتر بند میں بٹھا کر لے گۓ تھے.
چند ہی گھنٹوں میں پورے سوشل میڈیا پر طوفان آچکا تھا اور اسکے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ساتھی اسکی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے.اس پر الزام تھا کہ اسکی بنائی گئی ویڈیوز سے دنیا میں اسرائیل کے ( soft image) پر بُرا اثر پڑتا ہے اور دنیا کو اسرائیل کا اصل مکروہ اور بھیانک چہرہ نظر آتا ہے جسے وہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے تک ہر طرح کی دھونس,دھمکی,تشدد اور قتل و غارت گری کی مدد سے چُھپاتا آیا تھا.شدید دباؤ اور احتجاج کے بعد اسے 3 دن بعد رہا کردیا گیا تھا.
اب تحریکِ آزادیءِ فلسطین اک نۓ عہد میں داخل ہوچکی ہے,تمام نہتے فلسطینیوں کے ہاتھوں میں اک طرف پتھر تو دوسری طرف موبائل آچکے ہیں جسکی بدولت وہ دنیا کو اسرائیل کا اصل چہرہ دکھانے کی کوششیں کررہے ہیں. کہ شاید عالمی ضمیر انکی مدد کرنے کیلۓ بیدار ہوجاۓ,شاید.
مگر انہیں ادراک ہے کہ آزادی کی یہ جنگ انکو اکیلے ہی لڑنی ہے,کوئی بھی وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کے ساتھ وابستہ اپنے اپنے مفادات کو چھوڑ کر انکی مدد کو نہیں آئیگا.
احمد صفی نے کہا تھا:
"تاسُف کا ،تحَیّرُ کا سماں ہے
سراپا مسجدِ اقصی فغاں ہے
عرب کے پاس دولت کا زخیرہ
عجم کے پاس ایٹم بم کا ہیرہ
یہی کیا اہلِ حق کا ہے وطیرہ
زباں رکھتے ہوۓ بھی بے زباں ہے
صلاح الدین ایوبی کہاں ہے؟"
تبصرہ لکھیے