ہوم << دھونی سے ڈر گئے؟ - عبداللہ طارق سہیل

دھونی سے ڈر گئے؟ - عبداللہ طارق سہیل

توہین عدالت کے کیس میں عمران خان نے معافی مانگ لی بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ خاتون مجسٹریٹ کے دردولت پر حاضر ہو کر ان سے معافی مانگنے کیلئے بھی تیار ہیں۔ کیس انہی خاتون کو برسر جلسہ دھمکانے پر بنا تھا۔ عدالت نے معافی قبول کر لی.

اور عمران خان کے جذبے کی تعریف اور ستائش بھی کی اور کہا کہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نیر بخاری نے طنز کیا ہے کہ ساری پارٹی عمران خان کے کہے کا دفاع کرتی رہی اور کہتی رہی کہ عمران خان نے کچھ غلط نہیں کیا لیکن عمران خان نے تو جا کر معافی مانگ لی۔ پارٹی تو اصرار کر رہی تھی کہ ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔ تو اس میں غلط کیا ہے؟۔ پارٹی پہلے عمران خان کے اس کہے کا دفاع کرتی رہی جو جلسہ گاہ میں ارشاد کیا، اب اس کہے کا دفاع کرے گی جو عدالت میں عرض کیا، اور اگر معافی مانگی ہے تو وہ بھی ڈٹ کر مانگی ہے۔ یعنی کپتان بدستور ڈٹ کر کھڑا ہے۔

ادھر عدالت کے باہر خان صاحب کے وکیل بھی ڈٹ گئے ہیں۔ کہا ہے ، غیر مشروط معافی تو مانگی ہی نہیں، مشروط معذرت کی ہے یعنی یہ کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا ہے تو معذرت۔ بہرحال اصل سند تو اس لکھے کو ملے گی جو عدالت کے حکم نامے کے تحت خان صاحب کو بیان حلفی میں لکھنا ہے اور جو آٹھ دس دن میں عدالت میں جمع کرانا ہے۔ سب اس لکھے کو دیکھیں گے کہ مشروط معذرت ہے یا غیر مشروط معافی ۔ فیصلہ دراصل اسی پر ہو گا۔ تب تک تو ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔ خان صاحب نے آج (ہفتہ کو) کال دینا تھی۔ ایسا سبھی بتا رہے تھے اور خود خان صاحب نے بھی فرمایا تھا لیکن آج کال دینے کی بات واپس ہو گئی ہے۔ آج محض سڑکوں پر ’’مظاہرے‘‘ ہوں گے، ویسے ہی جو پانچ مہینے سے مہینے میں دو بار کے حساب سے ہوتے آ رہے ہیں۔

لانگ مارچ اور لاک ڈائون کا مدعا خان صاحب نے کارکنوں پر ڈال دیا ہے۔ بتایا ہے کہ مارچ کی کال تب دوں گا جب مجھے یقین ہو جائے گا کہ کارکن آزادی کے لیے تیار ہیں۔ آزادی لینے کے لیے یا آزادی کی جدوجہد کے لیے، خان صاحب نے وضاحت نہیں فرمائی بہرحال یہ واضح فرما دیا کہ فی الحال کارکن تیار نہیں ہیں۔ ان کے تیار ہونے کا یقین آنے کیلئے خان صاحب نے کون سا پیمانہ استعمال کرنا ہے، یہ بھی خدا ہی جانے۔

کچھ کا کہنا ہے کہ دراصل خان صاحب نے حکومت کو ایک اور آخری موقع دیا ہے۔ حکومت کو آخری موقع دینے کی بابت خان صاحب بہت فراخ دل ہیں اور فیاض بھی جی بھر کے۔ 25 مئی کے بعد سے مسلسل حکومت کو آخری موقع دئیے جا رہے ہیں۔ پہلا آخری موقع 30 مئی کا تھا۔ اس کے بعد موقع دینے کی قطار لگ گئی۔ چلئے، ایک موقع اور سہی۔ لیکن کچھ اور کا کہنا کچھ اور ہے۔ یہ کہ دراصل رانا ثناء اللہ کی دھونی دینے کی دھمکی کام کر گئی۔ مولانا فضل الرحمن نے رانا صاحب کو حکیم کا خطاب عطا فرمایا تھا یعنی حکیم ثناء اللہ۔ لیکن دھونی کی دھمکی سے لگتا ہے کہ دراصل رانا صاحب سنیاسی باوا ہیں۔

سنیاسی بابوں سے سیاسی بابے کے ڈر جانے کا یہ پہلا ماجرا ہے جو دیکھنے اور سننے میں آیا ہے۔ حالانکہ سنیاسی بابے ڈرنے والی شے نہیں ہوتے، ان سے تو رجوع کیا جاتا ہے، خاص طور سے جن کی عمر ستر سال ہو جائے، اکثر کسی نہ کسی سنیاسی بابا کی درگاہ میں پائے جاتے ہیں اور کبھی کبھار تو خود بھی سنیاسی باوا بن جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کیخلاف پارٹی نے جو رٹ کی ، اس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس دئیے کہ عوام نے 5 سال کے لیے ووٹ دئیے، پی ٹی آئی اسمبلیوں میں کردار ادا کرے۔ سپیکر کو تصدیق کرنے سے نہیں روک سکتے۔ پارٹی کے رہنما فواد چودھری نے ان ریمارکس کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا شے غیر آئینی ہے۔ کیا یہ کہنا کہ عوام نے 5 سال کے لیے ووٹ دئیے یا یہ کہ پارلیمنٹ میں جا کر کردار ادا کیا جائے۔ جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ گویا یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے کوئی ’’حقیقی آئین‘‘ بنا رکھا ہے اور فواد چودھری نے اسی حقیقی آئین کے تناظر میں ریمارکس کو غیر آئینی قرار دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اصلی آئین کی بات کی ہے۔

استعفے پی ٹی آئی نے یہ سوچ کر نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ دئیے تھے کہ اس کے بعد پارلیمنٹ چل ہی نہیں سکے گی اور نئے الیکشن کرانا پڑ جائیں گے لیکن اے بساآرزو کہ خاک شدہ، پارلیمنٹ بدستور چل رہی ہے اور آثار ہیں کہ اگست تک (یعنی اگلے سال کے وسط تک) اسی طرح چلتی جائے گی۔ سپریم کورٹ کا مشورہ مان لے تو پی ٹی آئی کم سے کم اس فائدے میں تو رہے گی کہ کچھ کردار ادا کر سکے۔ سیاسی پارٹیوں کا کردار یا اسمبلیوں کے اندر ہوتا ہے یا سڑکوں پر۔ اور پی ٹی آئی بے چاری کا معاملہ یہ ہے کہ سڑکوں پر آنے کے قابل نہیں، اسمبلیوں میں جانے کی قائل نہیں، گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر… چنانچہ!

Comments

Click here to post a comment