ہوم << افغانستان میں پاکستان دشمنی کی بنیاداور حقیقت - جمعہ خان صوفی

افغانستان میں پاکستان دشمنی کی بنیاداور حقیقت - جمعہ خان صوفی

تاریخ کی نہ صرف غلط تفسیروتوجیح بلکہ تاریخ کی سرے سے خاص مقصد کی خاطرتخلیق پس ماندہ اقوام کے لیے خطرناک عواقب کا حامل ہوتی ہے۔ پاکستان کے خلاف افغانوں/ پختونوں کی نفرت اسی مسخ شدہ تاریخ کا شاخسانہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سکولوں اور کالجوں میں پاکستان سٹڈیز مضمون نے ہمارے نوجوانوں کو تاریخ سے لاعلم کر دیا ہے جس نے حالات اورگھمبیر بنادیےہیں اورپختونوں کے ایک حصے کوغلط افغان بیانیہ کے زیراثر لاکھڑا کیاہے جسے نام نہاد پشتون قوم پرست بھی ہوا دیتے رہے ہیں۔افغانستان میں معاملہ بالکل برعکس ہے جہاں پر تاریخ کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن وہاں کی تاریخ اس قدر مسخ شدہ ہے کہ جس نے خود افغانستان کے اندرمختلف نسلی اقلیتوں کے ساتھ اور پڑوس میں بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ اب افغانستان کے اکثر غیر پختون اس صورتحال کو بلکہ افغانستان کے سارے قومی بیانیےکو چیلنج کرتے ہیں، یہاں تک کہ افغانستان کے نام کو تبدیل کرنے اورپرانا نام خراسان بحال کرنےکا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ظاہرشاہ دور کا بیانیہ متنازعہ بنا ہواہے ۔افغانستان میں مختلف قومی اکائیوں کی پرانی عددی رِٹ کو جعل شدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس صورت حال نے افغانستان کے پختونوں کو چڑچڑا بنا دیا ہے۔

پشتو زبان ، ادب اور تاریخ کی ترویج وترقی احسن اقدامات ہیں ۔ لیکن اِن کی آڑ میں تاریخ و ادب کو مسخ کرنا اور اُسے نفرت اور تعصب کی بنیاد بنا کرغرض آلود سیا ست کے لیے اپنے ملک کے اندر اورپڑوسیوں کے خلاف استعمال کرنا بہت بڑی حماقت اور خطا ہے ۔ افغانستان میں کچھ اِسی طرح کا کام کیا گیا ہے جس نے اندرونی اور بیرونی دشمنیاں پیدا کی ہیں ۔ پاکستان کے خلاف نفرت اور کدورت اور اُس کی قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو نہ ماننےکی تکرار اِسی غلط روش کا نتیجہ ہے ۔ اِس سلسلے میں پاکستانی پالیسی ساز بھی کم علمی یا بے خبری کے عالم میں ہمیشہ اشتباہ آمیز سیاست کا شکار رہے ہیں اور غیر ارادی طور سے بالواسطہ افغان بیانیے کو تقویت فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اگر آپ پاکستان کے ایوانوں میں کسی افغان پالیسی ساز سے پوچھیں کہ "پٹہ خزانہ" کیا بلا ہے تو کوئی بھی نہیں جانتا۔ اُ ن کو معلوم نہیں کہ اِس سند کے آنے کے بعد افغانستان نے موجودہ افغانستان کو پشتو زبان اور ادب کا اولین گہوارہ بنا کر جلدی پاکستان کی سرزمین پر دعویٰ شروع کیا تھا۔اِ س کے بغیر وہ افغانستان کو پشتونوں کا گہوارہ ثابت نہیں کر سکتے۔

اٖفغانستان کی ڈھائی سو سالہ سے زیادہ تاریخ میں صرف ظاہر شاہ اور صدرداؤدکا دور نسبتاً امن اور آشتی کا دور ہے ۔ مگران پُر امن حالات نے حکمران اشرافیہ کو موقع فراہم کیا کہ وہ ادبی اور سیاسی تاریخ کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھال کرمستقبل کے طالب علموں کے لئے مشکلات پیدا کریں اور ہمسائیگی میں زہر گھول دیں. افغانستان میں تاریخ کے ساتھ کھلواڑ اس وقت سے شروع ہوا ،جب حکمران جوتھے تو پشتون، مگراحمد شاہ ابدالی کے زمانے سے تاریخی طور پر فارسی زبان اورفارسی کلچر سے وابستہ رہے تھے ، بلکہ درانی سلطنت کےوجود میں آنے سے پہلے بھی وہ ایران کے ماتحت تھے اور فارسی کلچر کا حصہ تھے. ان کوتیسری دنیا میں بیسویں صدی کی قومی آزادی کی تحریکوں اور خصوصاًہندوستان میں آزادی کی تحریک جو جلدہی پشتون علاقوں تک پھیل گئی تھی، کے زیر اثر داخلی دباؤ کی وجہ سے قومی تشخص کو اُجاگر کرنے اورقومی بیانیہ کو ترتیب دینے کے لیےپشتو زبان اور کلچر سے افغانستان کی سیاست، زبان اور تاریخ کو جوڑنا پڑا۔کیونکہ بنیادی طور افغانستان میں مختلف قومیتوں کاا کٹھ اور تلوار کا مرہون رہا ہے ۔اس کے لیے کہانیاں گھڑیں گئیں اور تاریخ اور پشتوادب کے ساتھ نت نئی افسانہ سازیاں کی گئیں،جسے افغانستاان میں غیر پشتون نسلی فسطائیت سے تعبیر کرتے ہیں۔

تاریخی لحاظ سےپشتو زبان وادب کا مرکز پشاور وادی رہے ہیں۔ موجودہ افغانستان فارسی زبان و ادب کا گہوارہ رہا ہے جو خراسان کے نام سے موسوم یا عظیم تر ایران کے زیر اثر تھا۔بلکہ افغانستان کے ملک الشعراء سارے کے سارے فارسی بان رہے ہیں ۔ پہلا ملک ا لشعراء قاری عبداللہ تھے اورآخری ظاہر شاہ کے سرکاری شاعر استاد خلیل اللہ خلیلی، دونوں فارسی زبان کے قادرالکلام شاعر تھے۔ (اگر چہ افغانستان میں سرکار نے اپنے آپ کو ایران سے علیحدہ کرنے کے لیے فارسی کو دری کا نام دینا شروع کیا جو فارسی زبان کا دوسرا نام ہے اور افغانستان کے عام لوگ ابھی تک دری بولنے والوں کوفارسی بان اور ان کی زبان کو فارسی پکارتےہیں)

مشہور انگریزی لکھاریوں جو انیسویں صدی یا بیسویں صدی میں افغانستان سے رابطے میں آئے، جیسے ماؤنٹ سٹوارٹ الفنسٹن، الیگزنڈر برنز اور اولف کیرو اور کئی دیگرنے بھی تصدیق کی ہے کہ حکمران درانی اور خاص کراشرافیہ فارسی بولتے تھے اور ان کو پشتو نہیں آتی تھی۔ بلکہ جو پاکستان میں بھی باقی رہے ہیں، ان کی اکثریت ابھی تک گھروں میں فارسی تکلم کرتے ہیں ۔پھر تاریخی طور پر ان کا علاقہ ایران کا حصہ رہا تھا۔ سو ایک مشکل پیش آئی کہ کس طرح افغانستان کو اور خاص کردرانیوں کے آبا ؤ اجدادکے علاقے کوپشتو ادب و تاریخ سے منسلک کیا جائے۔ نادرخان کے برسراقتدار آنے کے ساتھ محمد گل خان مہمند کو وزیر داخلہ، شمالی علاقہ جات کا انچارج ، قندہار اور ننگرہار کا ملٹری سربراہ اور ادبی امور کا کرتا دھرتا بنا دیا گیا۔ انھوں نے حکمران خاندان کی مرضی سے پشتونائزیشن کا بیڑہ اٹھایا۔حکمران خاندان کی مدد سے انھوں نے موجودہ افغانستان کےنہ صرف ترکی اور فارسی میں موسوم جگہوں کے نام پشتو میں تبدیل کیے، پشتونوں کی شمال (افغان ترکستان) اور مغرب میں آبادکاری کا سلسلہ تیز کیا بلکہ افغانستان کی زبان و ادب میں بہت سی تبدیلیوں کا بیڑہ اٹھایا۔یاد رہے کہ شمال اور شمال مغرب میں پشتونوں کی آبادکاری بہت پہلے سے شروع ہوئی تھی، امیر عبدالرحمان نے اُ س میں تیزی لائی جبکہ ظاہر شاہ خاندان نے اُس کو اور سرعت بخشی ،اس کی حمایت انگریز بھی کرتے تھے کیونکہ وہ پہلے روسیوں اور پھر سوویت باشندوں سے ہمزبان فارسی بانوں اور پھرتاجکوں، ازبکوں، کرغیزوں اورترکمانوں کے باہمی روابط سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ بلکہ افغان نیشنلزم کی بنیا دبھی انگریزوں نے فراہم کی ۔ کیونکہ پہلے پہل وہ ایران کے راستے نیپولین کی ممکنہ پیش قدمی کی ڈر میں مبتلا تھے، اِس لیے پہلے ایران سے پینگیں بڑھاتے رہے اور پھر روسیوں اور بعد میں اکتوبر انقلاب کی وجہ سے انقلابی نظریاتی یلغار سے خوفزدہ تھے اور اس لیے افغان نیشنلزم اور غیر پختون ترکستان میں پختونوں کی آباد کاری کی حمایت کرتے تھے اور افغان نیشنلزم کو مہمیز دیتے رہے۔

1932ء میں قندہار میں محمد عثمان خان بارکزئی کی سربراہی میں پشتو ادبی مرکز کی بنیاد ڈالی گئی۔اسی اثناء میں ان کی نظر قندہار کے ابھرتے ہوےنوجوان عالم پر پڑی جو کاکڑ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور فارسی، پشتو کے علاوہ تھوڑی بہت انگریزی اور اردوبھی جانتا تھا۔ موصوف حکمران خاندان کے بھی چہیتے بن گئے۔1934ء میں انجمنِ تاریخ بنائی گئی اور صدرداؤد کے بھائی سردار محمد نعیم خان اس کے سربراہ بن گئے تاکہ افغان تاریخ کو سرکاری سانچے میں ڈھالا جائے۔1936ءمیں پشتو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اور سرکاری ملازمین پر اُسے جبری سیکھنے کاقانون بنایا گیا۔ 1937ء کو پشتو ٹولنہ (انجمن پشتو) کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی طرح افغان تاریخ اور ادب کو پشتونائز کرنے کی ابتدا کی گئی۔ پشتون ہونے کے ناطےمیرے خیال میں یہ مستحسن اقدامات تھے لیکن سرکاری پالیسی کے ماتحت ہونے کے باعث سرکاری نیشنلزم کے آلہ کار بن گئے اور خدمات کے ساتھ ساتھ مسائل کو بھی جنم دیا۔ جلد ہی حبیبی صاحب پشتو ٹولنہ کے رئیس (ڈائریکٹر جنرل) بنا دیے گیے۔اسی زمانے میں موصوف نے تین ایسے کام کیے جو متنازعہ ہیں۔انھوں نے بلکہ ان کی مدد سے مبینہ طور پرپشتو شاعری کا ایک ایسا نام نہادتذکرہ یا مجموعہ بنام "پٹہ خز انہ" (خفیہ خزانہ) مبینہ طور سے ایک ایسے نام (عبدالعلی اخوندزادہ خانوزئی آف ژوب) کے توسط سے دریافت کیا گیا ،جسے انھوں نے 1944 ء میں چھاپ دیا ۔ خانوزئی کا نام تب لیا جب وہ مرگیا تھا۔ دعویٰ کیا گیا کہ "پٹہ خزانہ" دراصل 1729ء کے لگ بھگ محمد بن داؤد ہوتک نے ہوتکوں (غلجیوں)کے فرمانروا شاہ حسین کے کہنے پر قندہار میں تحریر کیا تھا ،جس میں پشتو شاعری کی قدامت کو جدیدفارسی شاعری سے بھی کئی عشرے پہلے اور پشتو کی ستارھویں صدی کی معلوم تحاریر سےآٹھ سو سال قبل آٹھویں صدی عیسوی تک پہنچایا گیا تھا اور اس کا پہلا شاعر امیر کروڑ آف غور قرار دیا۔ اُس میں زیادہ تر شعراء جعل کیے گئے ہیں۔

دراصل "پٹہ خزانہ"ایک سیاسی کتاب ہے جو سیاسی اغراض کو پورا کرنے کے لیے لکھی گئی تھی، اور جس کو ظاہر شاہ حکومت کی آشیر باد حاصل تھی ۔"پٹہ خزانہ" کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلے حصہ میں چندایک کو چھوڑ کربائیس قدیم دور سے وابستہ شعراء ہیں، دوسرے میں مبینہ مؤلف کے ہم عصر اکیس شعراء ہیں اور تیسرے میں چھ خواتین شعراء ہیں اور باقی دو میں ایک مبینہ لکھاری محمد اور دوسرا اُس کا باپ داؤد ہیں ۔ سبھوں کو ملا کر اکیاون شعراء بنتے ہیں۔مجموعہ میں زیادہ تر پیروی " تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی" تالیف خواجہ نعمت اللہ ہروی سے کی گئی ہے اور حسب ضرورت اُس میں تحریف بھی کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نعمت اللہ ہروی پہلا شخص مانا جاتا تھاجس نےغور کو پشتونوں کا جنم بھومی قرار دے کراُن کو بنی اسرائیل اور پشتو کو عبرانی کی شاخ قرار دیا تھا جبکہ بعدمیں حبیبی نے اُن کو آریاءالنسل گرداناہے۔

مجموعہ میں افسانے اور جعل سازی کا امتزاج ہے جس پر حقیقت کی نمک پاشی کی گئی ہے۔ اس کو جعل سازی کا خوبصورت مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔ جس کی اصلیت کو انگریزپشتون شناس سراولف کیروSir Olaf Caroe، انگریزایران شناس ڈیوڈمیکنزی David Neil MacKenzie، اطالوی لوسیا سیرینا لو ئیLucia Serena Loi، روسی شرق شناس یوری گنکووسکیY.V.Gankovosky،اورناروے کے افغان شناس جارج مارگنسٹئرن Georg Morgenstierne اور بالواسطہ بہت دوسروں سکالروں نے مسترد کیا ہے۔ لیکن پاکستانی پشتو ادب اور تاریخ کے دو نامور علماء دوست محمد خان کامل اور خصوصاً قلندر مہمند نے علمی دلائل سے اس کے جعلی پن کو اپنی نوشت "پٹہ خزانہ فی ا لمیزان" میں طشت از بام کیا ہے۔مگر افغانستان کے پشتونوں نے اسے نہ صرف تاریخ کا حصہ بنادیا ہے بلکہ بعض نے اُس کو (نعوذُ با للہ)قرآن کریم کے بعد تقدس کا درجہ دیا ہے ۔پاکستانی پشتون مقلدین بھی اِس مرض میں مبتلا ہیں اور اُس کا دفاع کرتے ہیں ، کیونکہ پاکستان میں اِس طرح کے تحقیقی کام کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا ہے۔

پٹہ خزانہ (خفیہ خزانہ) کے بارے میں پاکستانی مصنف اور تاریخ دان قلندر مومند رقم طراز ہیں : "پٹہ خزانہ ایک بے اصل، بے بنیاد، اور حد درجہ ناقابل تمسک تحریر ہے اور اِس کتاب کے صفحہ صفحہ پرغلط روایات، غلط توجیہات اور غلط واقعات ارادتاً اِس غرض سے لکھے گئے ہیں کہ پشتو ادب اور تاریخ کے بارے میں قارئین کوغلط فہمیوں میں مبتلا کرائیں جو لکھاریوں کے ایک خاص گروپ نے مخصوص مقاصد کے لئے اپنائے ہیں۔"
یہاں پر قلندر صاحب نے لکھنے والوں کے گروپ کا ذکر کیا ہے جو با لکل صحیح ہے کیونکہ یہ نام نہا د خزانہ صرف ایک آدمی کی کاوش نہیں ہوسکتا ،بلکہ ظاہر شاہی دور کے دوسرے پشتون مصنفین یا شعراء نے اُ ن کی مدد کی ہوگی ۔غالباً افغانستان میں مشہور کیے گئے پشتو زبان وادب اور تاریخ کے پانچ ستاروں نے اِس کارخیر(شر) میں ہاتھ بٹھایا ہوگا۔

موصوف نے 1941ء میں ان کے بقول ہلمند کے علاقہ جات میں اکبر زمینداوری کے نام سے ایک گمنام شاعر کے چند اشعار بغیر کسی ثبوت کےمبینہ طور پر دریافت کیے جس پر قلندر مہمند نے یہ تبصرہ کیا ہے:"حبیبی صاحب کے دیگر انکشافات کی طرح اُن کے اس انکشاف کو بھی بغیر بحث کے مانا گیا اور کسی نے اس پر کسی اضافے کی کوشش نہیں کی۔حبیبی مرحوم ہمارے تاریخ کے ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے تھے ، جن کی علمیت اور فضیلت کواس حد تک ماناجاتا تھا کہ ان کی ساری تحاریر پشتو بولنے والوں نے بغیر کسی جرح اور تعدیل کے قبول کی تھیں۔ یہ دور پشتون تاریخ کے بنانے کا دور تھا، سیاسی بھی اور ادبی بھی۔ اور مرحوم عبدالحئی حبیبی نےدونوں میدانوں میں پشتونوں کی بہت سی ضروریات پوری کیں۔"

اس کے علاوہ مرحوم نے حسب نسب و زادگاہ سید جمال ا لدین افغانی کے نام سے ایک کتاب تحریر کی اور کُنڑ کے اسد آباد کو افغانی کا زادگاہ بنایا اور موصوف کو پیر بابا کی نسل سے جوڑتے ہوئے اسے سید زادہ قرار دیا۔(اِس طرح کا دعویٰ شایداپنی اصلیت چھپانے کی خاطر خود افغانی نے بھی کیا تھا)۔برطانوی ہند کے نمائندے کی رپورٹوں سے عیاں ہے کہ افغانی جو استانبولی سیّد اور رومی سیّد سے مشہور تھا ، بہت مختصر عرصہ کے لئے افغانستان میں مقیم تھا اور خاص کرمختصر عرصے کے حکمران سردارمحمدعظیم خان کے بہت قریب تھا، جنھیں امیر شیرعلی خان نے 1868ء میں دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک بدر کیا تھا۔ موصوف نے اسلامی دنیا کا لیڈر بننے کے لیے اپنی شیعہ شناخت چھپانے کی خاطر افغانی کا تخلص پسند کیا تھا ،مگر وہ دراصل ایران کے اسدآباد میں پیدا ہوئےتھے، قزوین، پھرتہران میں پڑھے تھےاور 1850ء میں بغداد سے عالی تحصیلات ختم کی تھیں، صفوی شاہ کےقریب رہےتھےاور افغانستان، انڈیا، مصر، پیرس اور پھر استنبول گئےتھے، جہاں وہ 1897ءمیں فوت ہوگئے۔ ایران میں شاہ کے خلاف جب سازش ہوئی اور اُن کے چیلہ نے 1895ء میں مرزارضا ناصرالدین شاہ کو قتل کیا تو ایران نے ان کوسازش میں ملوث پا کرترکی سے ان کا انخلا ءاور ایران کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو ترکی نے اپنی اور ایران کے ساتھ قدیمی سنی شیعہ تاریخی دشمنی کے تناظر میں اسے افغان کہہ کر مستردکیا تھا ۔ موصوف کی لاش کو پھر افغان حکومت نے 1944ء میں ترکی سے لا کر کابل یونیورسٹی کے احاطہ میں دفنا دیا تھا۔ موصوف جو لکھا ری بھی تھے، نے ایک لفظ بھی پشتو زبان میں نہیں لکھا ہے ۔

حبیبی صاحب1327 ہجری ،شمسی (1948ء) میں افغان شوریٰ کے نسبتاً آزاد ساتویں دور کے لیے انتخابات میں پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ موصوف سے شاید یہ وعدے وعید کیے گیے تھے کہ ان خدمات کے بدلے وہ وزیر، سفیر یا کسی اور بڑےعہدے پر فائز کیے جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا ،مایو س ہو کر سرکاری پاسپورٹ پر پاکستان آگئے اور سیاسی پناہ مانگی۔ انٹیلی جنس اداروں کو افغان پارلیمنٹ کےممبر کا اس طرح آنا عجیب لگا اور شاید اُسےافغان حکومت کا نصب شدہ جاسوس سمجھا اور اِس طرح کراچی میں موصوف کو کئی روز تک نیم خواندہ جاسوسی اہلکاروں کے سامنے تحقیقات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بعد میں نا م نہاد آزادجمہوری افغانستان کا سربراہ بن کر ریڈیو پاکستان پشاور سے افغان مخالف پروپیگنڈہ میں مصروف رہے۔ اُدھر ریڈیو کابل سے پاکستان مخالف پختونستان کا پروپیگنڈہ جاری تھا اور اِدھر سے افغان مخالف تبلیغات جاری تھیں۔ اگر چہ حبیبی صاحب وزیراعظم سردار شاہ محمود خان کے نسبتاً نرم اور"جمہوری دور "میں آئے تھے۔پھروہ 1961 ء میں افغان قونصل جنرل مقیم پشاور غلام حسن خان صافی کی توسط سے معذرت نامہ لکھ کر سردارمحمدداؤد خان کے وزارت عظمیٰ کے آخری وقت میں واپس چلے گئے، اور مرحوم کی افغان شہریت جو واپس لےلی گئی تھی ، بحال کر دی گئی ۔

پشتونائزیشن کا یہ سلسلہ جب شروع ہوا تو اس نے سارے میدانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔غور کے علاوہ بخدی(بلخ ،تخارستان، باختریش، ترکستان)اورزرتشت کو پشتونوں سے تناسب دیا گیا ۔ھخامنشیوں کے زمانے کے بیستون (530 قبل از مسیح) اور کوشانی دور کےسرخ کوتل کے کتیبوں میں پشتو کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ۔ کوشانی شہنشاہ یما کو پشتون بنایا گیا، محمدشہاب الدین غوری جو غالباًٍٍٍٍٍٍٍ مشرقی ایرنی نژادتاجک تھے، کو پشتون بنایا گیا، محمود غزنوی کی ماں جو زابلستان سےتھی اُس کو پختون زادی قرار دیا،سلطان محمود غزنوی اور محمد غوری کے زمانہ میں ملتان کے عرب حکمرانوں کو لودھی افغان بنایا گیا، احمد شاہ ابدالی کے صوفی ملنگ مشیرصابرشاہ جو لاہور کا باشندہ تھا، کو کابلی بنایا گیا، احمد شاہ ابدالی جو ملتان میں پید ہوا تھا، اس کی جائے پیدائش ہرات کو قرار دیا گیا۔"تاریخ خان جہانی مخزن افغانی" کےمولف نعمت اللہ ہروی جو حبیب اللہ کا شی کا بیٹا تھا اور ان کے پیشروؤں کا تعلق ہرات سے تھا ،کو پختو ن قبیلے سےجوڑتے ہوئے نورزئی بنایا گیا۔ ترکی النسل امیرخسرو دہلوی کو کابلی بنایا گیا ۔انگریزوں کے خلاف سردار ایوب خان کی سربراہی میں مشہور جنگ میوند میں ایک افسانوی کردارملالہ کی تخلیق کی گئی۔ ان تمام استادوں اور صاحب پیشہ لوگوں کو جو برطانوی ہندوستان سے یعنی موجودہ پاکستان کے علاقوں سے خدمات بجا لانے کےلیے افغانستان گئے تھے، پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر انھیں ہندی قرار دیا گیا ،لیکن اگر آپ افغانستان کے وجود میں آنے سے پہلے کی شخصیات جیسے سلطان محمود غزنوی کو ایرانی شہنشاہ بیان کریں تو اسےدشمنی پر مبنی گردانتے ہیں۔ان کی منطق کے مطابق اگر آپ پیر روشان، رحمان بابا، خوشحال خٹک وغیرہ کو جومغلی ہندوستان میں پیدا ہوئےتھے، ہندی یا پاکستانی کہیں تو الامان! افغان مولانا جلال الدین رومی کو بلخی لکھتے ہیں کیونکہ وہ بلخ میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن میں قونیہ (روم) گئے تھے ۔ اسی منطق سے تو پھر احمد شاہ ابدالی جو ملتان میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن میں افغانستان اور پھر ایران گئے تو وہ بھی ملتانی (پنجابی یا سرائیکی) ہوئے۔افغانوں کو بھی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو ایران اور پاکستان سے دور ثابت کرنے کے لیے مختلف افسانوں کا سہارا لیں۔

پختونستان کا مسئلہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے جس نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔افغان کہتے ہیں کہ معاہدات انگریزوں کے ساتھ تھے، پاکستان کے ساتھ نہیں تھے، مگر اگر آپ کہیں کہ روس کے ساتھ شمالی سرحد کھینچنے میں تو افغان نہیں تھے اور اب تو دونوں معاہدہ کنندہ گان روسی اور انگریز نہیں رہے ہیں، تو کیا تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ سرحدات قانونی حیثیت کھو چکی ہیں؟ تو جواب ندارد۔ اور حقیقت میں ڈیورنڈ لائن کو امیر عبدالرحمان خان کی خواہش پر کھینچا گیا اورپھر اُس کے پوتے امیر اما ن اللہ خان نے اُسے اُس غزوہ کی بدولت جس نے انھیں غازی بنا دیا ،ایک ڈیجیور بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کیا۔

جس طرح پاکستان قومی سلامتی ریاست ہونے کے ناطے ایک ایسے بھارت مرکوز قومی بیانیے کا شکار نظر آرہا ہے اور جس سے جزوی طور پر گلو خلاصی کی کوشش کی جارہی ہے، اسی طرح افغانستان کے لیے ظاہر شاہ کے دور میں ترتیب شدہ قومی بیانیے نے مشکلات کو جنم دیا ہے اور غیر پختون کھل کر اس سے علیحدگی کا اظہا ر کر رہے ہیں ۔دوسری طرف پاکستان کا بیانیہ مسلم نیشنلزم کی بنیا د پر ترتیب دیا گیا لیکن وجود میں آتے ہی پاکستان اندرونی اور بیرونی مخاصمانہ ماحول میں پھنس گیا –چین انقلاب کی دگر گونیوں میں مصروف رہا، ایران کو چھوڑ کرپاکستان، انڈیا اور افغانستا ن کی دوطرفہ پاکستان مخالف یکجہتی کا شکار ہوا۔ کیونکہ انڈیا پاکستان کے وجود کو عارضی سمجھتا تھا اور اُس کے لیڈر کھلم کھلا اِس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ پاکستان کا قیام عارضی ہے اور جلد یا بدیرپاکستان کواُن کی اپنی ہی شرائط پر واپس بھارت سے جُڑنا ہے، پشتونوں کا ایک طبقہ بھی اِس پروپیگنڈے کا شکار تھا، اس لیے پاکستان کے اندر اُن پاکستان مخالف عناصر کو ابھارتا رہا اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پرانے حلیفوں اور ساتھ ساتھ افغانستان کو پاکستان کے خلاف تقویت دیتا رہا، بلکہ پختونستان کے سٹنٹ کو پیدا کروانے اور اس کو مالی امداد فراہم کرنے میں انڈیا کا بڑا ہاتھ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو مجبوراًاسلا میت کی طرف جانا پڑا ۔ روز اول سے پاکستان کی خواہش رہی کہ افغانستان کے ساتھ اچھی ہمسائیگی اوربرادرانہ تعلق قائم رہےلیکن بھارت و افغان یکجہتی سےایسا ممکن نہ رہا۔اس لیےاب وقت آگیا ہے کہ جو میدان پاکستان نے پشتو زبان، ادب اور تاریخ کے سلسلہ میں افغانستان کے لیے کھلاچھوڑا ہے، اسے ازسرنو ہاتھ میں لے کر پاکستان کے بعض بھٹکے ہوئے پختونوں کو اور خود افغانوں کواس حوالے سے ذہنی طور پر مطمئن اورقانع کریں، وگرنہ خود پاکستان کے پختونوں کا ایک طبقہ ہمیشہ کے لیے اِس غلط بیانیے کے زیر اثر رہے گا اور پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہے گا۔

نوٹ : افغانستان دراصل اقلیتوں کا ملک ہے ، جس میں بسنے والے نسلی اور قومی گروہوں کی اکثریت پڑوسی ملکوں میں قیام پذیر ہے ۔ تاجکوں کی اکثریت تاجکستان اور ازبکستان میں رہتی ہے ۔ ازبکوں کی اکثریت ازبکستان میں بستی ہے، ہراتیوں کی اکثریت ایران میں ہوتی ہے، کرغیزوں کی اکثریت کر غیز ستان میں ہے، بلوچوں کی اکثریت پاکستان میں ہے۔ جہاں تک پختونوں کا تعلق ہے تو ان کا دو تہائی حصہ پاکستان میں ہے۔ کسی پڑوسی ملک نے افغانستان کے ہم نژاد گروہوں پر دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ صرف افغانستان ہے جس نے پاکستان کے علاقے پر دعوی کیا ہوا ہے اور جس کی بنیاد یہ ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے باقی ماندہ افغانستان کا دارالخلافہ اور حکمرانی کا قبائلی تسلسل موجودہ افغانستان میں رہا ہے، ورنہ حق پاکستان کی طرف ہے کہ وہ دعوی کرے۔