صدر عارف علوی نے پتہ نہیں اطلاع دی ہے یا خبر کے انداز میں پیش گوئی کی ہے کہ جلدہی حالات اچھے ہو جائیں گے۔ جلد بریک تھرو ہوگا۔ سیاسی جماعتیں ٹیبل پر تو آ ئیں نیزکہ کہا سنا معاف کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔
ان کے طویل بیان کا خلاصہ یہی تین سطریں ہیں‘ لیکن میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی والا معاملہ ہے۔ یعنی اچھی خبرآنے کی توقع کوانہوں نے سیاسی جماعتوں کے ایک میز پر آنے سے مشروط کر دیا ہے۔ جماعتیں ایک میز پر کیسے آئیں گی؟ عمران خان کہتے ہیں کچھ بھی ہو‘ چوروں‘ڈاکوﺅں کے ساتھ ایک میز پر کبھی نہیں بیٹھوں گا۔ رائج الوقت ڈکشنری ”انصاف اللخات“ کے مطابق عمران خان کا جو بھی مخالف ہے‘ وہ چور اور ڈاکو ہے۔ دوسری طرف چوروں اور ڈاکوﺅں کے ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں بھی عمران خان کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی کہے گا تب بھی نہیں بیٹھیں گے۔ یعنی نو من تیل لانے پر نہ یہ راضی نہ وہ راضی۔ پھر رادھا کو کون نچوائے گا؟
اس سے بھی اہم بات ”معافی نامہ ہے“ جو علوی صاحب نے داخل کرایا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہا سنا معاف کرنا ہوگا۔ یہ معافی نامہ انہوں نے کس دفتر میں داخل کرایا ہے؟ یعنی معافی کی عرضی کہاں گزاری ہے۔ معافی دینے کی مجاز اتھارٹی کون ہے۔ کچھ بھی واضح نہیں جو بات واضح ہے‘ وہ محض اتنی ہے کہ کہا سنا سے مراد وہ ہے جو عمران نے کہا اور غالباً میر جعفر و میر صادق حضرات نے سنا۔
عمران خان نے وہ کچھ کہا جوپہلے کبھی کسی نے نہیں کہا۔ شہباز گل کے اس آڈیو ہیپر کو بھی اگر ”آواز دوست“ مان لیا جائے تو ”کہا“ کا حجم اور کثافت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یعنی سننے والوں نے بھی وہ کچھ سنا جو پہلے کبھی نہیں سنا تھا اور جو ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ سننا بھی پڑ سکتا ہے۔ بہرحال انہوں نے سنا اور چپ سادھ لی۔ اب علوی صاحب بانداز حکم یہ عرضی گزار رہے ہیں کہ جو کچھ بھی کہا سنا‘ سب معاف کرنا ہوگا۔ پلیز معاف کر دیں نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ معاف کرنا ہوگا اور معاف کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔
کہا سنا معاف کرنے کا اطلاق‘ ظاہر ہے کہ صرف عمران خان رہے۔ نیز ان پر جن کی نے نوازی سے ”آواز دوست بلند ہوگی ۔ نوازشریف اس دائرے سے باہر ہیں اور انہیں باہر ہوئے پورے پانچ برس مکمل ہونے والے ہیں۔ نوازشریف نے بھی کچھ کہا تھا‘ یہ کہ مجھے کیوں نکالا۔ اس سوال پر انہیں پھر معاف نہیں کیا گیا۔ بالترتیب 7 اور دس برس کی سزائے قید۔ بستر مرگ پر پڑی اپنی شریک حیات سے فون پر بات کرنے کی اجازت تک نہیں ملی۔ مریم نواز کو صرف اس لئے سزا سنائی گئی کہ ”مجھے کیوں نکالا“ کہنے والے سنگین مجرم کی صاحبزادی ہیں۔ وہ کبھی وزیر رہیں نہ سفیر نہ مشیر‘ سات سال کی قید اور عمر بھر کی نااہلی ان کے حصے میں یوں مفت میں ہی آگئی۔
نوازشریف کی سزا آج بھی جاری ہے۔ حکمرانی برادر یوسف کی ہے اور ان کی تقریر ٹی وی پر نشر نہیں ہوسکتی۔ ڈیڑھ ہفتہ پہلے ان کا ایک غیر سیاسی پیغام جو سیلاب زدگان کی مدد کیلئے اپیل پر مشتمل تھا‘ غلطی سے ٹی وی پر چل گیا۔ اب اس کی جواب طلبی ہو گئی ہے اور حکومت کو نوٹس جاری ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں‘ حکومت کی ”یہ غلطی“ کہا سنا معاف والے دائرے میں آتی ہے کہ نہیں؟ ادھرجن کی معافی کیلئے عرضی ڈالی گئی ہے‘ کسی اور ہی کیفیت میں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ کال دی تو حکومت کیلئے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
محبان وطن کی‘ اس صورت میں شدید خواہش ہوگی کہ وہ کال دے ہی ڈالیں تاکہ موجودہ حکومت جس نے عوام کی زندگی برداشت بلکہ محال بنا دی۔ برداشت نہ کر سکنے کی شکل میں گرفتار تو ہو۔
خان صاحب بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن کیا کیا جائے۔ رانا ثناءاللہ کا منہ مار جاتا ہے۔
کہا ہم کال دے ڈالیں
کہا تم کال دے ڈالو
کہا رانا کھڑا ہوگا
کہاوہ تو کھڑا ہوگا
حسن اتفاق کہئے‘ جس روز صدر کی عرضی برائے معافی سامنے آ ئی‘ خان صاحب کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی معافی ہو بھی گئی۔ نکے نواز نے عساکر کے زیریں حکام سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بالا حکام کا حکم ماننے سے انکار کر دیں۔ عدالت نے درست فرمایا کہ شہباز گل کا یہ بیان لاپروائی پر مشتمل تھا۔ اس لاپروائی پر گل صاحب کوتوجہ دلا دی گئی ہے۔ امید ہے خان صاحب کا غصہ کچھ کم ہو گیا ہوگا۔
اس دوران ایک اور خبر نے بھی اس ”تھیوری“ کوہوا دی ہے کہ کہا سنا معاف ہونے والا ہے۔ خبر ابتدا میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے چلائی لیکن جب یہی خبر ایک اہم سیاستدان اسحاق خاکوانی نے بھی ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کے بیچ سنا ڈالی تو گویا اسے سند ملی گئی۔ خبر یہ تھی کہ آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان ایوان صدر میں ایک اہم ملاقات ہوئی ہے جس میں ”کہا سنا“ پر درگزر کرنے کی پیش رفت ہوئی ہے اور معاملات اب خوش اسلوبی کی طرف بڑھیں گے۔ خوش اسلوبی سے مراد عمران خان کی خوش اسلوبی سے مراد دوتہائی اکثریت دلانے والے انتخابات کاجلدانعقاد۔
۔”بہرحال“ بعد میں پتہ چلا کہ خبر بے بنیاد تھی۔ یعنی
یہ ہوائی کسی ”عاشق“ نے اڑائی ہوگی۔
اسے آپ ”لب پہ آتی ہے خبر بن کے تمنا میری“ بھی قرار دے سکتے ہیں۔
خان صاحب نے اپنے تازہ جہادی بلیٹن میں مزید فرمایا کہ عوام کا سمندر نکلنے والا ہے۔
ایک سمندر 25 مئی کو بھی نکلا تھا۔ ریڈ زون جا کر سمٹ گیا اور پھر درختوں کو اپنی ہی لگائی گئی آگ کی شدت سے خشک ہو کر تحلیل ہو گیا۔ اس بار ”شجر سوزی“ کیلئے کون سا میدان یا زون یاچوک منتخب کیا جائے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ ادھرادھرکے علاقوں سے بہت سارے درخت کاٹ کر اٹک پل کے پاس کسی کھلے میدان میں گاڑ دے تاکہ ”ذوق شجر سوزی کے تقاضے وہیں پورے کر لئے جائیں۔ بے کارا میں اسلام آباد آنے کی زحمت سے اس ”سمندر“ کو بچا لیا جائے۔ پٹرول کی بھی بچت ہوگی۔ویسے سنا ہے کہ سمندر کا 95 فیصد حصہ پختونخوا صوبے سے آتا ہے.
لیکن بارشوں سے ہوئی تباہی اور عمران سرکار کی مصیبت زدگان سے کمال اورغایت درجے کی بے اعتنائی کے سبب اس بار صوبے سے آنے والے سمندر کا حجم کافی کم ہونے کا یقینی گماں ہے۔ بہرحال 23 تا 26 کی تاریخیں اس سمندری سیلاب کے حوالے سے اہم بتائی جا رہی ہیں۔ یہ تاریخ آنے تک سب متعلقہ حضرات سیلاب کی تباہی اور متاثرین کی بے بسی اور فاقہ کشی کی تصاویر اور ویڈیوز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے