ہوم << ٹرانس جینڈر بِل یا عذاب کا دعوت نامہ-شگفتہ راجپوت

ٹرانس جینڈر بِل یا عذاب کا دعوت نامہ-شگفتہ راجپوت

گزشتہ چند سالوں سے ہمارے وطن پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور آفتوں میں اک سرِ فہرست آفت "ٹرانس جینڈر بل" بھی ہے,جس کے بارے میں عوام الناس تو لاعلم ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ اس سے زیادہ باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ وہ اربابِ اختیار بھی اس بل کی سنگینی اور اس سے پیدا شُدہ مُہلک اثرات سے بے پرواہ اور بے بہرہ ہیں جنہوں نے یہ بل پارلیمنٹ میں پیش اور منظور کیا تھا,ان میں سے اکثریت بے حد تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہے اور باوجود مسلمان ہونے کےوہ اس بل کے ذریعے ملک و قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں اور ٹرانس جینڈر کی آڑ لے کر ملک میں ہم جنس پرستی جیسے حرام,قبیح اور غیر ملکی ایجنڈے کو فروغ و مرّوج کرنے کی راہ ہموار کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں,
ہم میں سے اکثریت اس دھوکے یا بھول پن میں مبتلاء ہے کہ یہ بل ٹرانس جینڈرز کے حقوق و تحفظ کے بارے میں ہی ہے اور ہم جنس پرستی کا اس بل سےکوئی لینا دینا نہیں ہے,اس سارے ابہام کو سمجھنے اور اس ذہنی خلفشار سے نکلنے کا طریقہ یہ ہی ہے کہ اس سارے معاملے اور ٹرانس جینڈر اور ہم جنس پرست کی تعریف و معنی کو سمجھا جاۓ تاکہ یہ واضح ہوجاۓ کہ اس بل کے ذریعۓ کس کس کو کیسے کیسے تحفظ فراہم کیا جارہا ہے اور ملک کو کس طرح ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلاء کیا جارہا ہے
آج سے پانچ سال پہلے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 9 مئی 2018 کو پی پی کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں پی پی کے ارکانِ پارلیمنٹ میں سے رضاربانی,روبینہ خالد اور فرحت اللہ بابر نے ایک بل ٹرانس جینڈر کے حقوق کے تحفظ کیلۓ پیش کیا تھا جو اس وقت کی پارلیمنٹ نے اکثریتی ارکان کی حمایت سے بغیر کسی بحث کے منظور کرلیا تھا جس میں مسلم لیگ نون بھی حکومت کے ساتھ اس کارِ بد میں اپنا حصہ ڈالنے کیلۓ شامل تھی,اس بل کی منظوری کے خلاف بس اک رُکن پارلیمنٹ جمعیت العلماء اسلام کی نعیمہ کشور نے آواز بلند کی تھی باوجود اس بل کی سنگینی اور اس میں چُھپی ہوئی غلاظت سے لاعلم ہونے کے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز ہمیشہ اَن سُنی ہی کر دی جاتی ہے. اس وقت کے ارکانِ پارلیمنٹ نے اس درجہ اس بل کی منظوری کے حق میں شدید جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا تھا تاکہ اسکا سہرہ اگلی حکومت کے سر نہ بندھ جاۓ اسطرح اس بل کو منظور کرلیا گیا.
پی پی کی حکومت کے بعد جب پی ٹی آئی برسرِ اقتدار آئی تھی تو اس وقت کی انسانی حقوق کی وفاقی لبرل وزیر شیریں مزاری صاحبہ اس بل کے دفاع میں آگے آئیں اور بڑھ چڑھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالا تھا اور اس قانون کے تحت چند رُولز بناۓ گۓ تھے جنہوں نے اس قانون کے اطلاق کو پہلے سے بھی ذیادہ مضبوط کردیا ہے.اب پانچ سال بعد جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق صاحب نے اس قانون میں ترمیم کا بل پیش کیا ہے جو کہ ابھی منظور نہیں ہوا ہے,دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاءالرحمن بھی پانچ سال بعد خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر اس بل کے خلاف مذمتی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کرچکے ہیں اور اس پر طُرفہء تماشہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعت پی پی پی کے رکن اسمبلی قادر مندوخیل اور شاہدہ رحمانی دو مزید ترامیم پارلیمنٹ میں لے آۓ ہیں جن کے منظور ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس بل کو ضابطہء فوجداری سے منسلک کر کے مذید مضبوطی عطا کردی جاۓ تاکہ اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بے اثر کیا جاسکے.
اب یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ بل جس کی وجہ سے یا جس کو لے کر حکومت اتنی عجلت,جوش اور عوام اتنے غیظ و غضب کا مظاہرہ کررہی ہے,وہ بل اصل میں ہے کیا؟
ٹرانس جینڈر بل ان تمام افراد کو قانونی شناخت فراہم کرتا ہے جو تیسری جنس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہمیشہ سے ہمارے معاشرے میں "شُودر" جیسی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اس بل نے انہیں شناختی کارڈ ,پاسپورٹ,ڈرائیونگ لائیسینس بنوانے کا حق دینے کے علاوہ اسکول,کالجوں,یونی ورسٹیوں میں تعلیم کے حصول کا حق عطا کیا ہے جیسے پاکستان کے باقی تمام شہریوں کو حاصل ہے ساتھ ہی ساتھ وراثت میں ان کا حق,کام کی جگہوں اور دوسرے عوامی مقامات پر ان کے تحفظ اور حقوق کے حصول کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے,اور حکومتی سطح پر ان کی حفاظت کیلۓ ادارے بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے اور اگر کوئی گروہ یا کوئی بھی فرد ان سے بھیک منگواتا یا انہیں اس کام پر مجبور کرتا ہے تو اس پر پچاس ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جاۓ گا,یہ تمام باتیں اور فیصلے انتہائی صائب ہیں اور ان افراد کا حق ہیں جو کہ انہیں ملنا بھی چاہۓ,لیکن ساری گڑ بڑ یہاں آکر ہی پیدا ہوتی ہے کہ یہ ٹرانس جینڈر اصل میں ہیں کون؟اور یہ سارا مسلہ اس وجہ سے پیدا شُدا ہے کہ ٹرانس جینڈر کی تعریف یا اس اصطلاح میں ابہام پایا جاتا ہے,ہماری اکثریت ٹرانس جینڈر اور انٹر سیکس(مخنث) کو ایک ہی صنف شمار کرتی یا سمجھتی ہے,اس قانون کے بنانے والوں نے ٹرانس جینڈر اور انٹر سیکس کو ملا دیا ہے جبکہ ان دونوں اقسام میں زمین آسمان کا فرق ہے,انٹر سیکس ہا مخنث وہ افراد ہیں جنکے جنسی اعضاء میں ابہام پایا جاتا ہے جبکہ ٹرانس جینڈر کے معنی بہت وسیع ہیں اور اس میں بہت ساری اصناف شامل ہیں جیسے وہ تمام افراد جو کسی حادثے کی وجہ سے اپنے مخصوص جنسی اعضاء سے محرم ہوچکے ہوں اور جسمانی تعلق کی ادائیگی کے قابل نہ رہے ہوں یا پھر وہ تمام افراد جو اپنا آپ اس جنس میں شمار نہ کرتے ہوں جس جنس یا شناخت کے ساتھ انکی پیدائش ہوئی ہو,جیسے کوئی جسمانی طور پر مکمل صحت مند مرد یہ سمجھنے لگ جاۓ کہ وہ ایک عورت ہے یا کوئی عورت یہ سوچنا سمجھنا شروع کردے کہ جسمانی طور پر تو وہ ہے عورت ہی لیکن اسکی میلانِ طبعی اسکو مرد محسوس ہوتا ہے چاہے وہ شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہی کیوں نہ ہو . اس ہی قسم میں (گے Gay) (لیسبیئن lesbian) (LGBTQ) افراد شامل ہیں.
یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ مخنث یا انٹرسیکس افراد کون ہیں؟نسلِ انسانی کی پیدائش و افزائش اور ارتقاء کیلۓ کروموسومز مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ایک نسل دوسری نسل میں اپنی خصوصیات کروموسومز کی بدولت ہی اللہ کے وضع کردہ نظام کے تحت منتقل کرتی آئی ہےلیکن اگر کرموسومز کی تعداد میں عدم مطابقت پیدا ہوجاۓ تو اس صورت میں پیدا شُدا بچے کی جنس کا تعین نہیں ہوپاتا کہ آیا وہ بچہ لڑکی ہے یا لڑکا ہے؟تو نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ مخنث یا انٹرسیکس کہلاتا ہے.یہاں اس بات کا بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ کوئی تیسری جنس (جیسا کہ ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے) نہیں ہے بلکہ مرد اور عورت ہی کی جنس میں سے ایک جنس ہے جسکا علاج ممکن ہے اور شریعت میں بازورِ تاکید ایسے افراد کے علاج کا حکم دیا گیا ہے,دنیا کی موجودہ آبادی کا ایک اعشاریہ سات فیصد مخنث افراد پر مشتمل ہے.اب مسلہ یہاں آکر پیدا ہوتا ہےکیونکہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت حکومت نے وہ تمام حقوق و تحفظ اس مظلوم مخنث صنف کیساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر افراد کو بھی دے دیۓ ہیں جس کا فائدہ وہ تمام لوگ بھی اٹھا رہے ہیں جو پیدائشی طور پر یا تو مکمل صحت مند مرد ہیں یا مکمل صحت مند عورت لیکں چونکہ وہ خود کو اپنی میلانِ طبع کے تحت عورت یا مرد سمجھتے ہیں تو یہ متنازعہ قانون انہیں بھی یہ تحفظ و اجازت فراہم کرتا ہے وہ اک رات بحثیت مرد سوکر اٹھیں اور اگلی صبح اچانک ان پر یہ انکشاف ہو کہ وہ مرد کے جسم میں قید اک عورت ہے تو وہ باوجود اک مکمل و صحت مند مرد ہونے کے بنا کسی طبی معائنے یا ڈاکٹر سے منظور و وصول شدہ سرٹیفیکیٹ کے نادرہ آفس جا کر اپنی مخالف جنس کے نام سے اپنا نیا شناختی کارڈ بنوا لے یا پاسپورٹ بنوالے,پھر چاہے وہ مرد ہوتے ہوۓ بھی اپنے نۓ عورت کی شناخت والے کارڈ کی برکت سے مرد ہی سے شادی کرلے اس کو کوئی روکنے یا پکڑنے والا نہیں ہوگا کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قانون اسے یہ اجازت و حفاظت فراہم کررہا ہے کہ وہ اپنی پسند کی شناخت حاصل کر کے زندگی گزارے.
2018 میں اس قانون کی منظوری کے بعد محض چند سال کے عرصہ میں نادرا کو جنس تبدیلی کی 30 ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور خواجہ سراؤں یا مخنث افراد کی طرف سے دائر درخواستوں کی تعداد محض 30 تھی,یہاں 30 ہزار اور 30 کا اتنا واضح فرق اس بات کو سمجھنے کے لۓ کافی ہے کہ اس قانون کا ذیادہ فائدہ کون افراد اٹھا رہے ہیں اور ملک کو کس طرح قومِ لوط علیہ سلام پر آۓ عذاب کی طرف دھکیل رہے ہیں.
اپنی پیدائشی جنس کی نفی (باوجود ایک مکمل صحت مند مرد یا عورت ہوتے ہوۓ) ایک نفسیاتی بیماری کہلاتی ہے جسے (Genderdysphoria) کہا جاتا ہے اور اسکا باقاعدہ علاج موجود ہے.
بحثیت مسلمان اور اک ایسے ملک کے باسی ہوتے ہوۓ جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے ہم سب جانتے ہیں اس قبیح فعل (ہم جنس پرستی) کی اسلام میں کیسی سخت ممانعت کی گئ ہے,اور اس فعل میں مبتلا قومِ لوط علیہ السلام پر اللہ کی طرف سے پتھروں,بارش اور زلزلے کا عذاب بھیج کر انکی (سدیم,گموراہ اور سدوم) بستیوں کو اُلٹا کر کے زمین میں دھنسا دیا گیا تھا.
یقیناً اللہ کے قانون میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے.ہر وہ شخص یا قوم جو اللہ کے قوانین کی مخالفت کرتا ہے اور اس سے بغاوت کرتا ہے وہ اس آفاقی قانون کے تحت اپنے انجام سے دوچار ہوتا ہے.جیسا کہ قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے
"پھر جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ نیچے کرڈالا اور اس پر مسلسل پتھر کے کنکر برساۓ تہ بہ تہ.آپ کے پروردگار کے ہاں سے نشان کۓ ہوۓ"
(سورت ہود آیت 82 -83)
اس عذاب کا شکار ہونے والے لوگوں پر وہ پتھر بساۓ گۓ تھے جو نشان ذدہ تھے جن پر ہر اس انسان کا نام لکھا ہوا تھا جس کو وہ پتھر جا کر لگنا تھا,ایسی ہلاکت ایسا عذاب تھا وہ.اور جو ان لوگوں کی مخالفت کرتے تھے انہیں اس قبیح فعل سے روکتے تھے اور ان کے بیچ میں رہتے ہوۓ بھی ان کے طرزِ عمل سے خود کو بچا کر رکھ رہے تھے تو اللہ نے بھی ان تمام لوگوں کو بچا لیا تھا اس عذاب سے اور انکو با حفاظت اس بستی سے دور اک پاک اور محفوظ مقام پر منتقل کروا کر گناہوں میں ڈوبی ہوئی اس بستی اور اسکے باسیوں کو تا قیامت نشانِ عبرت بنا ڈالا تھا.لیکن کیا ہم عبرت حاصل کر رہے ہیں؟شاید نہیں ,ایک مسلمان ملک ہوتے ہوۓ بھی پاکستان وہ پہلا ملک ہے جہاں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کیلۓ قانون بنایا اور منظور کیا گیا ہے,ایسا تو ہمارے سیکولر پڑوسی نہیں بھی نہیں کیا ہے ابھی تک.تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں عذاب الہی سے محفوظ رہ سکیں تو اس متنازعہ قانون اور اس کے اطلاق اور اس سے فائدہ اٹھا کر ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والے تمام افراد کے خلاف شدید ردِعمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ حکومت اس بل میں مناسب و ضروری ترامیم کرے تاکہ ہم جنس پرستی کی طرف مائل افراد اس بل کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ملک کو اس لعنت میں مبتلا نا کر سکیں,اصولی طور پر یہ کام حکومتِ وقت کا ہے اور عمومی طور پر ہم سب کا,ورنہ اگر اس میں مذید زرا سی بھی غفلت اور کوتاہی برتی گئی اور اربابِ اختیار کی طرح قوم بھی خوابِ غفلت میں سوئی رہی تو پھر وہ دن دور نہیں ہوگا جب یہ عذاب ہم پر نازل ہو.