ارادہ تو تھا کہ اب ترکی اور دیگر بین الاقوامی ایشوز کو چھوڑ کر اگلے چند کالم ملکی ایشوز پر لکھے جائیں۔ آزاد کشمیر کے الیکشن نتائج کے علاوہ سندھ میںکم از کم چہرے کی حد تک تو تبدیلی آگئی ہے، ایشوز اور بھی ہیں، ان سب کچھ پر مگر بعد میں ، یہ نشست ترکی کے حوالے سے جاری بحث کو سمیٹنے میں صرف کرتے ہیں۔بعض دوستوں نے طیب اردوان پر لکھے میرے تنقیدی کالموں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ترکی کا معاملہ ویسے بھی صرف ایک ملک کا داخلی ایشو نہیں۔ ترکی میں طیب اردوان کا گورننس ماڈل دنیا بھر میں ایک کامیاب اسلامسٹ ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسلامسٹ حلقے خاص طور سے ترکی کے ماڈل سے متاثر رہے ہیں، ہر جگہ اس تجربے کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ان پر کی جانے والی تنقید پر ایسے لوگوں کاناخوش ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ مگر ضروری ہے کہ اس تنقید کا پس منظر سمجھا جائے اور پاکستان کے اسلام پسند حلقے اپنی جذباتیت سے باہر آ کر معاملات کو معروضی انداز میں دیکھنا اور سمجھنا سیکھیں۔
اس ایشو کے تین حصے ہیں۔ پہلا جناب طیب اردوان کی شخصیت اور ان کا طرز حکمرانی ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ بحث اس ناکام بغاوت کے بعد کے تناظر میں کی جا رہی ہے ، مگر میرے جیسے لوگ جو طیب اردوان سے ہمدردی رکھنے اور ماضی میں ان کی مدح میں متعدد کالم لکھ چکنے کے باوجود اب انہیں ہدف تنقید بنا رہے ہیں، وہ ایسا اس بغاوت سے کئی ماہ بلکہ دو تین سال پہلے سے کر رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جناب طیب اردوان اپنی تمام تر مسحور کن کامیابیوں کے باوجود راہ راست سے ہٹ چکے ہیں، اختیارات اپنی اندر سمیٹنے اور اپنی ذات کو نمایاں رکھنے کی بے جاخواہش ان سے غلطیاں کرا رہی ہے۔ وہ عملاً ایک سول ڈکٹیٹر بن چکے ہیں۔ پچھلے تین چار برسوں میں اس کے متعدد مظاہر سامنے آ چکے ہیں، ہم دانستہ آنکھیں بند کرنا چاہیں تو الگ بات ہے۔ اس ناکام بغاوت کے بعد انہیں اپنی آمریت کا سکہ جمانے کا بھرپور موقعہ ملا ہے، جسے وہ نہایت بے دردی اور بے رحمانہ انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔
ترکی میں جناب طیب اردوان کی بے مثال کامیابیاں بحث سے بالاتر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذات اور اپنی کرشماتی شخصیت کے خود ہی اسیر ہوتے گئے ہیں۔ اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے ہوئے انہوں نے پارٹی کو مضبوط کرنے ، نئی لیڈرشپ پیدا کرنے کے بجائے ون مین شو کو اہمیت دی ۔ وزیراعظم کے طور پر ایک شاندار اننگ کھیلنے کے بعد انہیں صدر بننے اور پھر ترکی کے آئین کو بدلتے ہوئے تمام تر اختیارات صدر کے عہدے میں مرتکز کرنے کا خواب دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کسی بڑے لیڈر کا طرز عمل نہیں بلکہ اقتدار کے خواہاں اورعہدے سے تادیر چمٹے رہنے والے سیاستدان کی سوچ ہے۔ ان کی ذات پر کرپشن کے الزامات لگنا بھی افسوسناک امر تھا۔ ایک دینی مزاج رکھنے والے لیڈر کے طور پر انہیں زیادہ شفاف ہونا چاہیے ،اقرباپروری کے بے پناہ الزامات اس پر مستزاد تھے۔ طیب اردوان اور ان کے بیٹے کے مابین مالی معاملات کی مبینہ گفتگو کی آڈیو سامنے آئی، جسے دبانے کے لئے اردوان صاحب نے یوٹیوب، ٹوئٹر وغیرہ پر ہی پابندی لگا دی۔ یہ بات بڑی عجیب تھی ۔ ہمارے جیسے ترکی سے باہر کے لوگوں کے لئے بھی یہ دلیل ہضم کرنا مشکل تھا کہ پابندی اس لئے لگائی کہیں لوگ گمراہ نہ ہوجائیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ اگر کوئی آڈیو ٹیپ غلط بنی تو لوگ سنتے ہی اسے مسترد کر دیتے ۔ جو چیزیں چھپائی جاتی ہیں، شکوک ان کے بارے میں بڑھتے ہیں، کم نہیں ہوتے۔اردوان صاحب نے دو ڈھائی سال پہلے بھی ایک خفیہ سازش کا مبینہ الزام لگا کر ترک پولیس، پراسیکیوشن اور عدلیہ کے بہت سے لوگ نکال دئیے تھے ۔ کہا گیا تھا کہ یہ لوگ حکومت کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ نکالے جانے والوں میں زیادہ لوگ فتح اللہ گولن کے مداحین یا ان کی سوچ سے متاثر لوگ تھے۔ گولن اور طیب اردوان کا اختلاف بنیادی طور پر کرپشن سکینڈلز کے حوالے سے شروع ہوا۔ چھوٹے موٹے اختلافات تو پہلے چل رہے تھے، مگر جب حکومتی پارٹی پر بدعنوانی کے الزامات لگے تو گولن صاحب اور ان کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ان الزامات کی تحقیق ہونی چاہیے ، جس پر ان کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع ہوگیا۔ جناب اردوان کی افتاد طبع ان کے اپنے پارٹی لیڈروں اور دیرینہ ساتھیوں کو بھی برداشت نہیں کر پائی۔ عبداللہ گل پارٹی کے بانی ، اردوان کے پرانے ساتھی اور ترکی کے صدر تھے۔ اردوان نے انہیں بھی ایک کونے میں پھینک دیا۔ ابھی دو ڈھائی ماہ پہلے ترک وزیراعظم احمد اوﺅلو نے بھی استعفا دے دیا، وجہ یہی تھی کہ اردوان صاحب ہر معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا چاہ رہے تھے، وزیراعظم ان کے نزدیک کٹھ پتلی ہونا چاہیے۔ احمد اوﺅلو مستعفی ہوگئے ۔پچھلے سال تیرہ جون کو طیب اردوان کے طرز حکومت پر میں نے ایک بہت سخت کالم لکھا تھا ، جس میں کہا کہ میں شرمندہ ہوں کہ طیب ا ردوان صاحب کو ہیرو کے طور پر پیش کرتا رہا، مگر وہ آخری تجزیے میں ترازو میں ہلکے نکلے ۔ اس لئے میرے جیسے لوگ ناکام فوجی بغاوت کے بعد کے واقعات کو دیکھ کر عجلت میں تنقید نہیں کر رہے، اس کا اپنا ایک پس منظر اور دلائل موجود ہیں۔
فتح اللہ گولن کے خفیہ نیٹ ورک کی اصطلاح پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کیا تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہسپتال بنانا، چیریٹی ادارے بنانا، پڑھے لکھے پروفیشنلز میں دعوت کا کام کرنا، مختلف شعبوں میں اثرورسوخ بڑھانا غلط کام اور کوئی خفیہ نیٹ ورک یا خدانخواستہ فری میسن طرز کی تنظیم بنانا ہے؟ ایسی سوچ مضحکہ خیز ہے۔ دنیا بھر میں اسلامی تحریکیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون نے مختلف شعبوں میں دعوت وتعلیم کا کام کیا۔ مزدوروں سے کا شتکاروں، ٹیچروں سے انجینئرز، ڈاکٹرز ،اور طلبہ سے لے کر سرکاری ملازمین تک اپنا پیغام لے کر جانا ، ان میں دینی ذوق پیدا کرنا، خیر پھیلانا، اللہ کے دین کی طرف مائل کرنا ہر اعتبار سے درست بات ہے۔یہی سید حسن البنا شہید نے مصر میں اور سید مودودی نے پاکستان میں کیا، سوڈان میں ترابی صاحب، تیونس میں راشدالغنوشی کی النہضہ کا بھی ملتا جلتا کام رہا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان میں کیا ایسا نہیں کیا؟تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ، ریلوے مزدوروں میں پریم یونین، پی آئی اے میں پیاسی، ڈاکٹروں کے لئے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن وغیرہ،چیریٹی کاموں کے لئے الخدمت جیسا شاندار نیٹ ورک، غزالی ٹرسٹ سکول ، جسارت ، فرائیڈے سپیشل وغیرہ یہ سب کیا ہیں؟ ترکی میں فتح اللہ گولن نے بھی یہی کام کیا۔ بچوں کے لئے سکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال، چیریٹی ادارے ، بزنس کارپوریشنز، میڈیا ہاﺅسز ، ڈاکٹرز، انجینئرز ، رائٹرز ایسوسی ایشنز وغیرہ بنائیں۔ گولن کی حذمت تحریک اس لحاظ سے البتہ مختلف رہی کہ اس نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے برعکس اپنے نیٹ ورک کو مکمل طور پر غیر سیاسی رکھاتاکہ سیاسی کشمکش یا حکومتیں بدلنے سے اس پر اثر نہ پڑے اور اصل مقصد معاشرے میں تبدیلی لانا بنایا۔ یہ اور بات کہ اردوان صاحب اپنے ذاتی ایجنڈے کے خاطر اس سب کچھ کو تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔
ناکام فوجی بغاوت کے بعدجس غیر معمولی عجلت اور تیزی سے ترک صدر نے گولن تحریک کو کچلنے کے اقدامات کئے ، ان سے ہر کوئی حیران رہ گیا۔ بغاوت کی ناکامی نے ترک عوام کو ہیرو بنا دیاتھا۔ طیب اردوان ایک مسیحا نظر آئے ، ان کے قد میں اضافہ ہوا، مگر ان کے جارحانہ اور واضح طور پر انتقامی پالیسیوں نے اس پورے منظرنامے کو دھندلا کر رکھ دیا۔دو دن پہلے ترکی میں پچھلے ڈیڑھ ماہ سے مقیم ایک پاکستانی صحافی سے واٹس اپ پر میں نے پوچھا کہ ترک اپوزیشن کیوں خاموش ہے۔ اس کا جواب تھا،” یہاں ہر کوئی اس وقت خوفزدہ ہے کہ کہیں ہمارے اوپر الزام نہ لگا دیا جائے ۔ حکومت کے پاس اس وقت لائسنس ٹو کِل آ چکا ہے، اس لئے ہر کوئی تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس حکومتی سوچ کو مگر ہر کوئی ناپسند کر رہا ہے۔ “ترکی میں پچھلے ایک ہفتے کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ لوگ معطل ، برطرف یا گرفتا ر کئے جا چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تین جج بھی پکڑ لئے گئے، جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس نے شکوک بہت زیادہ بڑھا دئیے۔ فوجی بغاوت سے ٹیچروں، یونیورسٹی پروفیسروں، ڈین، ڈاکٹروں، ججوں اور دیگر سرکاری ملازمین کا کیا لینا دینا ہوسکتا ہے؟ صاف نظر آ رہا ہے کہ انہوں نے پہلے سے فہرستیں بنا رکھی تھیں اور ہر اس شخص کو پکڑا جا رہا ہے، جو ان کا سیاسی مخالف یا ان پر تنقید کرنے کا گناہگار تھا۔
ہمارے اسلامسٹ دوست اس پر آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں یا کچھ لوگ طیب اردوان کو رعایت دینا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کا حق ہے ، مگر ہمارے جیسے لوگ اپنے نقطہ نظر کا اظہار کر رہے ہیں، جس کا ہمیں بھی حق حاصل ہے۔
تبصرہ لکھیے