ایک دفعہ امیر تیمور کا نے ایک چھوٹے سے ملک پر حملہ کیا اور بادشاہ کو آسانی سے شکست دے دی ۔بادشاہ کا نام باجل تھا ،جنگ ختم ہوئی ،مخالف لشکر بھا گ گیا، فاتحین مال غنیمت سمیٹنے لگے اور باجل بادشاہ کو وزیروں اور مشیروں سمیت رسیوں میں جکڑ کر تیمور کے سامنے پیش کیا گیا ۔
تیمور اپنے وزرا ء اور سپہ سالاروں کے ساتھ تخت پر بیٹھا تھا ،اس نے باجل بادشاہ کو رسیوں میں جکڑے دیکھا تو قہقہے لگا یا۔باجل بادشاہ کو غصہ آنا فطری امر تھا ،اس نے شکست کھائی تھی اور اس وقت وہ رسیوں میں جکڑا ہوا تھا لیکن بہر حال وہ بادشاہ تھا ،اس نے فخریہ انداز میں سر اٹھایااور تیمور کی طرف دیکھ کر بولا :’’تم پاگل اور بیوقوف ہو ، شاید تم بھول رہے ہو جو دوسروں پر ہنستا ہے ایک دن اسے اپنی شکست پر آنسو بہانا پڑتے ہیں۔ ‘‘تیمور رکااور گہری سانس لے کر بولا :’’میں تمہاری شکست پر نہیں ہنس رہا اور میں اتنا بیوقوف بھی نہیں کہ ایک چھوٹے سے ملک کی فتح پر ہنسنا شروع کر دوں ۔بات یہ ہے کہ تم ایک آنکھ سے اندھے اور میں ایک ٹانگ سے لنگڑا ہوں ،میں قدرت کی ستم ظریفیوں پر ہنس رہا ہوں کہ وہ ہم جیسے اندھوں اور لنگڑوں کو بادشاہتیں عطا کردیتی ہے۔‘‘
ہم میں سے اکثر افراد کو خود سے شکایت رہتی ہے،ہم اپنی ذات اور اپنے وجود سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ہم خود کو دوسروں کی تناظر میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور جب ہم اس ترازو پر پورا نہیں اترتے تو خود کو کوسنا شروع کردیتے ہیں ۔ ہم احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہماری ساری زندگی شکاتیں کرتے ہوئے گزرجاتی ہے ۔من حیث القوم ہمارے قومی المیوں میں یہ جملے شامل ہیںکہ ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ،کسی کو جاب نہیں ملی تواس کا شکوہ ہو گا میرے سب کولیگز کو جاب مل گئی لیکن مجھے نہیں ملی ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ۔ کسی کا پیپر اچھا نہیں ہوا تو وہ بھی یہ کہے گا میں دوسروں سے ذیادہ پڑھتا ہوں لیکن میرا پیپر ٹھیک نہیں ہوا ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے۔
ہم ہر وقت کوئی نہ کوئی شکایت لبوں پر لیے بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی ہمیں موقعہ ملتا ہے ہم مخاطب کے سامنے شکوؤں اور شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں ۔ہم میں سے کوئی بھی اپنی حالت پر خوش نہیں، ہم موازنہ شروع کر دیتے ہیں کہ وہ ایسا ہے میں ایسا کیوں نہیں ۔ اس کے پاس پیسہ بھی ہے ، گاڑی اور گھر بھی جبکہ میں اس سے ذیادہ محنت کرتا ہوں میرے پاس یہ سب کچھ کیوں نہیں ۔وہ ذیادہ ذہین ہے ، وہ ذیادہ خوبصورت ہے ، وہ ذیادہ مالدار ہے ، وہ ذیادہ معزز ہے ، لوگ اسے ذیادہ چاہتے اور اس کا احترام کرتے ہیں ،لوگ اس کی بات مانتے ہیں ہماری کو ئی سنتا نہیں ،سب اسی کی تعریف کرتے ہیں ، سب اس کے کام کو پسند کرتے ہیں اور وہ سب کی نظروں میں اچھا اور ہم سب کی نظروں میں برے ہیں ۔ آپ کو معاشرے کے اسی فیصد افراد اس طرح کی شکایات کرتے نظر آئیں گے ،انہیں یہ شکوے اور شکایتیں کائنات سے بھی ہیں انسانوں سے بھی اور خود اپنے آپ سے بھی۔
دراصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم تقدیر پر راضی نہیں رہتے اور ہم دوسروں سے اپنا موازنہ شروع کر دیتے ہیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر انسان ایک منفرد شناخت رکھتا ہے ، اس کی اپنی تقدیر ہے اور ہر انسان کو اللہ نے ایک الگ پہچان دی ہے ۔ ہم سب برابر ہو سکتے ہیں اور نہ ایسا ممکن ہے ۔ہر انسان کے حصے میں وہی آئے گا جو اللہ نے اسکے لیئے لکھ دیا ہے ۔بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارے لیئے کافی ہے ،دنیا ہر ایک کے لیئے ایک جیسی ہے ،دن اور رات سب کے لیئے یکساں ہیں ، اگر کوئی خواہشات کا پجاری نہ ہو تو دنیا میں سب کچھ موجود ہے ۔ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا نہیںہے ، ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔
ہماری نظریں صرف امراء کا مال ودولت ہی دیکھتی ہیں حالانکہ دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ہم سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں وہ دکھائی نہیں دیتے ،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم انہیں دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔اگر آج ہم وہ سب پا لیں جو دوسروں کے پاس ہے تو ہم پھر بھی خوش نہیں رہیں گے ، ہماری لالچ کا میدان کبھی نہیں بھرے گا ،جو انسان یہ دیکھنا شروع کر دے کہ اوروں کے پاس کیا ہے تو وہ پھر اس کی ساری زندگی یہی دیکھتے ہوئے گزر جاتی ہے ۔ میں اور آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ میراجسم صحیح سلامت ہے ، میرے پاس دوآنکھیں ، دو کان ، د وہاتھ اور دو ٹانگیں موجود ہیں ، میں ٹھیک طرح سانس لے سکتا ہوں ، مجھے کھا نا کھانے اور پانی پینے میں کوئی دشواری نہیں اور میں اپنے پاؤں پر چل سکتا ہوں ۔
جب ہم موازنہ شروع کرتے ہیں تو ہمارے مسائل بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ہم کسی دورے جیسا بننے کی خواہش اور کوشش کیوں کرتے ہیں ، ہم اپنی پہچان اور شناخت خود کیوں نہیں بناتے ،ہم لاکھ کوشش کر لیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی دوسرے جیسا بن ہی نہیں سکتے۔ ارسطو اور افلاطون ہزاروں سال پہلے گزر چکے ، آج تک کو ئی دوسرا ارسطو اور افلا طون پیدا نہیں ہو سکا۔ کوئی جنید بغدادی نہیں بن سکا، کائنات نے کوئی دوسری رابعہ بصری نہیں دیکھی ۔کیا آپ نے انسانوں کے علاوہ حیوانات ،جمادات اور بناتات میں کوئی یکسانیت دیکھی ہے ،کبھی کوئی چڑیا کسی چڑیا سے میل کھاتی ہو ، کوئی کوا کسی کوے کا ہم شکل ہو ، کوئی بھینس یا گائے بالکل ایک جیسی ہوں ، کبھی ایک جیسے پھل آپ نے دیکھے ہوں ، کوئی خربوزہ کسی خربوزے کی مکمل کاپی ہو، کوئی سیب یا انگور ایک جیسے ہوں ۔نہیںتو پھر انسان کیوں کر ایک جیسے ہو سکتے ہیں اور ایک جیسا ہونے کی تمنا کرتے ہیں ۔
کیا کبھی باغ کے پھول ایک جیسے ہوئے ،کبھی چنبیلی نے خواہش کی ہوکہ وہ گلاب بن جائے یا گلا ب کبھی موتیا بن گیا ہو ،ایسا نہیں ہو سکتا کیوں ؟ کیوںکہ یہ فطرت کے خلاف ہے اور اس کائنات میں کبھی کوئی کام خلاف فطرت ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا پاگل پن دوسروں جیسا بننے کی خواہش کر نا ہے ۔ اگر خدا چاہتا تو سب انسانوں کو ایک جیسا پید اکر دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ۔ ذرا تصور کریں اگر دنیا میں لاکھوں لوگ ایک جیسے ہوتے تو کائنات خود کشی کر لیتی کیوں کہ اس سے دنیا بو ر ہو جاتی ، جب ہر طرف ایک جیسے چہرے دکھائی دیتے تو کون برداشت کر پاتا ، کس کی ہمت ہوتی کہ وہ بار بارایک جیسی شکلوں کو دیکھے ۔اگر دنیا میں صر ف گلا ب کا پھول ہوتا تو اس کی یہ قدر نہ ہوتی ۔
اگر ہر طرف موتیا ہو تاتو کو ئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا ۔اس لیے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر انسان منفرد ہے اور منفرد ہونے میں ہی اس کی پہچان ہے ، یہی اس کا فخر ہے ۔ مگر ہم نہ جانے کیوں ساری زندگی دوسروں جیسابننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ،جتنی محنت ہم دوسروں جیسابننے میں لگاتے ہیں اگر اتنی محنت ہم اپنے جیسا بننے میں لگائیں تو شاید ہم سے خوبصور ت انسان اس دنیا میں کوئی نہ ہو ۔ذراایک لمحے کے لیے من میں جھانک کر دیکھیں آپ کتنے خوبصورت ہیں ۔
تبصرہ لکھیے