ہوم << آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا - اختر حسین عارف

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا - اختر حسین عارف

مملکت خداداد پاکستان مدینہ منورہ کے بعد اسلامی نظریاتی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا پہلا اور اب تک کا آخری ملک ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی دشمن اس نظریاتی مملکت کو دنیا کے نقشے سے محو کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔اللہ تعالی کے فضل وکرم سے آج سات عشرے گزرنے کے بعد بھی دشمن اپنے مذموم مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔

یہ بات بھی ہم سب پر عیاں ہے کہ دشمن ابھی تک ہار نہیں مانا اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے مختلف ہتہکنڈے استعمال کر کے اس ملک کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے. کبھی اس ملک کے پڑوس کو اکسا کر خارجی وار کرتا ہے تو کبھی ملک کے اندر موجود غدار وطن اور انتہا پسندوں کا پشت پناہ بن کر داخلی امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایسے میں پاک وطن کے جان نثار،ملک کے فدائی اپنی ناموس کی خاطر اٹہہ کہڑے ہوتے ہیں اور ہرہر مقام پر دشمن کے دانت کہٹے کردیتے ہیں. اور دشمن کو جواب دیتے ہیں کہ ''آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا'' اور ہماری حرمت کے پاسبان اپنی ناموس کی خاطر ہر انجام سے بے خوف اپنی عاقبت سنوارنے اور اپنے اس عظیم ملک کو بچانے کے لئے یہ نعرہ لگا کر میدان عمل کی طرف آتے ہیں کہ

میرے محبوب وطن تجہہ پہ اگر جاں ہو نثار
میں یہ سمجہوں گا کہ ٹہکانے لگا سرمایہ تن

سیاچن کی خون منجمد کرنے والی سردی ہویاریگستانوں کی کہال اتارنے والی گرمی،دسمبر کی یخ بستہ راتیں ہو یا جون جولائی کی چلچلاتی دہوپ، پیٹہہ پیچہے اپنوں کاوار ہو یا سرحدپار دشمن کی یلغاران سب سیمقابلہ کرتے ہوئے پاک وطن کی سرحدوں میں سینہ تانے کہڑے یہ نوجوان جو اپنی ذات سے زیادہ مادروطن کیباریمیں فکرمندرہتیہیں،جواپنی خوشی پروطن کی خوشی کو ترجیح دیتے ہیں،جواپنی آرزوں کاگلاگہونٹ کر دوسروں کے سکوں سے جینے کا سہارا بنتے ہیں. یہی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشاد ''لغدوۃ فی سبیل اللہ او روحۃ خیر من الدنیا وما فیہا ''(الحدیث) یعنی اللہ کے راستے ایک صبح لگانایا ایک شام لگانا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے.. کی عملی تشریح ہیں.

بقول شاعر

سو جائو عزیزوکہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و جاوید کھڑے ہیں

اقبالؒ نے جب یہ فرمایا کہ ''آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا '' تو یہ صرف شاعرانہ تعلّی یا ان کے جذبات کا اظہار نہیں تھا بلکہ اقبال کے سامنے بدرواُحدکے معرکے تھے، اقبالؒ کے سامنے خندق و خیبر کی فتح تھی، اقبال کے سامنے جنگ یمامہ اور قیصر و کسری کے ٹوٹنے کی داستانیں تھیں، اقبال کے سامنے صلیبیوں کو پاش پاش کرنے کی تاریخ تھی، (کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرہ) (القرآن) کی عملی نمونہ اور تفسیر تھی،اور اقبال کو یقین محکم حاصل تھا کہ حق والے تہوڑے ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کو اللہ کی مددونصرت حاصل ہوتی ہے.

اور دنیا نے پاک وطن کے معرض وجود میں آنے کے بعد اقبال کے اس فرمان''آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا'' کا ایک بار پھر مشاہدہ کیا۔ تعدادمیں دگنی دشمن نے رات کی تاریکی میں اعلان جنگ کئے بغیر چھپ کر وار کیا تو بہادرجوانوں نے نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور لاہور میں ناشتہ کرنے کاخواب بھی چکنا چور کیا اور دشمن کی بارہ سو کلو میٹر سرزمین بھی ان سے چھین لی. اور اپنی درخشاں ماضی کو دہراتے ہوئے اقبال کے اس فرمان کی بھی لاج رکھی

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

اور دشمن کو ایک بار پھر باور کرایا کہ

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

اسی طرح پڑوسی ملک سے چار جنگوں اور متعدد سرحدی جھڑپوں میں وطن کی ناموس کوبرقراررکھنے کے لیے اپنی جانوں کی پراو کئے بغیر میدان میں کودپڑے۔اوراپنی کم تعداد کے باوجود ملک کے خلاف چلنے والی ہرہر تحریک ناکام بنانے میں کامیاب رہے۔کیوں کہ ان کا یقین صرف تعداداوراسلحوں پرنہیں بلکہ ان کا یقین اور ایمان یہ ہے کہ اگر مر گئے تو شہید ہوں گے اگرزندہ رہے تو غازی ہوں گے فتح تو بہرحال حق ہی کی ہوگی.اور میدان کار زار میں ان کی نظر دشمن کی تعداداوراسلحوں سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشاد (ان الجنۃ تحت ظلال السیوف)(الحدیث) ''بے شک جنت تلواروں(اسلحوں)کے سایے کے نیچے ہے'' پر ہوتی ہے.

''نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں''

خارجی وار کوروکنے کے ساتھ ساتھ داخلی امن کو برقرار رکھنے کے لیے پاک فوج کے جوانوں کی لازوال قربانیوں کو اگر فراموش کیا جائے تو یہ ظلم عظیم ہوگا.ہمارے ملک کے داخلی حالات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے گزشتہ دو،تین عشروں سے خصوصا ملک جس خانہ جنگی اوربدامنی سے دوچار ہے ،ہم سب کے سامنے ہے۔آئے روز ملک کے مختلف جگہوں میں بم دھماکہ،ٹارگٹ کلنگ اورملک کے خون میں نہلانے کامنظرہرچشم بینا دیکھ رہی تھی ۔ملک کوان تمام حالات سے نکال کرامن و آمان کی طرف لانے میں بھی پاک فوج کے جوانوں کا بہت بڑا کرداررہاہے۔اپنی جانوں سے کھیل کر ملک کو امن کا تحفہ دینا یہ کام خاصا مشکل تھا مگر ہمارے ملک کے محافظ ملک کی خاطر کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے تیارتھے اور سربکف ہوکر یہ کہتے ہوئے میدان میں آئے کہ

ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی
اس کا ہر سودو زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی
وقت کا ہے یہ تقاضا متحد ہو جائیں ہم
کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی
(راغب مراد آبادی)

اور اللہ تعالی کے فضل سے سرخرو ہوئے اور ملک کو امن کا تحفہ دیا۔ملک کے اندرونی امن کو بحال کرنے میں بھی کئی نوجوانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا اور خون سے وضو کرکے رب کے حضورچلے گئے اور ہمیں یہ سبق دے گئے کہ

وطن کی آن پر قربان کرتے ہیں دل و جاں کو
ہمارے پاس جو اسباب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
کہیں امید کی کرنیں دلوں میں روشنی کر دیں
کئی جذبے بہت نایاب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
(صبیحہ صبا)

ان بہادروں کے مقابل کھڑے ہونے کی ہمت کس کے اندر ہو سکتی ہے جو ایمانی طاقت اور شوق شہادت سے سرشار میدان میں جائیں جن کے لئے مائوں کی دعائیں ڈھال بنے،جن کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے ملک کے مدارس، مساجد اور خانقاہوں میں دعائیں مانگی جاتی ہوں، جو مادی اسباب کے ساتھ ساتھ روحانی طاقت سے لیس ہوں، جن کی بندوقوں سے نکلنے والی گولی صدائے اللہ اکبر کے ساتھ دشمن کی طرف جائے؟

یقینا ایسے لوگوں کے لئے کامرانیاں خود فرش راہ بن جاتی ہیں اور کامیابیاں ان کی منتظر رہتی ہیں۔