’’ مَیں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ راجن پور، تونسہ، ڈی جی خان، سوات اور پنجاب سے ملحقہ بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا تفصیلی دَورہ بھی کیا ہے اور سیلاب متاثرین سے خود مل کر اُن کے مسائل و مصائب سے آگاہی حاصل کی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ مصائب بڑے ہی حوصلہ شکن اور مہیب ہیں ۔ تنہا پاکستان اس مصیبت اور مصیبت زدگان کی دستگیری نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے جہاں پورے پاکستان کو مسلسل ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، وہیں عالمی امداد بھی ناگزیر ہے ۔یہ تباہی دیکھ کر وزیر خزانہ ، مفتاح اسماعیل، بجا طور پر رو پڑے ہیں۔ ہم اپنے ادارے کے پرچم تلے سیلاب زدگان کو فوری طور پر ، خوراک کی مَد میں، ایک پیکیج فراہم کررہے ہیں۔ اس میں 15کلو آٹا، 2کلو چاول باسمتی، 2کلو دال چنا،2کلو کالے چنے، 2کلو دال مونگ، 2کلو چینی،2لٹر خوردنی تیل اور ایک ڈبہ چائے کی پتّی شامل ہے ۔ ہمارے ادارے کے100سے زائدکارکنان دن رات سیلاب زدگان کے لیے ریلیف اور ان میں خوراک کی تقسیم میںجُٹے ہُوئے ہیں ‘‘۔
یہ الفاظ برطانیہ میں بروئے کار عالمی شہرت یافتہ مسلم این جی او ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ (AMWT)کے چیئرمین جناب عبدالرزاق ساجد کے ہیں ۔ وہ خصوصی طور پر سیلاب زدگان کی مدد امداد کے لیے پاکستان آئے ہُوئے تھے ۔ مجھ سے بھی ملنے تشریف لائے تو میرے استفسار پر سیلاب متاثرین کے لیے اپنی خدمات بتاتے رہے ۔ ساجد صاحب نے تاسف کا اظہار کرتے ہُو ئے مجھے بتایا:’’سیلاب نے تباہ شدہ متاثرین کی ضرورتوں کو بھڑکا دیا ہے۔پیٹ اور جیب خالی ہو تو اخلاقیات کہاں یاد رہتی ہیں؟خوراک کے تھیلے تقسیم کرتے وقت کئی بار ایسا بھی ہُوا ہے کہ متاثرین کی کھینچا تانی سے امدادی خوراک کے تھیلے پھٹ گئے اور خوراک زمین پر بکھر کر ضایع ہو گئی ۔ تھیلے چھیننے کی بھی کوششیں کی گئیں۔
یہ سب مگر ہمیں صبر کے ساتھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم سیلاب کے ماروں پر غصہ جھاڑ سکتے ہیں نہ امداد کی فراہمی سے دستکش ہو سکتے ہیں ‘‘۔ انھوں نے غمزدہ لہجے میں کہا: ’’زراعت بھی تباہ ہو گئی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جلد ہی خوراک کا بحران پیدا ہونے والا ہے ‘‘۔ مذکورہ ٹرسٹ کے چیئرمین، عبدالرزاق ساجد، نے بتایا کہ وہ 200سیلاب زدگان کے لیے ایک خیمہ بستی بھی ایستادہ کررہے ہیں، تیزی سے پھوٹتی وبائی و سیلابی امراض کے علاج کے لیے ادویات بھی فراہم کر رہے ہیں اور تائیوان سے مل کر زیادہ سے زیادہ سیلاب متاثرین تک چاول بھی تقسیم کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔انھوں نے شکوہ کیا کہ تاجروں نے مچھر دانیوں اور خیموں کی قیمتوں میں400گنا اضافہ کر دیا ہے۔
سیلاب زدگان کی مسلسل امداد کے حوالے سے ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ‘‘ کے زیر اہتمام پچھلے ہفتے لاہور میں ایک نیشنل فلڈ سیمینار بھی کروایا گیا جس میں گورنر پنجاب ، جناب بلیغ الرحمن،کے علاوہ نامور علمائے کرام، دانشوروں، صحافیوں، ڈاکٹروں، این جی اوز اور یونیورسٹی پروفیسروں نے شرکت فرمائی ۔ اس سیمینار کا عنوان تھا: ’’سیلاب کی تباہی، سیلاب متاثرین کی بحالی اور مستقبل کی منصوبہ بندی‘‘ ۔ سبھی شرکا نے دل کھول کر سیلاب زدگان کی ہر ممکنہ دستگیری اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے تجاویز اور مشورے دیے۔
اِسی طرح AMWTکے چیئرمین نے القدس الشریف (یروشلم) کا بھی حالیہ ایام میں دَورہ کیا ہے۔ وہاں وہ القدس الشریف کے معزز امام و ڈائریکٹر، جناب عمر فہمی الکسوانی، سے بھی ملے اور اُن سے بھی پاکستان کے کروڑوں سیلاب متاثرین کی بحالی اور ان کے مصائب کم کرنے کی دعا کروائی۔ عبدالرزاق ساجد کا کہنا ہے کہ اِس دَورے کے دوران انھوں نے مسجدِ اقصیٰ شریف میں قرآنِ مجید کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی مقدور بھر اعانت کرنے کی بھی کوشش کی ۔ جزاک اللہ۔
عبدالرزاق ساجد سیلاب متاثرین کی اعانت و دستگیری میں تنہا نہیں ہیں ۔ اور بھی کئی انسانیت نواز این جی اوز شب و روز سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے بروئے کار ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں سے رفتہ رفتہ پانی کے اُترنے سے تباہی، بربادی اور ہلاکتوں کے نتائج بھی زیادہ عیاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں۔ سیلاب نے تباہی کی لاتعداد داستانیں رقم کی ہیں۔ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد کو سیلابی لہروں نے ہڑپ کر لیا ہے۔
اِن میں 500سے زائد بچے بھی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل ، جناب انٹونیو گوتریس بنفسِ نفیس سیلابوں کی تباہی کا مشاہدہ کرتے ہی بے اختیار پکار اُٹھے ہیں: ’’تباہی اسقدر زیادہ ہے کہ اکیلا پاکستان سیلاب متاثرین کی مکمل مدد کرنے سے قاصر ہے، اس لیے عالمی برادری کو فی الفور آگے بڑھ کر اور دل کھول کر مدد کرنا ہو گی ‘‘۔ گوتریس صاحب کی یہ آواز دُنیا بھر میں گونجی ہے اور اس کے کچھ مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
وزیر اعظم، جناب شہباز شریف، نے چند دن پہلے سمر قند ( ازبکستان) میں ہونے والی شنگھائی تعاون کانفرنس (SCO) میں شرکت کی ہے اور یہ مسئلہ وہاں آئے عالمی لیڈروں کے سامنے زیر بحث لائے ہیں کہ پاکستان میں سیلاب سے شدید طور پر متاثر ہونے والوں کو بیماریوں اور خوراک کے اُمنڈتے بحرانوں سے کیسے بچایا جائے؟وزیر اعظم، شہباز شریف، آج نیویارک بھی پہنچ رہے ہیں تاکہ وہ 23ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کر سکیں ۔ اُمید کی جارہی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب اِس عالمی فورم سے خطاب کرتے ہُوئے پاکستان کے سیلاب زدگان کا ذکر بھی کریں گے اور مزید امداد کے لیے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ بھی سکیں گے ۔
وطنِ عزیز میںیہ منظر بہرحال خوش کن اور اطمینان بخش ہے کہ لا تعداد کمزوریوں، کمیوں اور خامیوں کے باوجود قومی سطح پر یہ مستحسن جذبہ زندہ اور کارفرما ہے کہ سیلاب متاثرین کی زیادہ سے زیادہ کیسے مدد کی جائے؟ انھیں پھوٹتی بیماریوں کی یلغار سے کیسے محفوظ رکھا جائے ؟ مثال کے طور پر اتوار کو (18ستمبر( جس وقت یہ سطور رقم کی جارہی ہیں۔
امیرِ جماعتِ اسلامی، جناب سراج الحق، کی زیر صدارت اسلام آبادمیں ایک سیمینار منعقد ہورہا ہے اور اِس کا عنوان ہے :’’سیلاب کی تباہ کاریاں: ریلیف اور بحالی کا کام ۔‘‘جماعتِ اسلامی اور جماعت کے ایک ذیلی خدمتی ادارے (الخدمت فاؤنڈیشن) نے سیلاب کے دوران اور سیلاب کے بعد سیلاب متاثرین کی جو دستگیری کی ہے ، اِن کی تعریف و تحسین ہم سب پر فرض ہے۔ ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ کی تو یو این او کے سیکریٹری جنرل نے بھی تعریف کی ہے ۔
پاکستان کے ذمے دار سرکاری اداروں نے یہ تو بتا دیا ہے کہ سیلابوں نے57لاکھ گھروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہی سرکاری ادارے بڑے تیقن کے ساتھ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ، انشاء اللہ، خوراک کا بحران پیدا نہیں ہو گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ کوئی بھی عالمی ادارہ مگر ہمارے اِن اداروں کی اس یقین دہانی سے متفق نہیں ہے۔
مثال کے طور پر ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ایسے معتبر امریکی اخبارات نے ( بالترتیب 13اور 15ستمبر 2022 کو) اپنے مفصل تجزیوں میں بتایا ہے کہ پاکستان کے سیلابی علاقوں میں خوراک کا شدید بحران بھی پیدا ہونے والا ہے اور ملیریا و ڈنگی امراض کی شدت بھی بڑھ جائے گی۔سیلاب زدہ علاقوں میں بھوک اور امراض کا ذکر تو ہمارے میڈیا میں آنے بھی لگا ہے۔ 130روپے فی کلو فروخت ہوتا آٹا اِس امر کی نشاندہی کررہا ہے کہ خوراک کا بحران سر پر آ پہنچا ہے۔
تبصرہ لکھیے