ہوم << ایک پتھر میں مُقَیّد تاریخ-حماد یونس

ایک پتھر میں مُقَیّد تاریخ-حماد یونس

کبھی برطانیہ کی حکومت مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی تھی۔ سورج برطانیہ کی دھرتی پر کبھی غروب نہیں ہوتا تھا ۔ ان فتوحات کے دوران برطانیہ نے دنیا بھر سے بے شمار نوادرات سمیٹیں ۔
گزشتہ کالم میں ہم نے کوہِ نور ہیرے کی تاریخ اور پس منظر کا احاطہ کیا ۔ بلا شبہ کوہ نور انتہائی بیش قیمت ہیرہ ہے ، لیکن برطانیہ نے اس سے کہیں بیش قیمت نوادرات بھی اکٹھے کر رکھے ہیں۔

انہی میں سے ایک کو دنیا روزیٹا اسٹون کے نام سے جانتی ہے۔
روزیٹا اسٹون ، ایک چٹانی پتھر کی سِل ہے ، ایسا پتھر جو عام پایا جاتا ہے ، مگر اس روزیٹا اسٹون میں کچھ خاص بات ہے۔
اس کی تاریخی حیثیت ،سوا دو ہزار سال قدیم ہونا اور
Ptolemy V کے احکامات کی امین ہونا اسے اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل بناتا ہے ۔ مگر اس کی اہمیت صرف یہاں پر تمام نہیں ہوتی ۔
1798 میں نپولین نے مصر پر حملہ کیا اور ابتدائی طور پر فرانسیسی افواج سلطنت عثمانیہ سے مصر چھین لینے میں کامیاب ہو گئیں ۔

نپولین اس وقت بھی اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ مصر ، دنیا کی قدیم ترین تاریخ کا امین ملک ہے ، جہاں دنیا بھر سے منفرد اور اچھوتا ایک جہاں آج بھی آباد ہے۔
مصری تہذیب ، پانچ ہزار سال سے بھی قدیم ہے ، جس کے آثار ، اہرامِ مصر ، ابو الہول ، ابو سِمبل سمیت پورے مصر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ہزار ہا برس کے دوران بہت سے شہر مصر کے دار الحکومت رہے، جن میں سے بعض کا آج نام و نشان تک موجود نہیں۔
نپولین اپنے ساتھ محققین اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک پوری ٹیم مصر لے کر گئے تھے۔
چنانچہ جب انہوں نے مصر کو فتح کیا تو اس کے بعد ان کی علم کے کھوج نے اپنا باقاعدہ سفر شروع کیا۔
1799
میں فرانسیسی محقق
Pierre Francois Bouchard
نے ایک پتھر کی سِل کو کھوج نکالا ، جس پر قدیم ترین مصری زبان میں کوئی تحریر لکھی تھی۔ جس گاؤں میں سے یہ دریافت ہوا تھا ، اس کا نام راشدیہ تھا ، جس کو فرانسیسیوں نے روزیٹا کا نام دیا۔
اگرچہ دو ستمبر 1801 کو عثمانی افواج نے برطانیہ کی مدد سے فرانسیسی افواج کو شکست دے دی اور روزیٹا اسٹون بھی برطانیہ کی تحویل میں چلا گیا ، مگر اس پر تحقیق کےسلسلے میں دنیا بھر کے اسکالرز اور ماہرینِ لسانیات کو آزادی دی گئی تھی۔
قدیم ترین مصری زبان کو ایک مخصوص انداز اور رسم الخط میں لکھا جاتا تھا ، جسے hieroglyphics کہا جاتا ہے۔ مگر اس زبان کو متروک ہوئے ڈیڑھ ہزار سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا ، چنانچہ اب اسے سمجھنے والا کوئی بھی باقی نہیں بچا تھا ۔ روزیٹا اسٹون سے پہلے جتنی بھی قدیم مصری تحاریر یا کتبے ملے تھے ، ان میں موجود ہیئروگلفس کو ماہرین لسانیات پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر تھے ۔ یہ اندازِ تحریر ہی تمام مہذب دنیا کے لیے بالکل نیا تھا۔
مگر اس پتھر کی سِل میں ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کے تین حصے تھے،
ایک حصہ تو قدیم ترین مصری زبان ، یعنی ہیئروگلفس پر مشتمل تھا، جسے مبہم پکٹو گراف کہا جا سکتا ہے۔
دوسرا حصہ قدیم مصری زبان ، Demotic میں لکھا گیا تھا۔
جبکہ تیسرا حصہ ، قدیم یونانی زبان میں تھا۔
اب جب اس تحریر کو سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کی گئی تو ہیئروگلفس کو سمجھنے کے قابل کوئی بھی نہ تھا البتہ ڈیموٹک کے چند علماء اور ماہرین یورپ میں موجود تھے، جبکہ قدیم یونانی زبان کے ماہرین تو بڑی تعداد میں تھے۔ چنانچہ یہ بات واضح ہوئی کہ قدیم یونانی زبان میں جو تحریر ہے ، اسی کا ترجمہ ڈیموٹک میں بھی ہے۔
جبکہ یہ بات واضح تھی کہ غیر ملکی ناموں کو ڈیموٹک اور ہیئروگلاففک دونوں زبانوں میں فونیٹک انداز سے لکھا گیا تھا۔
اب یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ اگر یونانی اور ڈیموٹک زبان میں ایک ہی بات ہے تو ہیئرو گلفس میں وہی بات کیوں نہ ہو گی؟
چنانچہ اس نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے ، ہیئروگلفس کی گتھی سلجھانے کا کام شروع ہوا۔
اس کو یوں سمجھیے کہ آپ کے پاس ایک تحریر اردو زبان میں موجود ہے ، اسی تحریر کا عربی زبان میں لفظی ترجمہ ، یعنی جس میں ہر لفظ کے نیچے اسی لفظ کا معنی لکھا گیا ہو وہ بھی موجود ہے ، تو کیا اس اردو زبان میں موجود لفظی ترجمہ کی بنا پر آپ عربی زبان کے الفاظ کو نہیں پہچان سکتے؟؟؟
جب روزیٹا اسٹون پر موجود تحریر کی روشنی میں ہیئروگلفس کی گتھی سلجھ گئی تو پھر قدیم مصری اہرام اور اسی قبیل کی دیگر قدیم عمارات اور کتبوں پر موجود تحاریر کو سمجھنا ممکن ہوا اور یہ معمہ ، بالآخر ممکن ہو گیا۔ اس روزیٹا اسٹون کے ذریعے اتنا بڑا انقلاب آیا کہ اس نے لسانیات اور آثارِ قدیمہ کے شعبے کو ایک بالکل نئی راہ دکھائی اور ہزار ہا برس سے موجود تحاریر ، مردہ زبانوں ، اور متروک رسوم الخط کو از سرِ نو زندہ کرنے کا رستہ کھول دیا ۔

اب بات کرتے ہیں اس پر کہ 196 قبل از مسیح کے اس تختی نما پتھر پر کیا لکھا تھا۔
یہ بنیادی طور پر ٹولمائک عہد ، یعنی مصر پر 275 برس تک حکومت کرنے والے یونانیوں میں سے ایک حکمران ، ٹولمی پنجم کی تاج پوشی کا فرمان ہے ، جس میں چند احکامات اور اعلانات درج ہیں۔
ٹولمائک عہد 305 قبل از مسیح سے 30 قبل از مسیح تک جاری رہا ، یعنی ملکہ قلوپطرہ کی موت پر یہ عہد تمام ہوا۔
اس قدیم پتھر پر جن تین زبانوں میں یہ تحریر لکھی گئی تھی ، ان میں سے
ہیئروگلفس کو
Language of the gods کہا جاتا تھا ،
ڈیموٹک کو
Language of Documents
جبکہ ٹولمائک حکومت کی نمائندہ زبان کے طور پر قدیم یونانی زبان استعمال کی جاتی تھی یعنی
Language of the Greeks

جب 2003 میں مصری شعبہ آثار قدیمہ نے روزیٹا اسٹون لندن سے واپس مصر لوٹانے کا مطالبہ کیا تو اس پر انہوں نے واضح موقف اختیار کیا کہ یہ مصر کی تہذیب ، کلچر اور شناخت کی بنیاد اور مصری ورثے کا اہم ترین جزو ہے۔ چنانچہ اس پر سب سے پہلا حق اس کی اپنی سرزمین کا ہے۔
یہ مطالبہ مصر کی جانب سے مسلسل کیا جا رہا ہے۔ 2005 میں برٹش میوزیم نے مصر کو روزیٹا اسٹون کی نقل پیش کی جو ہو بہو اصل پتھر جیسی تھی، مگر کوئی نقل کتنی ہی خوبصورت یا مکمل ہو ، اصل کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتی!!!
جبکہ ماہرینِ لسانیات اور محققین کے نزدیک کوئی پتھر یا کتبہ اس قدر اہمیت کا حامل نہیں کہ اسے روزیٹا اسٹون کا نصف متبادل ہی سمجھا جا سکے ۔
1802 میں پہلی بار انگلینڈ میں نمائش میں رکھے جانے سے آج تک ، لندن میوزیم کی ہزاروں نوادرات میں یہی روزیٹا اسٹون سب سے زیادہ عوام اور خواص کی دلچسپی کا سا مان رہا ہے۔
ناظرین ، روزیٹا اسٹون بہت سے ناولز اور فلمز کا موضوع بھی رہا ہے۔ رک ریورڈن کی کین کرونکلز نامی ناول سیریز ، جسے نیو یارک بیسٹ سیلرز کا ایوارڈ بھی ملا ، میں روزیٹا اسٹون کا تفصیلی ذکر ہے۔ بہت سے مورخین اور ماہرین نے اس پر کتب لکھی ہیں جبکہ طالب علم اس پر ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔
روزیٹا اسٹون ، برٹش میوزیم یا برطانوی تحویل میں موجود شاید سب سے بیش قیمت اثاثہ ہے ۔
مگر اس کے علاوہ بھی ہزاروں قیمتی نوادرات برطانیہ اور پورے یورپ میں موجود ہیں۔ جبکہ تاریخ اور آثارِ قدیمہ میں ایسے کتنے ہی میدان ہیں جن کو ابھی کھوجا ہی نہیں جا سکا ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔

Comments

Click here to post a comment