آپ مبینہ طور پر 25 دسمبر1949ء کو پیدا ہوئے۔ (مبینہ طور پر اس لیے لکھا کہ مؤرخین کے درمیان آپ کے یوم پیدائش پر اختلاف پایا جاتا ہے)۔ اگر آپ بضد ہیں کہ آپ کی پیدائش 25 دسمبر کو ہوئی تھی تو ہمیں بھی مان لینا چاہیے کہ آپ درست فرما رہے ہیں کیونکہ بقول باپو بشیر کے، یوم پیدائش میں دس دن آگے پیچھے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، فرق پڑتا ہے تو اس سے کہ پیدا کون ہوا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم سینٹ اینتھونی سکول سے حاصل کی۔ سکول کے زمانے سے ہی آپ کے پیٹ میں اکثر پاکستانی قوم کا درد جاگ اٹھتا تھا مگر تب یہ بیماری اپنی ابتدائی سٹیج پر تھی، اس لیے ڈاکٹرز درست تشحیص نہ کر پائے۔ میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد آپ نے GCU کالج میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے میں بھی آپ نے دل لگا کر محنت کی، آپ راتوں کو موم بتیاں جلا کر پڑھتے رہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ رات کو موم بتی جلا کر پڑھ رہے تھے کہ ساتھ والی منجی پر سوئے ہوئے میاں شہبازشریف کی آنکھ میں روشنی پڑنے سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے کانی آنکھ کر کے آپ کی طرف دیکھا اور اپنے بڑے بھائی کو رات کے اس پہر پڑھتے دیکھ کر وہ آبدیدہ ہو گئے۔ اپنے آنسو خود ہی صاف کرتے ہوئے بڑے بھائی سے مخاطب ہوئے اور فرمایا "پا جی رات کافی ہو گئی ہے، اب سو جائیں کل پڑھ لینا". بڑے میاں صاحب نے کتاب سے سر اٹھایا اور فرمایا "دیکھو شہباز اگرآج میں بھی سوگیا تو میری قوم جو خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے، اسے کون جگائےگا، اس لیے دوسری طرف منہ کر کے سو جا میرا ویر"۔ اسی دن میاں شہباز شریف کو یقین ہو گیا کہ آپ ایک دن ضرور قائد اعظم ثانی بنیں گے۔
آپ نے کالج بھی بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ کالج کے زمانے میں آپ نے بھرپور محنت کی تھی اور ٹاپ کرتے کرتے رہ گئے تھے۔ ٹاپ اس لیے نہ کر پائے کہ امتحانات کے دنوں قوم کا درد شدید ہوگیا تھا اور ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے اپنے کاروبار پر توجہ مرکوز کر لی۔ آپ شاید اپنے کاروبار پر ہی توجہ مرکوز رکھتے مگر بھٹو صاحب کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی کی بدولت آپ کی تمام فیکٹریاں بھی قومی تحویل میں لے لی گئیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب آپ نے فیصلہ کیا اب تو قوم کی "خدمت " کر کے ہی چھوڑیں گے۔ اسی دن سے آپ کو قوم کے درد کے دورے ایسے تسلسل کے ساتھ پڑ رہے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ قوم کا درد تھا کہ آپ کو سونے نہیں دیتا تھا، پھر ایک دن کسی سیانے بندے نے آپ کو بتایا کہ اس مرض کا ایک "حکیم "ہے، نام ہے اس کا جنرل جیلانی، ان سے رابطہ کریں، امید ہے شفایاب ہوں گے۔ چنانچہ آپ جنرل جیلانی کے شفاحانے پر تشریف لے گئے۔ جنرل صاحب نے آپ کا تفصیلی معائنہ کیااور جلد ہی سمجھ لیا اور بتایا کہ مرض ابھی ابتدائی سٹیج پر ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، اور دوا کے طور پنجاب کی وزارت خزانہ کا قلمدان آپ کے حوالے کر دیا۔ وزارت حزانہ کا قلمدان ملنے کے بعد آپ کی صحت کچھ سنبھلنے لگی، پہلے آپ نے اپنا کاروبار واپس لیا اور پھر وزیر حزانہ کی حیثیت سے جتنی ممکن تھی قوم کی خدمت کی۔
وزارت خزانہ کے دوران خدمت سے یقیناً آپ کی صحت میں بہتری ہوئی مگر آپ بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ اس لیے آپ نے اس وقت کے سب سے بڑے حکیم جنرل ضیاالحق سے روابط استوار کرلیے۔ جنرل ضیا نے آپ کو تھوڑی تگڑی پھکی دی یعنی کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ آپ کے حوالے کردی اور امید ظاہر کی کہ اس سے آپ مکمل طور پر شفایاب ہو جائیں گے۔ مگر جنرل صاحب کو شاید علم نہیں تھا کہ قوم کے درد کی بیماری اتنی بری ہے کہ اس کی جتنی دوا کریں، بڑھتی جاتی ہے۔ وزارتِ اعلیٰ کی پھکی سے بھی جب بیماری جڑ سے نہ گئی تو آپ نے وزارتِ اعظمیٰ کی معجون کھانے کا فیصلہ کیا۔ جنرل حمید گل نے آئی جے آئی میں سارے مصالحے ڈال کر وزارت اعظمی کی معجون تیار کی جس کے کھانے کے بعد آپ ہشاش بشاش نظر آنے لگے مگر برا یہ ہوا کہ آپ کو اس معجون کی لت پڑ گئی. جیسے ہی آپ "معجون وزارت اعظمی " کھانا ترک کرتے یا کوئی زبردستی کروا دیتا تو آپ کی طبیعت پھر بگڑنے لگتی اور چکر آنا شروع ہوجاتے، اور پھر آپ اس کے حصول کےلیے کسی بھی حد تک چلے جاتے۔
1997ء کے انتخابات کے بعد جو معجونِ وزارت عظمیٰ تیار ہوئی وہ ذرا زیادہ کڑک بن گئی تھی جس کی بدولت آپ کو بدہضمی کی شکایت ہو گئی۔ آپ کبھی سپریم کورٹ پر حملہ آور ہو جاتے اور کبھی صحافت پر پابندیاں عائد کر دیتے۔ صحافیوں سے شکایت یہ تھی کہ وہ جھوٹی خبریں لگاتے ہیں مثال کے طور پر ایک اخبار میں شہ سرخی لگی کہ شیر آٹا کھا گیا حالانکہ شیر ایک گوشت خور جانور ہے۔ بدہضمی اتنی بڑھی کہ انہی حکیموں سے پنگے بازی شروع کر دی جن کی بدولت آپ یہاں تک پہنچے تھے۔ پھر کیا تھا اس وقت کے حکیمِ اعظم جنرل مشرف سمجھ گئے کہ کڑک معجون آپ کو ہضم نہیں ہو رہی تو انہوں نے فوراً معجون واپس لی اور ڈبیا پر لکھ دیا کہ "معجونِ وزارتِ اعظمیٰ کو دس سال تک نوازشریف کی پہنچ سے دُور رکھیں ۔منجانب ادارہ تحفظِ قومی مفادات"۔ آپ دس سال کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔ آٹھ سال ہنسی حوشی وہاں گزارنے کے بعد آپ کو پھر سے قوم کے درد کی شکایت ہونا شروع ہو گئی۔ علاج چونکہ پاکستان میں ممکن تھا اس لیے آپ پھر پاکستان تشریف لے آئے۔ پانچ سال تک چھوٹے بھائی کی پھکیِ وزارتِ اعلیٰ سے معدے کو معجونِ وزارتِ اعظمٰی کے لیے تیار کیا اور اب پھر وہی معجون دوبارہ کھا رہے ہیں۔
میاں صاحب کی بس ایک ہی خواہش باقی رہ گئی ہے کہ یہ معجون تاحیات آپ کے پاس ہو تاکہ طبیعت ہشاش بشاش رہے اور آپ کے بچوں کو چونکہ یہی بیماری ہے، چنانچہ یہ معجون ان کے حوالے کر دیا جائے۔ میاں صاحب کو پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں، اتنی "غیور اور با شعور " قوم کے ہوتے ہوئے کوئی مائی کا لال یہ معجون نہیں چھین سکتا۔ آخر میں آئیں سب مل کر دعا کریں کہ حالیہ دنوں میاں صاحب کو جو پانامیریا کا اٹیک ہوا ہے، اس سے اللہ آپ کو صحت یابی عطا فرماۓ اور مزید یہ کہ عمران خان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
احتیاط ! مضمون کو پٹواریوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ (وزارتِ عقلمندی)
تبصرہ لکھیے